ملالہ میں شرمندہ ہوں، باوجود کوشش کے تمھارے لئے میری آنکھ سے آنسو نہیں نکل پا رہے، کیا کروں ۔۔۔؟ اتنا پانی ان آنکھوں سے بہہ چکا ہے کہ اب شاید کچھ بچا ہی نہ ہو ۔۔۔ تمھیں جب ہیلی کاپٹر سے ا تار کرا سٹریچر پر ڈال کر ہسپتال لیجایا جا رہا تھا تو تمھارے معصوم چہرے پر نظر پڑتے ہی مجھے لالہ یاد آگئی ۔۔ہاں لالہ رخ۔۔۔۔ تمھاری ہی طرح معصوم اور خوبصورت دس سالہ لالہ رخ۔۔۔۔ مجھے سب کچھ یاد آنے لگا۔۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کی شادی کے سات سال بعد جب لالہ رخ پیدا ہوئی تو گاؤں کا ہر فرد خوشی سے نہال گھرانے کو مبارکباد دینے پہنچا تھا ۔ رشتہ دار میلوں مسافت طے کرکے اسے دیکھنے آتے رہے، اتنی خوشی ا س علاقے میں شاید ہی کسی کی پیدائش پر منائی گئی ہوجو لالہ کے حصے میں آئی۔نازوں میں پلنے والی لالہ رخ بڑی ہوئی تو سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ سنہری بال،سرخ و سفید رنگت، باریک ہونٹ ، لانبی بھنویں، ہلکی نیلی جھیل سی آنکھیں ۔۔۔حور پری تو وہ تھی ہی ، مگر ذہین بھی ایسی کہ سب کو حیران کر دیتی ۔ لالہ اپنی دلنشین باتوں سے سب کے دل موہ لیتی۔اس کی دادی روز اسکو کہانی سناتی اور وہ آسمان پر تارے گنتی نیند کی وادیوں میں کھو جاتی ۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا، گھر میں کوئی کاغذ قلم تھا اور نہ ہی گاؤں میں کوئی سکول۔۔۔ لالہ کا چچا اس کو گھر کے صحن کی کچی مٹی پر لائینیں لگا دیتا اور وہ سارا دن الف ب پ پڑھتی رہتی۔۔۔ اور اب جب وہ صرف دس سال کی تھی، یہی الف ب پ وہ گاؤں کی چھوٹی بچیوں کو بھی پڑھانے لگ گئی تھی۔
اس بدقسمت دن وہ اپنے باپ اور دادی کے ساتھ گھر سے باہر چند قدم دور ہی پہنچی تھی کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔۔۔ آسمان سے ایک چھوٹا سا جہاز نما میزائل ان کے پاس آکر گر ا ،آگ کے شعلے اٹھے اور پھر گہرا سکوت۔۔۔ لو گ جمع ہو گئے۔ لالہ رخ کی ماں بھی ہانپتی کانپتی وہاں پہنچی اپنے معذور اور محبوب شوہر کا خون میں لت پت لاشہ دیکھا تو ایسا چیخی کہ پتھروں سے بھرے پہاڑ بھی دہل گئے۔ مگر جونہی اس کی نظر اپنی معصوم پری لالہ رخ پر پڑی تو گویا سکتے میں آگئی ۔۔لالہ کا خون آلود چہرہ دیکھ کر اس کا دل ایسا پھٹا کہ اپنی جان ہی دے دی۔۔۔ لالہ کا چچا پہنچ چکا تھا ، اس نے زخمی لالہ کو اپنے بازؤں میں اٹھا یا اور تیزی سے آگے بڑھنے لگا ، کتنی ہی دیر وہ دیوانہ وار پہاڑوں، پتھروں اور چشموں کی وادی میں دوڑتا رہا ۔۔زخمی لالہ اس کے بازؤں، کاندھوں اور کبھی کمر پر جھولتی رہی، درد کی شدت سے کبھی ہوش میں آجاتی اور کبھی دوبارہ بے ہوش ہو جاتی۔۔۔ بل آخر گاؤں کے پار ایک موٹر سائیکل سوار کو روک کر لالہ کو اپنی ٹانگوں پر لٹایا اور میلوں مسافت طے کر کے ایک کلینک میں داخل کروادیا ، جہاں کے حکیم نماڈاکٹر بڑی مہارت سے لالہ رخ کے سر میں لگے بارود کے پارچے کو نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ لالہ رخ چار دن کلینک میں بے ہوش رہ کر اس درد بھری دنیا سے کوچ کر گئی۔۔۔ تتلیوں سے کھیلنے والی لالہ رخ اپنے وطن کے حکمرانوں اور فوج کی اجازت سے آنے والے امریکی ڈرون کا نشانہ بن گئی۔ اس دن ، اس کی موت پر رونے والا کوئی نہ تھا ۔۔۔ نہ کسی اخبار میں اس کی خبر، نہ ٹی وی پہ کوئی ہیڈ لائن۔۔۔ نہ کسی دانشور کا کالم ،نہ کسی ٹاک شو کا عنوان۔۔۔ نہ کسی سکول کی اسمبلی میں بچوں کی دعائیں ،نہ کسی یونیورسٹی کے اساتذہ کی کوئی ریلی۔۔۔ نہ کسی چوک پہ موم بتیاں روشن ، نہ کسی سڑک پہ سول سوسائٹی کی جینز اور ٹی شرٹس پہنے خواتین کا کوئی احتجاج۔۔۔ کتنی بے نام اور مظلومانہ موت تھی اس ننھی پری کی ۔۔۔ پوری قوم بے حسی کی چادر اوڑے ہوئے تھی ۔اس پر آنسو بہانے والا کوئی نہ تھا۔۔۔
ملالہ یوسف۔۔۔ میں اس دن لالہ رخ کی بے بسی والی اذیت ناک موت پر بہت رویا تھا ۔۔۔۔میں اس دن اس معاشرے کی بے حسی پر بہت کڑھا تھا ۔۔۔ اس دن حکمرانوں ،فوج اور میڈیا کی مناقت کھل کر میرے سامنے آشکار ہو گئی تھی ۔۔۔ اور میرا دکھ کوئی ایک لالہ رخ ہی تو نہ تھی ۔۔۔ میں تو گزشتہ سات سال سے آنسو بہا رہا ہوں ۔ ہر روز کسی پہاڑ کے دامن پہ ،کسی چشمے کے کنارے ،کسی باغ کے اندر کتنی ملالائیں اور لالہ رخیں خون میں نہاتی ہیں ، میں تو کئی سالوں سے ان ہنستی کھیلتی مسکراتی کلیوں کی بے نام موت کا ماتم کررہا ہوں۔ ۔۔ مجھے بتاؤ ملالہ میں اور کتنا رؤں ۔۔۔؟ اور ہاں وہ جو ڈمہ ڈولا میں ستر معصوم بچے مدرسے میں سبق یاد کرتے خون میں نہلا دئیے گئے تھے ۔ کتنا وحشت ناک منظر تھا وہ بھی، ہر طرف معصوم پھولوں کے لاشے بکھرے ہوئے تھے، کہیں کٹا ہوا ننھا سا ہاتھ اور کہیں سے چھوٹا سا بازو ملا اور کہیں مٹی اور خون میں اٹا پھول سا چہرہ۔۔۔ کتنے چینلز نے بریکنگ نیوز چلائیں ان معصوم جانوں کی ۔۔۔؟ کتنے اسکولوں میں سوگ ہوا درسگاہ میں پڑھتے بچوں کے قتل عام کا ۔۔۔؟ہاں اگر دنیا کی نام نہاد انصاف پسند عالمی طاقتوں کا بیان آیا تو وہ بھی بس کولیٹرل ڈیمیج ۔۔۔ ؟ ہونہہ ،کتنا آسان ہے یہ کہنا جن کے سینوں میں دل نہیں اور دماغوں میں جنگی جنون سوار۔۔۔! ملالہ اس دن میرے سامنے دنیا کی انصاف پسندی کا پردہ بھی چاک ہو گیا تھا ، اور ان کے امن پسندی کے لبادے اوڑھے مکروہ چہروں سے نقاب الٹ گیا تھا ۔ ملالہ میں تمھارے لئے کیسے رؤں۔۔۔؟ میری آنکھیں خشک ہو گئیں ہیں ۔۔۔ آج تمھارے لئے وہ سب شور مچا رہے ہیں ، نعرے لگا رہے ہیں ، اشتہار چھپوا رہے ہیں ،بینزر لگوا رہے ہیں جو پچھلے سات سال سے کسی لالہ رخ کی موت پر نہیں روئے۔ انہیں رونے دو ملالہ ۔۔ شاید ان آنسوؤں سے ان کا دل نرم پڑ جائے ، ان کے رونے سے ان کی آنکھوں پہ چڑھی دھول صاف ہو جائے اور انہیں چناروں کے دیس میں تم جیسی معصوم ملا لاؤں کے خون آلود چہرے بھی دکھائی دینے لگیں۔۔۔
کاش ملالہ جب تم صحت یاب ہو کر واپس آؤ تو دنیا ولوں کو یہ بتا سکو کہ دہرا معیار چھوڑ دیں اور انصاف کریں ۔ جس طرح ساری دنیا میرے زخمی ہونے پر برہم ہوئی ہے اس طرح وزیرستان میں خون سے نہائی میری بہنو ںکی موت کا ماتم بھی کرے ۔ ملالہ تم علم و امن کی سفیر ہو نا ۔۔۔! تو سنو ملالہ۔۔ اگر قوم انصاف کیلئے ۔۔۔تمھاری اس پکار پر متحدہوگئی تو امن اس خطے کا ضرور مقدر بن جائے گا ،کہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں ،اور علم امن میں ہی پروان چڑھتا ہے۔۔۔ !
میں کوشش کرتا ہوں ملالہ کہ خشک آنکھوں کے باوجود تمھارے لیے بھی رؤں۔۔۔تمھارے سر میں لگی گولی سے میرا دل بھی زخمی ہے۔
its nice written article based on hidden facts.
نہایت دلگداز انداز ہے شکایت کا۔ کاش کہ یہ شکایت سنی اور سمجھی جاسکے۔