رمشاء کیس: دونوں گواہ منحرف، پولیس نے جبری بیان لیا

جنوں کا نام خرد پڑ گیا ہے، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہ شعر صادق آتا ہے ہمارے پاکستانی میڈیا کے اوپر۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ جب چاہیں کس بھی غیر ضروری معاملے کو ضروری بنا کر پیش کردیں اور کسی بھی ضروری معاملے کو پس پشت رکھ لیں بلکہ اس کا بلیک آؤٹ کرلیں۔ ایسے معاملات تو عام طور سے سامنے آتے رہتے ہیں جس کی ایک اہم ترین مثال اکیس ستمبر یوم عشق رسول پر میڈیا کا جو رویہ رہا یعنی پورے ملک میں ہونے پر امن مظاہروں اور ریلیوں کا بلیک آؤٹ کرتے ہوئے چند جگہوں پر ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کو ہی ہائی لائٹ کیا جاتا رہا۔
اسی طرح رمشاء مسیح کیس کا معاملہ ہے۔ جب یہ معاملہ میٰڈیا پر آیا تو میڈیا نے پہلا جو موقف اختیار کیا کہ رمشاء مسیح ایک نابالغ اور ذہنی معذور لڑکی ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس حوالے سے ایک معصوم بچی کی تصویر دکھا کر رمشاء مسیح کے لئے عوامی ہمدردی حاصل کی گئی اور اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں پاکستان اورمذہبی حلقوں کو بدنام کرنے کی سازش میں حصہ لیا گیا۔ نوبت بہ ایں رسید کہ امریکہ اور برطانیہ تک اس معاملے میں بول پڑے۔ اس کیس میں ایک انتہائی اہم موڑ اس وقت آیا جب اس کیس کے مدعی قاری خالد جدون کے خلاف ان کے نائب زبیر چشتی نے بیان دیا کہ رمشاء نے توہین قرآن نہیں کی بلکہ مقامی لوگوں نے وہاں سے عیسائی آبادی کو بے دخل کرنے کے لیے یہ معاملہ اٹھایا تھا اور جب یہ معاملہ قاری خالد جدون کے پاس آیا تو انہوں نے جلائے گئے صفحات میں مزید اوراق شامل کئے تاکہ کیس مضبوط کیا جاسکے۔ ادھر اس بیان کا آنا تھا کہ میڈیا کے ہاتھ میں تو ایک اہم ہتھیار آگیا۔ خبر نشر ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی اس پر مباحثے شروع ہوگئے۔ مغربی ایجنٹ اینکر پرسنز نے اس موقع کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔اسلام کو براہ راست تو کچھ کہہ نہیں سکتے اس لئے مولویوں اور مدرسوں کی آڑ میں اسلام کو بدنام کیا گیا۔ نام نہاد سول سوسائٹی اور ہوہیومین رائٹس کے نمائندوں نے بھی دل کھول کر مذہبی حلقوں کو بدنام کیا اور اس موقع کو توہین قرآن کی مبینہ ملزمہ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا۔ قاری خالد جدون کے خلاف ایک اور گواہی آنے کے بعد رمشاء مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا اور وہ اس وقت نامعلوم مقام پر موجود ہیں۔
رمشاء مسیح کی ضمانت پر رہائی کے وقت میڈیا کا پہلا جھوٹ بے نقاب ہوا کہ جس معصوم بچی کو وہ رمشاء مسیح بنا کر میڈیا پر پیش کرتا رہا وہ تصویر رمشاء مسیح کی تھی ہی نہیں بلکہ معلوم یہ ہوا کہ وہ تصویر تو آٹھ اکتوبر کو آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلے سے متاثرہ ایک بچی کی تھی جس کو میڈیا نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ دوسرا جھوٹ یہ سامنے آیا کہ رمشاء مسیح جسے میڈیا گیارہ بارہ سال کی بچی کہتا رہا وہ گیارہ بارہ سال کی بچی نہیں بلکہ کم وبیش اٹھارہ بیس سال کی بالغ لڑکی ہے۔ (عین ممکن ہے کہ چند دنوں بعد یہ معلوم ہوکہ وہ ذہنی معذور بھی نہیں ہے)

یہاں تک تو میڈیا نے اس معاملے کو خوب اچھالا لیکن یکم اکتوبر کو اس کیس میں قاری خالد جدون کے خلاف گواہی دینے والے دونوں گواہان اپنے سابقہ بیان سے مکر گئے۔کیا آپ تک یہ خبر پہنچی ہے؟؟؟ میرا خیال نہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ کئی لوگوں کے لیے یہ خبر بالکل نئی ہوگی اور انہوں نے یہ خبر کسی چینل سے نہیں سنی ہوگی یا کسی اخبار میں ان کو یہ خبر نہیں نظر آئی ہوگی ۔ کم از کم نمایاں تو نظر نہیں آئی ہوگی کیوں کہ میڈیا نے قاری خالد جدون کے خلاف دی جانے والی گواہی کو تو بریکنگ نیوز اور سب سے اہم خبر کے طور پر نشر کیا لیکن اس خبر کا مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ پہلے ہم آپ کے سامنے یہ خبر پیش کرتے ہیں۔ یہ خبر معروف خبر رساں ادرے آئی این پی اور آن لائن نے جاری کی تھی۔
’’اسلام آباد(آئی این پی/آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین قرآن کیس میں رمشا مسیح کے خلاف مقدمے میں مولانا خالد جدون کیخلاف گواہی دینے والے 2 گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہوگئے۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پولیس نے ان پرتشدد کر کے مرضی کے بیانات لئے۔ مولاناخالدجدون نے شہادتوں میں کوئی ردو بدل نہیں کیاتھا۔ پیر کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن نے رمشا مسیح کیس کی سماعت کی تو اس دوران ڈرامائی تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب کیس کے دو مرکزی گواہان دانش اور خرم نے عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے اس سے قبل جو بیانات دئے تھے وہ پولیس تشدد کے باعث دئے اور ان کو ختم کیا جائے۔ عدالت میں دانش او رخرم نے موقف اختیار کیا کہ پولیس نے ان پر تشدد کر کے مولوی خالد جدون کیخلاف بیان لئے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ گواہان نے عدالت کو بتایا کہ امام مسجد خالد جدون نے شہادتوں میں کوئی ردو بدل نہیں کیا۔فاض چیف چیف جسٹس نے توہین قرآن کیس میں رمشا مسیح کے خلاف مقدمے کے اخراج کی درخواست پر حکم امتناع میں 17 اکتوبر تک توسیع کردی ہے۔رمشا کے وکیل نے ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی موکلہ کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر کا اندراج غلط ہے۔ حافظ زبیر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی خالد جدون کا بیان جھوٹ پرمبنی ہے۔ مولوی خالد جدون نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے مقدمہ درج کرایا ۔درخواست کے مطابق دو گواہان نے دفعہ164کے تحت اپنے بیانات میں رمشا کو بے گناہ قرار دیا تھا اور اس سارے معاملے کا کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو مقدمے کے فیصلے تک سماعت سے روک لیا تھا۔پیر کو درخواست کی سماعت کے دوران وکیل استغاثہ کے نمائندے ملک عمادنے عدالت کو بتایا کہ ان کے وکیل اسلام آباد سے باہر ہیں لہٰذا انہیں مہلت دی جائے۔جس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے حکم امتناع میں 17اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ادھرمقدمہ میں گرفتارمولاناخالد جدون نے اسلام آباد مقامی عدالت میں درخواست ضمانت دائر کر دی ہے جس میں موقف اختیار کہاکہ وہ بے گناہ ہیں ۔رمشا مسیح کے خلاف گواہی دینے پر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا اس کیس کی مزید تفتیش ہونی چاہئے اوران کی درخواست ضمانت کو منظور کیا جائے ۔‘‘

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا آخر کس کے کہنے پر چل رہا ہے؟ اس کا ایجنڈا کیاہے؟ اس کو پاکستان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے سے کیا فائدہ ہورہا ہے؟؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا یہ میڈیا جس کو ہم اپنا پاکستانی میڈیا کہتے ہیں کیا یہ واقعی ہمارا میڈیا ہے بھی یا نہیں؟؟ ذرا سوچیے!

فیس بک تبصرے

رمشاء کیس: دونوں گواہ منحرف، پولیس نے جبری بیان لیا“ پر 4 تبصرے

  1. پاکستانی میڈیا ایک فری میسنری میڈیا ہے جسکے پاس واضع طور پر ایک بیرونی ،تہذیبی ، ثقافتی اور دجالی ایجنڈا ہے جسے ہر کوئی بہت آسانی سے محسوس کرسکتا ہے. ابھی کل رات ہی جب میں یہودیوں کا چینل جیو دیکھ رہا تھا جس میں سوات کی بچی ملالہ یوسف زئی کو زخمی کردینے کی خبر چل رہی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیو کو نشریاتی ہیضہ ہوگیا ہے. اگر بانی پاکستان زندہ ہوتے اور ان پر اس طرح قاتلانہ حملہ ہوتا تب بھی شاید وہ خبر کو اس طرح نہیں چلاتے.
    حقیقت تو یہ ہے کہ یہدجالی نشریاتی ادارے ایک جوع البقر کی کیفیت میں ہیں اور انکے لیے اس طرح کی خبریں ان کی نشریاتی بسیار خوری کو سیراب کررہی ہیں.

  2. فھاشی کے خلاف جب کیس عدالت میں لے جایا گیا ،تو یہی میڈیا تھا جس نے ان صحافیوں کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تھی کہ کسی کو کورج نہ دو ورنہ کیبل اپریٹر چینلوں کو کوریج نہیں دیں گے۔اور بہت سے ان بڑے بڑے چینلون نے اس کیس کو کوریج نہیں دی۔

  3. ہمارے میڈیا کو إس موضوع پر کی گئی آپنی سابقہ کوریج پر ضرور غور کرنا چاہیے۔کیا ہمارا میڈیا پاکستان ،اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے؟

  4. اس پر کیا تبصرہ کیا جائے، جو چیز یہودیوں کی ہے وہ مسلمان کے لیے کیسے اچھی ہوسکتی ہے۔

Leave a Reply