یوم عاشور کی حیثیت اسلامی تاریخ میں آغاز ہی سے مسلمہ ہے۔ جب رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے تو مسلمان عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ عاشور ہی کے دن حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے بچاکر سمندر میں راستہ بناتے ہوئے فلسطین لیکر آئے تھے۔ لیکن اس سب کے ساتھ عاشور نواسہ رسول حضرت امام حسین کا یوم شہادت بھی ہے۔ وہ حسین کہ جس کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں”۔ وہ حسین کہ جو جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں دشت کربلا میں شہید کردیئے گئے۔ اور اب تو یوم عاشور کی پہچان ہی واقعہ کربلا بن گئی ہے۔ محرم کے آغاز ہی سے ملت اسلامیہ شہادت امام حسین پر اپنے اپنے انداز میں رنج و غم کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن بقول مولانا مودودی ” افسوس کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔”
وطن عزیز میں یوم عاشور اور اس سے پہلے کے 9 دن اہل وطن کو شہادت حسین کے اصل مقصد سے روشناس کرانے سے زیادہ انہیں مصیب اور اذیت سے دوچار رکھنے کی کوششوں میں صرف ہوتے ہیں۔ کاروبار بند، سڑکیں و شاہرائیں بند، ٹرانسپورٹ بند، موبائل فون بند، ڈبل سواری بند حتیٰ کے موٹر سائیکل سواری بھی بند۔ چند سالوں پہلے تک تو صورتحال بہت بہتر تھی مگر اب تو لگتا ہے جیسے بھونچال سا آیا ہوا ہے اور اکثریت کو اذیت میں مبتلا کرنا شاید اب روایت بنتی جارہی ہے۔ مذہبی آزادی کی اس سے زیادہ بے نظیر مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے کہ جہاں چند لوگوں کے خودساختہ مذہبی عقائد کی انجام دہی کے لیے اکثریت کے حقوق کو پامال کیا جائے۔
ذرا تصور کیجیے۔ آپ دفتر سے چھٹی کے بعد گھر کی طرف عازم سفر ہوتے ہیں۔ لیکن ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اس سے آگے کا راستہ ماتمی جلوس کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے۔ نتیجتاً آپ کو واپس جانا ہے یا کہیں رک کر کئی گھنٹوں تک راستہ کھلنے کا انتظار۔ اس دوران لوگ جس کوفت و اذیت سے گذرتے ہیں اس کا اندازہ مشکل ہے۔ سڑکوں کو کنٹینرز رکھ کر بلاک کرنا اور دکانوں اور کاروبار کو کئی دنوں کے لیے بند کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ پورے شہر کو عزہ داری، ذوالجناح اور تعزیے کے جلوسوں کے لیے بند کردینا اور اکثریت کو اذیت میں مبتلا کرنا کیا مذہبی رواداری کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مذہبی آزادیاں بھی پامال نہ ہوں اور عام لوگ مصیبت میں بھی مبتلا نہ ہوں؟
کیا اب وقت نہیں آگیا کہ شہر بھر میں جگہ جگہ سڑکوں اور شاہرائوں کو بند کرنے کے بجائے کسی ایک کم گنجان آباد اور کھلی جگہ کو مختص کردیا جائے جہاں عام شہریوں کو اذیت میں ڈالے بیغیر سکیورٹی و دیگر سہولیات کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جاسکے؟
حسینیت تو نام ہے حق و باطل کی کشکش میں اپنی جان قربان کردینے کا، ظلم کے نظام کے خلاف اعلان بغاوت کا، حق کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ لُٹا ددینے کا لیکن کیا کیجئے کہ بہت کم لوگ ہی شہادت امام حسین کے اصل مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ شاید انکی نظروں میں حسینت بجز عزاءداری اور ماتمی جلوسوں کے اور کچھ نہیں۔ ساتھ ہی نہ انکی زبانیں قابو میں رہتی ہیں اور نہ فریق مخالف کی شدت پسندی کہ جس کی روک تھام کے لیے پھر موبائل فون سے لیکر موٹرسائیکل سواری تک سب جرم قرار پاتے ہیں۔
آج جبکہ عالم اسلام پر مصیبتوں کے بادل چھائے ہیں۔ افغانستان و عراق طاغوت وقت کے زیر نگیں ہے۔ فلسطین پر صیہونی قبضہ اور اہل فلسطین پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ لبنان و شام پر بدامنی کے بادل چھائے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کی سازشیں عروج پر ہیں لیکن ان سے نمٹنے کی کوئی تدبیر نظر آتی ہے نہ کوئی ایسا رہمنا کہ جو امت کے منتشر اجزاء کو مجتمع و متحد کرسکے۔۔۔
قافلہء حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
سو فیصد متفق، پر امن جلسے جلوس نکالنا ہر پاکستانی کا حق ہے لیکن اس حق کے لئے عام لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالنا، انکے کاروبار کو نقصان پہنچانا اور ان کی نقل و حرکت کو متاثر کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔
بالکل اتفاق ہے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم مذہبی رواداری کی تعریف دوبارہ متعین کریں اور عوام کے حقوق کو اس ضمن میں بالکل نظر انداز نہیں کیا جائے جسے محرم میں بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہم بھی اس قسم کے معاملات میں کوئی کوڈ آف کنڈکٹ متعین کریں ورنہ اس طرح کی اذیت اکثریت کے دلوں میں اقلیت کے خلاف بلا ضرورت نفرت کا باعث بنے گی۔
جزاک اللہ خیر
سو فیصد متفق،
آپ کی بات درست ہے اور یہی ہم نے بھی اپنے بلاگ پر لکھا ہے مگر مختلف انداز میں۔
اگر تمام جلوسوں کا رخ اسرائیل کی طرف ہو جائے تو کیا اچھا ہو! آج کا کربلا تو غزہ ہے!حسینیت پر رونے والے ایک اور کربلا کو روکنے کا اہتمام کیوں نہیں کررہے؟ صرف ماتم کے بجائے اس کی پیروی زیادہ اہم ہے۔
جی ہاں آپ نے درست نشاندہی کی ہے
لمحہ فکریہ ہے کیسے ایک اقلیت (٣ فیصد) آبادی پورے ملک کو یرغمال بنا لیتی ہے؟
جب کے ہم سادہ لوح عوام مذہبی رواداری کےنام پر یہ سب کچھ سہ جاتے ہیں.
پاکستان میں منتحب شیعہ جماعت نے دشت گردی کو بہانہ بنا کر نہ صرف لوگو کی زندگی اجیرن بنا دی بلکے میڈیا مہم کےذریعےانکی غیر ضروری تشیرکی گئی.
بھائی یومے عاشور کے موقع پر ہر مسلمان اشکبار ہوتا ہےلیکن انداز مختلف ہوتاہے.
اگر اس کلچرکے سامنے بند نہ باندھاگیا تو آنے والے سالوں میں پاکستانی قوم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑہسکتا ہے.