آگئی تھی آندھیوں جیسی روانی آگ میں
جل بجھی کتنے چراغوں کی جوانی آگ میں
صبح دم گھر سے گئے تھے شام کو لوٹے نہیں
لکھ دیا تھا پھر کسی نے دانہ پانی آگ میں
کونسا شعلہ تھا کسی کے جسم سے لپٹا ہوا
جانے کتنی دیر چمکی زندگانی آگ میں
کوئی ایسی آگ ہو جو زندگی پیدا کرے
کب تلک جلتے رہیں گے اس پرانی آگ میں
شاہزادوں سے ملیں گی اب کہاںشہزادیاں
پھینک دی ہے کسی نے پریوں کی کہانی آگ میں (فاضل جمیلی)
یہ 11 ستمبر کی ڈھلتی ھوئی شام ہے جب آسمان سے برستا چھاجوں مینہہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کی آگ نہ بجھا سکا۔۔۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے گھروں سے نکلنے والے خود ایک ایک کر کے آگ کا ایندھن بنتے گئے ڈیڑھ کڑور کی آبادی کے شہر میں وہ تین سو محنت کش دن دہاڑے موت کی وادی میں جا سوئے۔۔۔ وہ خواب دیکھنے والی آنکھیں اپنے خوابوں سمیت روٹھ گئیں اس بے وفا دنیا سے۔۔۔ جسکا حقیقیی چہرہ انھوں نے دیکھا تو بہت کربناک دیکھا۔۔۔
ہاں ڈیڑھ کڑورلوگ تو آکر پھونکیں بھی مارتے تو وہ جلتے جھلساتے درو دیوار سرد ہو جاتے شاید۔۔۔ وہ بلکتے، بلبلاتے ماؤں کے لال جو مدد کے لئے پکارتے رہے اور “انسانیت” کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے کہ ان پر دروازے نہ کھل سکے نہ فیکٹری کے نہ زندگی کے۔۔۔
وہ تین سو بے گناہ معصوم لوگ جو بھتہ کی نذر ہو گئے یا سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ کی نذر کہ سرمائے کی حفاظت کی خاطر فیکٹری کے مالک نے فیکٹری کےدروازوں پر آٹو میٹک لاک اور کھڑکیوں پر لوہے کی گرلز لگوا دی تھیں جو زندگی اور موت کے بیچ میں حائل ہو گئیں تھیں اور زندگی شکست نہ دے سکی اور موت کے پیامبر بن گئے وہ سب کھڑکی، دروازے اور تالے جنکے پیچھے زندگی سسک کر رہ گئی۔۔۔ اور گھروں سے نکلنے والے اپنے پیاروں کی ٹھنڈک وہ شہزادے اور شہزادیاں جنکی زندگی کا آخری باب آگ نے لکھا۔۔۔ ایک دو نہیں پورے تین سو لوگ۔۔۔ شہر کے بیچوں بیچ۔۔۔ آگ کا ایندھن بن گئے۔۔۔ اور اپنے پیچھے ہزاروں سوگواروں کو ہمیشی کے لئے زخم زخم چھوڑ گئے۔۔۔ پتھر کا جگر درکار ہے انکے دکھوں کو قلم تک لانے کے لئے۔۔۔ کہ سب کی داستانیں جدا ہیں پھر بھی ایک جیسی۔۔۔ وہ آہیں وہ آنسو۔۔۔ وہ سینہ کوبی۔۔۔ وہ نوحے۔۔۔ ایک ہی تو قدر مشترک تھی ان میں “بےچارگی ” اور “غربت”۔
غربت اور پسماندگی جو اس بستی کے ہر گھر کا عنوان تھی اور کتنا حوصلہ درکار تھا اورنگی ٹاؤن کی بستی گبول کالونی کے کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے۔۔۔ کہاں سے لائیں جوان موتوں پر تعزیت کے وہ الفاظ جو انکے زخموں کا پھاہا بن سکیں۔۔۔
یہ سانحہ اپنے پیچھے جو سوالات چھوڑ گیا وہ سوال ان سب کے چہروں پر نقش ہیں۔۔۔ جن کے جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔۔۔ اور خود بخود اپنا آپ سا مجرم بن جاتا ہے اور اب ہم سب عادی مجرم بن گئے ہیں پے در پے سانحات جو واقعات میں بدلتے چلے جاتے ہیں۔ ہر دفعہ شور شرابا اور نمائشی اقدامات۔۔۔ جنھوں نے شہر کے درو بام پر یہ تحریر کر دیا ہے “یہاں قیمت نہیں تو غریب کی جان کی” اور ہر سانحہ کے بعد ہم اگلے سانحے کے منتظر ہوجا تے ہیں کہ علاج سانحہ بھی سانحہ ہی ہوتا ہے۔۔۔ آئے دن بڑھتی مہنگائی جس نے لکھنے پڑھنے کی عمر کے بچوں کو تلاش معاش میں لگا دیا کہ ان غریب بستیوں میں گھر کا ہر فرد روزگار کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو چولہا جلتا ہے۔۔۔
18 برس کی صائمہ بھی تلاش معاش کے انہی راستوں کی راہی تھی جو اپنے سات بہن بھائیوں کو سوگوار چھوڑ گئی اسکی موت آگ لگنے سے نہیں تپش اور گھٹن کی وجہ سے واقع ہوئی تھی اس لئے اسکا پورا وجود سلامت تھا حتٰی کہ فیکٹری کا وہ کارڈ بھی جو اسکی جیب سے بر آمد ہوا۔۔۔ صائمہ کی والدہ نے دھیرے دھیرے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ وہ رات کو 4 بجے تک زندہ تھی۔۔۔
ہاں 12 گھنٹے۔۔۔
ان گھنٹوں کے ہر لمحے اس نے انتظار کیا ہو گا پل پل انتظار کہ اب کوئی آجائیگا۔۔۔
اب یہاں سے نکال لے جائیگا کس کس کو نہ پکارا ہوگا اس نے؟؟؟
وہ آنکھیں پتھرانے سے پہلے کس کس کی منتظر ہونگی جو اب منوں مٹی تلے جا سوئیں۔۔۔
صائمہ کی بہنیں سب خاموش ہیں کہ کہنے کو بچا بھی کیا ہے؟ بس ماں کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں اور شکوے بھی۔ اسکے معصومیت اور اسکے بانکپن کو دہرا رہی ہیں اور لہجہ بے یقین سا ہے۔ جیسے انہیں یقین ہے کہ ابھی اچانک دروازہ کھلے گا صائمہ پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگی اور روز والا سوال پوچھے گی “ماں کیا پکایا ہے آج؟”
14سال کا حمزہ بھی اسی فیکٹری کا ملازم تھا جس نے دو سال قبل فالج کے باعث باپ کے انتقال کے بعد اسکول کے بجائے فیکٹری کا راستہ اختیار کیا کہ اسکو مزید دو چھوٹے بھائیوں کا سہارا بننا تھا” بالکل باپ کی طرح خیال رکھتا تھا چھوٹے بھائیوں کا۔ اچانک اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ سچ مچ میرا سہارا بن گیا تھا لکھنا پڑھنا چھوڑنے کا اسے بہت دکھ تھا۔
میں کبھی کہتی دیکھ تیری عمر کے بچے تو اسکول جاتے ہیں چھوڑ دے فیکٹری تو کہتا
“پھر کیا ہم مانگ کر کھائیں گے؟ نہیں ماں تو کام نہیں کریگی پہلے ہی بیمار رہتی تھی ایک میں ہی تھوڑی فیکٹری میں تو میری عمر کے بہت سے بچے کام کرتے ہیں”
وہ مجھے دلاسہ دیا کرتا تھا اب کون دلاسہ دیگا مجھے؟ اسکی ماں نے اسکی فوٹو میری جانب بڑھاتے ہوئے سوال کیا 14 سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے اسکی فوٹو میں اسکی روشن پیشانی، معصوم چہرہ، کون اسکو “مرحوم ” کہنے کا یارا رکھتا ہے سب ہی اسکی من موہنی صورت دیکھ کر اداس ہو گئے۔
اور اس ایک گھر میں اتنے دکھ جمع ہیں حنین، ہاشم، طاہر جو چاروں آپس میں فرسٹ کزن تھے۔ سگے بہن بھائیوں کی اولاد تھے۔ وہ ادھیڑ عمر خاتون جو رشتے میں انکی نانی اور دادی تھیں بیٹھے بیٹھے غنودگی میں چلی جاتیں پھر پانی کے چھینٹے دیکر ہوش می لایا جاتا۔
حنین جس کی عمر 22 برس تھی اور پچھلے آٹھ برس سے فیکٹری میں ملازم تھا۔ اب اسکی تنخواہ آٹھ ہزار تھی بے قراری کی تصویر تھی اسکی ماں جسکے گھر کا وہ واحد کفیل تھا۔ سینے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی ایسے ہی تو نہیں جوان ہوگیا تھا نا حنین۔ رحمت چوک سے گدھا گاڑی میں بیٹھ کر چھوہارے لاتی تھی اس کے لئے۔۔۔ کتنے نازوں سے پالا تھا میں نے۔
غریب کے بچے بڑی محنت سے پلتے ہیں۔۔۔
اسی لئے محنتی ہوتے ہیں بہت محنتی تھا میرا بیٹا۔۔۔
پوری تنخواہ میرے ہاتھ پر لا کر رکھ دیتا تھا۔ ضرورت کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی مجھ سے پیسے مانگا کرتا تھا۔ کبھی کوئی فرمائش نہ کرتا کہ ماں دکھی نہ ہوجائے، آہ اتنا بڑا دکھ دیتے ہوئے مجھے اس نے ذرا بھی نہ سوچا اپنے سب دکھ درد اس سے کہتی تھی اب کس کے پاس جاؤں گی” وہ آخری بار دیدار بھی نہ کرسکی اپنے پیارے کا۔۔۔ ساتھ ساتھ گھروں میں رہنے والی وہ چاروں مائیں جنکے وجود خود ان کے لئے بوجھ بن گئے ہیں۔ وہ ان جوان موتوں کا دکھ، اسکا بوجھ کیسے اٹھائیں؟
15 سے 20 اور 22 برس کے یہ بچے جو اپنے پیچھے بہت سے شکوے چھوڑ کر گئے ہیں۔۔۔ 2 کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھر، وہ گھر جو کسی مفلوج، کسی نشے کے عادی کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔ جہاں کنواری بہنیں بھی ہاتھ پیلے ہونے کے لئے انہی بھائیوں کی سمت دیکھا کرتی ہیں اور کہیں خود بھی زور بازو آزماتی ہیں۔۔۔
جیسے تہمینہ۔۔۔ جسکی شادی میں بس 3 ماہ باقی تھے تو ماں زرینہ نے سوچا کہ شادی کے درجنوں اخراجات میں میں بھی کچھ بوجھ اٹھالوں گی اور وہ بھی بیٹی کے ساتھ ہی فیکٹری جانے لگی۔۔۔
دھاگے کاٹتی تھی وہ تیار لباسوں کے۔۔۔ اور ملازمت کے اوقات بھی صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک۔۔۔
آج ماں بیٹی خوشی خوشی گئے تھے کہ تنخواہ ملے گی تو رات کو بازار جائیں گے۔۔۔
چھوٹی بیٹی بتا رہی تھی اماں نے کہا تھا بس آتے ہی کھانا کھا کر بازار چلے جائیں گے” اور زرینہ کی ماں کے آنسوؤں کی لڑی لگی ہوئی تھی جنہوں نے بیٹی اور نواسی کی جدائی کا غم نہ معلوم کیسے برداشت کیا۔۔۔ مسلسل زرینہ کی فرمانبرداری کے قصے سنا رہی تھی کہ انکی بیوگی کو زرینہ نے محسوس نہ ہونے دیا یوں خیال رکھا انکا۔۔۔ کمرے میں فریج، بیڈ اور الماری رکھی تھی جو اسکی بہن نے بتایا کہ تہمینہ خرید کر لائی تھی اور ہمارے گھر میں تو کچھ بھی سامان نہیں لوگوں کے تو اتنے بھرے پرے گھر ہوتے ہیں۔ ساری رات گھر والوں نے اسپتالوں کے چکر لاگائے تھے تب دوپہر میں میتیں حاصل کرسکے۔ نہ ہسپتال والے تعاون کر رہے تھے نہ فیکٹری والے” زرینہ کی نند نے گلوگیر آواز میں گلہ کیا۔
نظام الدین اور کمال الدیں جو با لترتیب 21 اور 23 برس کے تھے جنکا گھر پڑوسیوں سے بھرا ہوا تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت کی جارہی تھی مرحومین کے لئے۔۔۔ لیکن انکی ماں کا دل انکو مرحوم ماننے پر تیار نہیں تھا، میرا بابو کبھی بھی مجھے بتائے بغیر کبھی کہیں نہیں جاتا وہ واپس آئیگا ضرور آئیگا جب تک میں سر پر ہاتھ نہ رکھ دیتی تھی دونوں گھر سے نہ نکلتے تھے کھانا بھی کبھی گھر سے باہر نہیں کھاتے تھے۔۔۔ تنخواہ والے دن گھر میں گوشت لاتے تھے میں تو آج بھی انتطار میں تھی کہ شام کو تنخواہ لائیں گے تو گوشت پکاؤں گی پتہ نہیں کیسے آگ لگ گئی۔۔۔
رات گئے تک سب کے فون آتے رہے سب کے فیکٹری سے کہ ہمیں بچا لو۔۔۔
آہ مگ ہم تو نہ بچا سکے۔۔۔
بھائی بھی نہ جا سکا انکے پاس کہتے ہیں سازش کی ہے۔۔۔ کیمیکل سے آگ لگائی ہے مگر میرے بابو نظام اور کمال تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہتے تھے۔۔۔ نمازی بیٹے تھے میرے۔۔۔ کیسے صبر آئیگا مجھے۔۔۔ انھوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھاما تو کمرے میں موجود ہر دل نے انکے صبر کی دعا کی سب کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے تھے۔
اس محلے سے 50 جنازے اٹھے تھے بیک وقت۔۔۔ بہت سوں کے پیارے دیدار بھی نہیں کر سکے۔۔۔ تہہ خانے میں گرم پانی میں کودنے کے باعث جو اموات ہوئیں انکی کیفیات نا قابل بیان تھیں کوں مداوا کر سکتا ہے ان ماؤں کے دکھوں کا نہ 5 لاکھ نہ 10 لاکھ جب تک یہ آنکھیں جیتی ہیں تب تک ان میں اشک ہی رہیں گے وہ اشک جو کبھی کبھی لہو بھی بن جایا کرتے ہیں۔
17 برس کی ریما جو بیوہ ہو گئی ہے اسکی آنکھوں سے اشک نہیں لہو جاری ہیں۔۔۔
وہ مسلسل چھت کی طرف دیکھتی ہے اور دیواروں کی طرف۔۔۔
کبھی دیوار سے سر ٹکا دیتی ہے کبھی دائیں بائیں بیٹھے کسی فرد سے۔۔۔۔
وہ بالکل خاموش ہے لیکن اس کا پورا وجود گریہ کر رہا ہے۔۔۔
سال بھر ہوا ہے شادی کو۔۔۔ گود میں 3 ماہ کا ارحم موجود ہے۔۔۔ اسکی پھوپھو شہناز بولیں ” باجی ارحم بالکل اپنے باپ کی کاپی ہے ہو بہو” دیکھو ریما سعود تمہیں تنہا تو نہیں چھوڑ گیا نا؟ ایک تحفہ تمھیں دیکر گیا ہے “اسنے نظر بھر کر بستر پر لیٹے ارحم کو دیکھا اور چہرا دوپٹے میں چھپا کر بے ترح سسکنے لگی۔۔۔ وہ خود کو ابھی تک یقیں نہیں دلا پائی ہے غالباً اس جدائی کا اور نہ اس جدائی کا یقین ہے۔ سعود کے بوڑھے والدین کو اسکی ماں جو گھروں میں کام کر کر کے زندگی کا بوجھل پن کم کرتی تھی اب سعود نے اسکی ملازمت چھڑوادی تھی وہ 22 برس کا نوجوان جو اب اس دنیا میں نہیں اس گھر کا واحد کفیل تھا جسکی جدائی پر اسکی بہنیں غم سے نڈھال ہیں۔
دنیا کی تاریخ کا اندوہناک سانحہ ہے۔ بے شک بےحسی اور سفاکی کی ان گنت داستانیں ہیں اسکے ہر پہلو میں۔ یہ سانحہ جو اب ایک واقعہ بن چکا ہے۔۔۔ فیکٹری میں اٹھنے والا دھواں جسمیں انسانی گوشت کی بو تھی اور 300 غریب محنت کشوں کا لہو۔۔۔ جاتے جاتے آسمان پر ایک تحریر ضرور چھوڑ گیا ہے کہ “یہ سرمائے کی دنیا ہے اور سرمایہ دار کی مٹی کا ایندھن کل بھی یہی غریب تھے اور آنے والے وقتوں میں بھی جب تک سرمایہ دار کی سوچ نہیں بدلے گی ایسے دلخراش واقعات ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔
بقول فیض
کوئی انکو احساس ذلت دلادے
کوئی انکی سوئی ہوئی دم ہلادے
فیس بک تبصرے