ملالہ۔۔۔ عافیہ۔۔۔ دو نام۔۔۔ دہشتگرد ایک۔۔۔

ملالہ اسوقت برطانیہ کے کوئن الزبتھ ہسپتال میں منتقل ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا اسکی سانسوں کی قیمت لگانے میں مصروف ہے وزیر اعظم پاکستان نے اسے “پاکستان” کا چہرہ قرار دیا کسی نے”پر عزم پاکستان کا استعارہ ” اور کسی نے “روشن مستقبل کی علامت”۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بلاشبہ وحشت اور اور درندگی کی بد ترین مثال ہے۔۔۔ اور اس سے اسلام کا دور دور سے بھی واسطہ نہیں ہے اور امت مسلمہ میں شامل کوئی عنصر ایسی گھناؤنی کاروائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔

 

الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، یا ریاستی جماعتوں کے جلسے ،17 کڑور عوام صرف ایک ہی نام سن رہے ہیں، اس پر سوچ رہے ہیں، اسکی عافیت کے لئے پریشان ہیں، دعائیں ہو رہی ہیں، دعائیہ تقریبات عروج پر ہیں، خصوصی ایڈیشن اخبارات و جرائد نکال رہے ہیں‌، حکومت کی پوری توجہ اور پوری مشینری صرف اور صرف اسکے علاج پر متوجہ ہے۔۔۔ ملک بھر کے علماء کو کھوج کھوج کر مذمتی بیانات دلوائے جا رہے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل سے وابستہ 50 سے زائد علماء اور مفتیان پہلے ہی اس حملے کو غیر اسلامی قرار دے چکے ہیں۔۔۔ جبکہ علماء کرام کے ایک خاص طبقے نے تو یہ فتوٰی جاری کر دیا کہ کسی مکتب فکر کا کوئی عالم رہ نہ جائے جس نے مذمتی بیان جاری نہ کیا ہو۔۔۔ ٹی وی کے میزبان دینی جماعتوں کے اکابرین کو اپنے پروگراموں میں بلا بلا کر ان سے گویا پورا ” سچ اگلوانے ” کے درپے ہیں۔ لگتا ہے جیسے گمان یہ ہو کہ سب خنجر دینی جماعتوں ہی کی آستینوں میں چھپے ہوئے ہیں اور پاکستان کا مذہبی طبقہ، جماعتیں، مدارس سب طالبان ہیں جو اس واقعہ کے ذمہدار اور قابل لعن طعن ہیں و قابل گرفت ہیں۔

 
غلام قومیں بلاشبہ دور غلامی میں اسی طرح حواس خمسہ سے لاتعلق ہوجاتی ہونگی جسکا مظاہرہ ہم روز و شب دیکھ رہے ہیں بارک اوباما سے بان کی مون تک کی پریشانی اس پاکستانی عورت کے لئے نہیں جسکا نام “ڈاکٹر عافیہ صدیقی “ہے جس پر انسانی لغت میں دستیاب ظلم کا ہر لفظ آزمایا جاچکا ہے، جس پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں کائی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی وہ ایک انسانی جان کی حرمت کے اتنے قائل کہ بار بار ملالہ کی جان بچانے کے لئے ایئر ایمبولینس کی پیش کش کی جاتی رہی وہ جن سے ایک قوم کی زندگی بچانے کے لئے 1971 بحری بیڑہ نہ بھیجا گیا وہ ایک فرد کی زندگی بچانے کا ڈرامہ جن گھناؤنے مقاصد کے لئے اسٹیج کر رہی ہے اسکو جاننے کے لئے بہت عقل وفہم بھی درکا ر نہیں۔۔۔ اور گمان یہ بھی ہے کہ ملالہ کے واقعہ سے پاکستان میں کسی نئی مہم جوئی کا آغاز نہ کر دیا جائے ؟

 
پاکستانی اسکولوں اور اداروں کے ساتھ ساتھ گرجا گھروں اور مندروں کی تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنتی رہیں جہاں ملالہ کے لئے دعائیہ تقریبات ہوئیں۔ یکجہتی کے یہ مظاہرے اسوقت نظرآتے جب دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان ناپاک فلم پر احتجاج کرتے تحفظ ناموس رسالت کے لئے سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے عالم انسانیت میں اگر سب سے قیمتی کسی کی ناموس ہےحرمت ہے تو وہ اسی ذات پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اظہار یکجہتی کے یہ مناظر نظر نہ آسکے۔۔۔ نہ ڈروں حملوں پر ان قوتوں کی طرف سے کوئی بھرپور احتجاج سامنے آتا ہے۔۔۔قرآن جلانے اور کارٹوں بنانے کے واقعات کیوں ظہور پذیر ہوں اگر صیہونیت اور عیسائیت سراپا احتجاج بن جائیں جس طرح ملالہ کے واقعہ پر انکا گٹھ جوڑ سامنے آیا۔

 
معاملہ ملالہ کا ہو یا رمشا مسیح کا۔۔۔ مسلمانوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کی کہانیاں ہیں‌ تاکہ پاکستانی قوم پر مزید عرصہ حیات تنگ کیا جاسکے اور امریکہ “ڈو مور” کے ضمن میں پاکستان سے مزید مطالبات منوا سکے۔ حقیقت تو بس اتنی سی ہے کہ نائن الیون کی کوکھ سے پھوٹنے والی اس جنگ نے جسکا پہلا حدف تو ایران اور افغانستان تھے لیکن ان ملکوں کا وہ حشر نہیں ہوا جو پاکستان کا کر دیا گیا جبکہ ہمارے سر پر تو ” نان نیٹو اتحادی ” کا تاج سجا ہوا تھا بہت تحفے ملے ہمیں اس جنگ کے اتحادی کے طور پر ڈروں حملے ہوں یا سوات اور فاٹا کی جاں بلب صورتحال، ایبٹ آباد میں قومی حمیت کا جنازہ ہو یا جی ایچ کیو اور اہم ترین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا، دن دھاڑے لوگوں کا لا پتہ ہوجانا اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں بازیاب ہونا، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہو یا گھروں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلی اور خطرے کی زد میں فوجی تنصیبات۔۔۔ اس کہانی کے اور بھی کئی عنوان ہیں لیکن ڈرونز سے برسنے والے میزائل اور ملالہ کے سر میں پیوست ہونے والی گولی، ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔۔۔ کسی دانشور نے کہا اک سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکی جارحیت پر ہم ہوش میں آجاتے تو سانحہ ملالہ کی نوبت ہی نہیں آتی۔

 
100 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانے ،ہزاروں افراد کی ہلاکتوں اور بے گھر ہونے کے باوجودابھی یہ جنگ ہم سے مزید خراج وصول کر رہی ہے۔ عملاً پاکستان “امریکی بیس کیمپ ” کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس جنگ نے جو نقصان پاکستان کو پہنچایا وہ نہ طالبان نے پہنچایا نہ القاعدہ نے۔۔۔ دائروں کا یہ سفر ہے جسکی کوئی منزل نہیں۔۔۔ یہ دائرے ہیں دباؤ کے اور بلیک میلنگ کے۔۔۔ جسکے نتیجے میں‌ دنیا کے ہر گوشے کے لوگ۔۔۔ امریکی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اور ساری دنیا اسوقت اس بات کو جان گئی ہے۔

جہاں سے اٹھا ہے جو بھی فتنہ
اٹھا تیری رہگزر سے پہلے

 

دہشتگردی کے خلاف جنگ نے پاکستانی معاشرے کو کسی حد تک تقسیم کردیا ہے ملالہ کے واقعہ نے جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور پاکستانی عوام نام نہاد طالبنائزیشن اور لبرل انتہا پسندوں کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیاں میں پس رہے ہیں اور وقت کا اصل چیلنج سامراجی سازشوں کے خلاف جرائت مندانہ اقدامات کا متقاضی ہے۔۔۔ قوم میں ایک نئی قیادت برسر اقتدار لانے کی صلاحیت اور عزم درکار ہے جو غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکے اور لہو پیتی اس نام نہاد جنگ سے قطع تعلق کر لے جو سراسر رسوائیوں کا سفر ہے تاریخ ایک بار پھر بار بار جھٹکے لگی اس قوم کو عزم نو کی طرف پکار رہی ہے کہ زندگی اور عزت کا راستہ اختیار کر نا ہے تو سر دھڑ کی بازی لگانے کا وقت ہے۔۔۔

یہ مصرع کاش ! نقش ہردر و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لئے تیار ہو جائے

 

ہزاروں ملالاؤں کا لہو اس دھرتی میں جذب ہو چکا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ۔

تم ایک ملالہ کو روتے ہو
میں نے کتنی ملالائیں دیکھی ہیں
میں نے خون میں لت پت بچوں کی
جانے کتنی لاشیں دیکھی ہیں
میں نے اجڑی مانگیں دیکھی ہیں
میں نے سونی گودیں دیکھی ہیں
میں نے ظلم و جبر فرنگ سے
سسکتی روحیں دیکھی ہیں
میں نے اپنی دھرتی پے اپنوں کی
بوسیدہ لاشیں دیکھی ہیں
میں نے بارود کی بارش دیکھی ہے
میں نے آگ کی لہریں دیکھی ہیں‌
تم ایک ملالہ کو روتے ہو۔۔۔

فیس بک تبصرے

ملالہ۔۔۔ عافیہ۔۔۔ دو نام۔۔۔ دہشتگرد ایک۔۔۔“ پر 4 تبصرے

  1. السلام علیکم !
    ماشاء اللہ حالات پر آپ کی نظر بہت گہری ہے اور ایک اچھا زاویہ پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ایسی سمجھ بوجھ عطا فرماۓ

  2. نہایت عمدگی سے آپ نے اس معاشرے کی منافقت کو واضع کیا ہے.
    یہ سوال اب کئی لوگ اٹھارہے ہیں کہ جب عافیہ صدیقی اور ملالہ دونوں ہی ظلم کا شکار ہوئی ہیں تو ایک ملالہ کے لیے جس سے متعلق کئی چیزیں شکوک لیے ہوئے ہیں اتنی زیادہ والہانہ وابستگی اور واری صدقے والا رویہ کیوں.
    جزاک اللہ خیر

  3. بہت گہری باتیں بتائی ہیں آپ نے اس مضمون میں ۔۔ ۔

    اے کاش کہ ہم اور ہماری قوم ‘ ہمارے اصلی دشمن کو پہچان جائیں ۔۔ ۔

  4. عمدہ مضمون ہے۔۔۔ تاہمسازشی تھیوری سے اجتناب کرنا لازمی ہے۔۔۔ اور موجودہ صلیبی جنگ میں اپنا کردار بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس کشتی کے سوار ہیں؟؟ دینی شعار سے لے کر توہین رسالت ﷺ کی مرتکب اقوام آپ سے ایک مکمل جنگ کررہی ہیں۔۔۔ جبکہ ہم ابھی تک اپنی قومی خانے میں قیدہوکر اپنا رونا رو رہے ہیں۔
    اللہ تعالی ہمیں اقبال مرحوم کے اس شعر کا حقیقی حق ادا کرنے کی ہمت دے۔ امین

    ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

Leave a Reply