فقہی اختلافات کی بنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے۔ یہ فقہی اختلافات صحابہ کرام کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی ۔ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ یہی طریقہ آئمہ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہر حال فروعی ہیں۔ ان فروعی اختلافات کی بنیاد پر نمازیں الگ کرلینا تفرق فیالدین ہے۔جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیاہے ۔ نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک امت قائم نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے وہ دین کو قائم کرنے اور قایم رکھنے کی سعی میں متحد ہو کر کام کرسکیں گے۔یہ چیز اب نظری نہیں رہی ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربہ نے اسے ثابت کر دیا ہے۔ لہذا جو لوگ اپنے فرقی اختلاف کی وجہ سے نمازوں کی علحیدگی پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل دین کی جڑ پر ضرب لگاتے ہیں۔
( رسائل و مسائل – جز اول)
مولانا مودودی رحمة اﷲ علیہ کا سارا لٹریچر ہی اتحادٕ امت کی دعوت پر مبنی ہے
فقہی اختلاف کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی کا تصور آج بھی نہیں ہے، ہاں نظریاتی اور عقیدے کے اختلاف کا معاملہ علیحدہ ہے۔
لیکن شیعہ حضرات جسطرح نماز ادا کرتے ہیں کیا انکے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
Farq to ziada nahe sirf hath bandhnay – na bandhnay ka he, ager aik hi jamat main kharay hon to i think ap hath bandh k kharay ho jayen aur wo hath chhor k
wallah o alam
the above statement is not a fatwa, it can be wrong!
شیعہ حضرات ہاتھ کھول کر سنی علما کے پیچھے نماز ادا کرتے میں نے دیکھے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ان کی نماز ہو جاتی ہے
اگر امام خمینی کے پیچھے سب کی نماز ہوجاتی تھی تو اب کیا مسئلہ ہے ؟؟؟
کاشف نصیر صاحب کا تنصرہ معقول ہے ۔۔ فقہی اختلاف کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی کا تصور آج بھی نہیں ہے، ہاں نظریاتی اور عقیدے کے اختلاف کا معاملہ علیحدہ ہے۔