کون ایسا شقی القلب انسان ہوگا جو 14 سال کی ایک معصوم بچی پر سفاکانہ قاتلانہ حملے کیلئے وجہ جواز تلاش کر ے گا۔ انسانی تہذیب، اسلامی تعلیمات اور پختون روایات میں دوران جنگ بھی جنگ سے کنارہ کش عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ایک شرمناک فعل ہے اور خاص طور پر ایک 14 سالہ بچی کو نشانہ بنانا جو ابھی پوری طرح سن شعور کو بھی نہیں پہنچی اور ابھی اپنے باپ کے اسکول میں زیر تعلیم و تربیت ہے اور خود ابھی اپنے شعوری ارادے کی مالک نہیں بنی، کسی بھی منطق سے واجب القتل ٹھرانا، کسی ایسے شخص کا کام نہیں ہے جس کو اسلامی تعلیمات کی ابجد سے بھی واقفیت ہو اور جسکا یہ عقیدہ ہو کہ وہ اپنے خالق و مالک کے سامنے جوابدہ ہے۔
پاکستان کے کسی معروف چھوٹے یا بڑے عالم دین نے آج تک پاکستان میں پیدا ہونے والے دہشت گردی کے کسی واقعے کیلئے کوئی جواز پیش نہیں کیا۔ اکثریت نے یہ رائے دی ہے کہ یہ پاکستانی حکومت اور پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسی کا شاخسانہ ہے، لیکن پاکستان کے تمام علماء اور دینی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا طریق کار وہی ہے جو حضور نبی کریم (ص) نے اختیار کیا تھا۔ انہوں نے
1. تمام انسانوں کو ایک اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی
2. جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ذاتی سیرت و کردار کے لحاظ سے ان سب کو مثالی انسان بنایا۔
حضور نبی کریم (ص) نے ان برگزیدہ صفات کے مالک افراد کو اسلام کے سنہری اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ایک امت میں ڈھال لیا۔ علامہ اقبال (رہ) نے اپنی فارسی مثنوی ”اسرار خودی“ اور ”رموز بیخودی“ میں پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایک مسلمان کا ذاتی کردار کن بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے اور مسلمان افراد کن اصولوں کے تحت ایک امت اور ایک قوم بنتے اور اجتماعی خودی پیدا کرتے ہیں۔ مولانا مودودی (رہ) نے اپنی مختصر کتاب مسئلہ قومیت میں اسلامی قومیت کی بنیادوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد انکے عقیدہ اور اس پر عمل کرنے پر مبنی ہے۔
حضور نبی کریم (ص) نے مسلم امت کی تشکیل کی، جو ہم فکر اور ہم سیرت انسانوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ اس طرح آپ نے انسانوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر کرکے انسانیت کی تعلیم دی اور انسان کو انسان بنا دیا۔ چودہ سالہ معصوم بچی کے خلاف اس مذموم کارروائی کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔ آج پاکستانی افواج کے سربراہ، وزیراعظم، افغان وزیراعظم، بھارتی حکومت اور میڈیا، امریکی صدر اوباما، امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور امریکہ میں فحاشی اور عریانی کی ماڈل ”میڈونا “ ملالہ پر قاتلانہ حملے کی مذمت میں ایک دوسرے کے ہمنوا اور شانہ بشانہ ہوگئے ہیں اور یہ سب ان سینکڑوں معصوم بچوں اور بچیوں کو بھول گئے ہیں جو روزانہ پاکستان، افغانستان، فلسطین، اراکان (برما) اور کشمیر میں ڈرون حملوں اور امریکی بمباری اور اسرائیل اور بھارت کے مظالم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کا ثواب خود قاتل لے رہے ہیں۔
معصوم بچی کو تین سال پہلے جب اس کی عمر محض گیارہ سال تھی، بی بی سی کے نمائندے نے ایک ویڈیو Schools Dismissed کے ذریعے دنیا سے متعارف کرایا۔ یہ ویڈیو New York ٹائمز کی Website پر دیکھی جاسکتی ہے، جس میں وہ جعلی منظر بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو مجمع کے سامنے الٹا لٹا کر کوڑے مارے جا رہے ہیں اور یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ طالبان عورتوں کو کوڑے مار رہے ہیں۔ اس بچی کے منہ میں یہ ڈال دیا گیا اور یہ جیو پر انٹرویو میں نشر ہوا کہ بے نظیر، باچا خان اور اوباما میرے آئیڈیل ہیں۔
بے نظیر اور باچا خان کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ان کے گرویدہ ہیں، لیکن سوات کی ایک معصوم بچی کے منہ میں یہ بات ڈالنا کہ اوباما اس کا آئیڈیل ہے، کن عناصر کا کارنامہ ہے، جبکہ اوباما کے ہاتھوں افغانستان اور پاکستان دونوں جگہ روزانہ بے شمار افراد قتل ہوتے ہیں، جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں، قبائلی اپنے ہی ملک میں بے گھر اور بے عزت ہوگئے ہیں۔ بے چاری معصوم ملالہ کو اس کے والدین نے امریکی سفیر اور امریکی فوجیوں کے پاس بٹھایا ہے اور تعلیم اور امن کے نام سے امریکیوں کے حق میں رطب اللسان کر دیا گیا ہے۔
مجھے اس معصوم بچی اور اس کے ساتھ دو دوسری بچیوں پر قاتلانہ حملے کا شدید صدمہ ہے۔ یہ تینوں میری اپنی بچیاں ہیں، قوم کی بچیاں ہیں، معصوم ہیں۔ میں قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو وحشی سمجھتا ہوں، لیکن میں جرم کا ذمہ دار یا کم از کم ذمہ داری میں شریک ان لوگوں کو بھی سمجھتا ہوں، جنہوں نے اس معصوم بچی کو استعمال کیا، تاکہ لوگ حضور نبی کریم (ص) کی توہین پر مبنی کارٹونوں اور فلم کو بھول جائیں۔ امریکی ڈرون حملوں کے جرم کو چھپایا جائے اور شمالی وزیرستان پر فوجی کارروائی کے لئے رائے عامہ کو تیار کیا جائے۔
ملالہ اور اسکول کی وین پر مذموم قاتلانہ حملہ فوجی چوکی کے قریب کیا گیا اور حملہ آور بھاگ نکلے، جبکہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سوات کو طالبان سے صاف کر دیا گیا ہے، ایسے سوالات ہیں جو ہر سوچنے والے ذہن سے جوابات مانگ رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا لاکھ چھپانے کی کوشش کرے، لیکن سوشل میڈیا، فیس بک اور Twitter ایسے بیانات اور تصویروں سے بھرے پڑے ہیں، جو سراپا سوال ہیں کہ پاکستانی قوم کو کن تاریک گلیوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
اس دلخراش واقعے کی آڑ لے کر مذہبی طبقے کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ وہ عورتوں کے مخالف ہیں، حالانکہ مذہبی طبقے کے تحت اس وقت بچیوں کے لئے ہزاروں تعلیمی ادارے قائم ہیں، جن میں لاکھوں بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ نصاب اور طریق تعلیم پر تو نظرثانی ہوتی رہتی ہے اور اس میں بہتری کی ہر وقت گنجائش موجود رہتی ہے۔ لیکن کوئی بھی عالم دین بچیوں کے حقِ تعلیم کا مخالف نہیں ہے، کیونکہ یہ حضور نبی کریم (ص) کے واضح فرمودات اور ان کی سنت کی مخالفت ہوگی کہ مسلمان چاہے وہ مرد ہو یا عورت کو تعلیم سے محروم کر دیا جائے۔
جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، انہیں کسی نے بھی اسلام کے شارح کے طور پر قبول نہیں کیا، نہ ہی ان کے تمام افعال کی ذمہ داری کسی معروف دینی جماعت نے قبول کی ہے، بلکہ ان کی دست برد سے خود مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی بھی محفوظ نہیں ہے۔ البتہ ان کا علاج قبائلی علاقوں میں آپریشن اور عام قبائلیوں کو نشانہ بنانا اور دربدر خاک بسر کرنا نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی قراردادوں کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرنا ہے، کیونکہ کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال طالبان کی سرپرستی کسی نہ کسی مرحلے پر خود افواج پاکستان نے کی ہے اور حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کو آپس میں لڑوا کر طالبان کو افغانستان میں مسلط کرنے میں پاکستانی حکمرانوں کا حصہ ہے۔
جس زمانے میں طالبان کی تحریک وجود میں آئی تھی، اس وقت حزب اسلامی افغانستان کے امیر گلبدین حکمت یار نے ان کا مختصر نام BBC رکھا تھا پہلا (B) نصیر اللہ خان بابر کیلئے جو دعویٰ کرتے تھے کہ طالبان کو انہوں نے منظم کیا ہے۔ دوسرا (B) بیرنگٹن کیلئے جو ان دنوں برطانوی ہائی کمشنر تھے اور (C) کلنٹن کیلئے، جو اس وقت امریکہ کے صدر تھے۔ پاکستان کی حکومت نے انہیں تسلیم کیا اور پاکستانی حکومت کے مشورے سے سعودی عرب اور امارات نے بھی انہیں تسلیم کیا اور طالبان حکومت کے نام سے دنیا کے سامنے اسلامی حکومت کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا گیا، جس کو دنیا کی معروف اسلامی تحریکوں اور جید علماء کی تائید حاصل نہیں تھی۔
طالبان کون ہیں، اس کے بارے میں پشاور اور گرد و نواح میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صحافی درہ آدم خیل بازار گیا اور وہاں آئے دن کے متشددانہ کارروائیوں کے بارے میں دکانداروں سے استفسار کیا کہ ذمہ دار کون ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں سچ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، آپ اس دیوانے سے پوچھ لیں جو سڑک کے بیچ میں پھر رہا ہے، وہ سچ بتائے گا، دیوانے سے صحافی نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وردی پہن لیں تو فوجی ہیں اور وردی اتار دیں تو طالبان ہیں۔ کتنے ایسے سخن ہائے گفتنی ہیں، جو خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے۔
ملالا یوسف زئی، بہادری کی ایک مثال ہے،جو ٹی ٹی پی کے مظالم کے خلاف کھڑی ہوئی اور ان کے حقیقی سیاہ چہرے،بری ذہنیت اوران سے تمام انسانیت کو مجموعی طور پر لاحق سنگین خطرے کو واضح طور پرظاہر کیا۔
http://www.youtube.com/watch?v=5ScOp8oCJ4o
ہماری دلی مخلص تعزیت اور نيک دعائيں ملالا يوسفزئی کےخاندان اور دوستوں کے ساتھ ہيں کہ ٹی ٹی پی نے اسے اور اسکے ساتھ اسکول جانے واليں معصوم لڑکیوں کواپنے سب سے زیادہ ايک پر تشدد،غیر انسانی اور سفاکانہ کارروائی کا نشانہ بنايا۔
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
محترمہ افشاں،
یقین مانیے کہ ہمارے دلوں میں آپ کے لیے ایک خاص قسم کی قدر ہے کہ آپ بڑی ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خواہ مخواہ بیگانی بلکہ اپنے ہی قاتلوں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ دنیا کو جس سمت میں لے جا رہا ہے اور سچ پر جس شیطانی طاقت سے پردہ ڈالا جا رہا ہے اب کسی بھی طور ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جب معاملہ بے دین مگر امریکہ دشمن مسلمان آمروں کا ہو تو جمہوریت کے راگ الاپے جاتے ہیں جیسے جمہوریت کوئی سگار یا کاسمیٹک آئٹم ہو جسے جب چاہیں امپورٹ کر دیا جائے، ویپنز آف ماس ڈیسٹرکشن والے جھوٹ بڑے دھڑلے اور بے شرمی سے بولے جاتے ہیں اور اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے لاکھوں لوگوں کی موت اور کروڑوں انسانوں کی ہمیشہ کی اذیت کا سامان کر دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود نا ہی کوئی مقدمہ چلتا ہے اور نا ہی کہیں سے کوئی مذمت کی آواز اٹھتی ہے اور آپ بدستور جمہوریت اور آزادی کے چیمپیئن بنے رہتے ہیں۔
جب معاملہ دین کے نام لیواؤں کا ہو تو ان سے لڑنے کے لیے ایک نئی اسٹریٹیجی اپنائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ خود ہی کچھ لوگوں کودین اسلام کے لیے لڑنے کی ترغیب دلا کر اتنی خونریزی کرائی جائے کہ عوام الناس دین کے نام پر ہی کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کردے۔ یہ کام الجزائر میں بخوبی کیا گیا اور یہی کام پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔
جب آپ لوگ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے مرے جا رہے ہیں تو یہی کام پاکستان میں ہو تو آپ کو کیون موت آنے لگتی ہے؟کیوں آپ ڈرون حملوں میں معصوموں کو قتل کرتے ہیں؟ وجہ بالکل صاف ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقے میں لگی آگ کبھی ٹھنڈی ہو بلکہ پاک فوج کو اس صورتحال میں پھنسا دیا جائے جہاں سے وہ کبھی نکل ہی نا سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کو اس کام کے لیے حکمران اور فوجی جنرلز ہمیشہ تیار ملتے ہیں بس انکی قیمت پر معاملات آکر کچھ دیر کے لیے اٹکتے ہیں۔چاہے مشرف جیسا کمانڈو اسٹائل بڑبولا جنرل ہو یا کیانی جیسا حب الوطنی کے ڈرامے کرنے والا جنرل سب آپ کی انگلیوں پر ناچتے ہیں۔
پاکستان میں یہ کھیل ایسے ہی نہیں چلتا رہے گا وقت آنے والا ہے کہ معاملات کیانیون اور زرداریوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور مخلص اور دیندار قیادتیں اس بدنصیب ملک بھی میسر آجائین گی۔اچھا ہی ہوا کہ آزادی کی ساری تحریکیں انیسویں اور بیسویں صدی میں ثمرمند ہوگئیں ورنہ اگر آج وہ تحریکیں چلتیں تو کسی المیہ انجام سے دوچار ہوتیں۔ مگر ایک بات یاد رکھیے کہ ہر عروج کو زوال ہے وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب آپ کو اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔
شکر ہے کہ اس تالاب ٹہرے ہوئے اور مردہ تالاب میں کسی نے تو پتھر مارا.
قاضی حسین احمد صاحب شاید وہ واحد ہائی پروفائل ہستی ہیں جنہوں نے اس پورے واقعہ پر اس سچائی سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جس پر کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا.
ایک نہایت بھرپور اور ایماندارانہ تجزیہ کیا گیا ہے اس مضمون میں.
اللہ سبحانہ تعالیٰ قاضی صاحب کو لمبی عمر اور فکری رہنمائی کا حوصلہ اور توانیائیاں عطا فرمائے . آمین
قاضی حسین احمد کی تعریفیں کرنے والوں کو کچھہ تو شرم کرنی چائیے یہ وہ ہی انسان ہے جس نے معصوم لوگوں کو جہاد کے نام پر مروایا ہے، اور کیسا سفید جھوٹ کے یہ طالبان کی دہشتگردی مشرف دور سے شروع ہوئی ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ دہشتگرد ضیاءالحق دے دور میں بنائے گئے اور قاضی حسین احمد ڈالر لے کر اس کارنامے میں پیش پیش رہے، اور یہ آج بھی ان ہی طالبان دہشتگردوں کا ساتھہ دے رہے ہیں ساری دنیا کے سامنے انکا مکروہ چہرہ آچکا ہے اب تو ایسے درندوں کی تعریفیں کرنا بند کر دو۔
اللہ آپ کو عقل سلیم سے نوازے،
چند حقائق سے آپ کو آگاہ کرتے چلیں۔۔۔
1۔ طالبان کا ظہور 1995-96 میں اس وقت ہوا جب حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار، جنبش ملی اور جمعیت اسلامی افغانستان کے احمد شاہ مسعو اور استاذ برہان الدین ربانی کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ چکے تھے جس کے تحت ایک جمہوری حکومت کا کابل میں قیام عمل میں آچکا تھا جس میں حکمت یار وزیراعظم، ربانی صدر اور احمد شاہ مسعود وزیردفاع تھے۔
2۔ 1995-96 سے پہلے نہ طالبان تھے نہ کوئی ملا عمر کو جانتا تھا۔ طالبان پاکستانی انٹیلیجنس و فوج کی مدد و تعاون سے منظرعام پر آئے۔ خود وزیرداخلہ نصیراللہ بابر نے میڈیا پر کہا کہ “اپنے بچے ہیں”۔ وزیراعظم نے کہا کہ “آئی ایم مدر آف طالبان”۔ اور آپ ضیالحق کی روح کو ایصال ثواب پہنچارہے ہیں۔۔۔
3۔ خود قاضی صاحب محاذ پر موجود رہے بلکہ انکے بیٹے بھی، موجودہ امیر سید منور حسن کے بیٹے بھی سالوں تک افغانستان کے محاذ پر رہے جب تک روس واپس نہیں چلا گیا۔
4۔ آخری بات یہ کہ افغان طالبان کو تحریک طالبان پاکستان سے الگ دیکھنا چاہیے۔ افغانستان میں برسرپیکار مجاہدین ٹی ٹی پی جیسے استعمار کے ایجنٹوں کے طرز عمل کے لیے جوابدہ نہیں ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں آپ سے گذارش ہے کہ آپ بے شک اپنے بغض و عناد پر قائم رہیں لیکن ذرا مطالعہ ضرور کریں تاکہ کچھ پتہ تو چلے۔۔۔
آپ کو یہ تک نہیں پتہ کہ طالبان کون ہیں اور آپ چلے ہیں قاضی صاحب پر گندی زبان میں تنقید کرنے۔۔۔
آپ نے پہلے بھی قلم کارواں پہ گندی زبان کے جوہر دیکھائے ہیں اس سے اجتناب کیجیے۔۔۔
اتنا گرم ہونے کی ضرورت نہیں ۔ منتظم صاحب۔۔۔ میرے اصل سوال پر غور کرنا آپ نے شاید ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ قاضی صاحب کا موجودہ جہادی عمل کے حوالے سے میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ فی الحال یہ میری گفتگو کا موضوع نہیں۔۔ نہ ہی میرا سوال اس سے متعلق ہے کہ کس کا بیٹا کہاں اور کب تک موجود رہا۔ آپ کو یہ وضاحت کیوں کرنا پڑی؟
آپ ‘گندی زبان’ کی کیا تعریف کرتے ہیں ؟ کیا میں نے کسی کو گالی دی ہے یا ذاتیات پر حملہ کیا ہے ؟ اس کی نشاندہی کریں۔ ورنہ اپنے الفاظ پر خود غور کریں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ طالبان (جو دراصل خود پاکستانی مدرس سے فارغ التحصیل تھے) کو افغانستان میں مدد پاکستان اداروں نے دی، لیکن کیا انھوں نے جن اصولوں پر حکومت کو چلا یا کیا وہ بھی اسی باسی نظام کے عطا کردہ تھے یا شریعت کے مطابق تھے ؟؟ اور پھر یہ کیوں کر ضروری ہے کہ آپ کی حکومت کو سند دینا ان تحریکوں اور علماء کے لیے لازمی ہے، ورنہ اس میں کوئی مسئلہ ہے۔ اس
تاریخ کے اس ادنیٰ طالب علم کو معلوم ہے کہ طالبان کون ہیں ، چاہے “یہاں “کے ہوں یا “وہاں” کے؟ میں قومی و ریاستی تقسیم کی عینک لگا کر ان معاملات کو نہیں دیکھتا، کیوں کہ دین کا حکم میرے لیے اول نمبر ہے ۔ اور شاید سب مسلمانوں کے ہونا چاہیے تھا۔ رہی بات کہ ان کے اعمال اور ان سے منسوب کاموں کی فہرست تو عادل کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے شریعت کا حکم دیکھیں اور پھر میڈیا کی جعلی رپورٹس سے اجتناب کرتے ہوئے ان اصل مصدر سے ان معاملات کو سمجھیں، جس کی شریعت اجازت دیتی ہے۔ اور جن سے یہ کام منسوب کیے جاتے ہیں، ان کے بیان اصل مصدر کے ساتھ پڑھیں۔
بہر حال یہ حقیقت ہے کہ قاضی صاحب حمید گل اینڈ کمپنی کے ساتھ خود افغانستان میں اس دور کی مختلف قیادتوں کے مابین افہام و تفہیم کے عمل میں شامل رہے ہیں۔
خدارا آپ ہمیں معاف کریں اور غور سے اس جوابی تبصرے کو دوبارہ پڑھیں. وہ تبصرہ آپ کے لیے ہے ہی نہیں جس میں گندی زبان کے حوالے دیے گئے ہیں، یا آپ نے نام بدل کر “فکرپاکستان” کے نام سے تبصرہ کیا ہے؟ 🙂
دوسری بات یہ کہ دین محض اتنا ہی نہیں ہے کہ بدھا کے مجسمے کو توڑیں اور اسے عین اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق قرار دیں. کسی بچے کو ماریں اور کہیں کہ چونکہ حضرت خضر نے بھی بچے کو قتل کیا تھا کیونکہ بڑے ہوکر اسکے فتنہ ہونے کا پتہ تھا تو لہذا یہ عین شرعی عمل ہے.
دوسری بات یہ کہ قومی و ریاستی تقسیم کی عینک کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے آج کل اور ایسے فسادیوں کی بھی کمی نہیں جو پاکستان کی محبت کو “شرک اکبر” کہتے ہیں. اب ذرا کوئی ان سے پوچھے کہ کیا چاہتے ہو بھائی؟ پاکستان توڑ دیں آپ کے ان طالبانی مجاہدین کے لیے؟ وہ مملکت جو اسلام کے نام پر حاصل ہوئی جہاں کوئی شک نہیں کہ نظام اسلامی کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو لیکن آس و امید موجود ہے. اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے بھی موجود ہیں تو کیا اس سے ہٹ کر مملکت پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھالیں؟
ٹکڑے کرتے جائیں پاکستان کہ اور دیگر مسلم ممالک کے کہ ہم اسلام خلافت کسی زمانے میں قائم کریں گے اور خلیفہ آسمان سے اُترے گا جس پر تمام عالم اسلام مجتمع ہوجائے. اس وقت تک جتنے اسلامی ممالک کے جتنے ٹکڑے ہوسکیں کرلیے جائیں ہیں جی؟
محترم میں مزید کچھ کہہ کر اسلام بیزاروں کو مضبوط نہیں کرنا چاہتا…
والسلام…
@ ویب منتظم
السلام علیکم ۔۔۔
بھائی ۔۔۔ یہ ایک لطیفہ ہوگیا ہے۔۔۔ کیونکہ جب میں نے جواب پوسٹ کیا، اس وقت تک ان دوسرے صاحب کا جواب میری طرف ظاہر نہیں ہوا تھا، چنانچہ میں سمجھا کہ اتنی گرم باتیں آپ نے مجھے سنائی ہیں ۔۔۔ خیر۔۔۔ اس غلطی سے بچنے کے لیے ایک حل یہ ہوتا ہے کہ جس سے مخاطب ہوں، اس کا نام اپنے جواب کے شروع میں لکھ دیں۔۔۔ بات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔۔۔ فیس بک میں بعد میں دوں گا۔ انشاءاللہ
حضرت آپکی مجبوری یہ ہے کہ آپ کیونکہ خود جماعتی مائنڈ سیٹ کے لوگ ہیں تو آپ نے تو کسی صورت بھی حقائق کو تسلیم نہیں کرنا۔ لیکن آپ کس کس حقیقت سے نظریں چرائیں گے، کیا جماعت اسلامی نے فوجی ڈکٹیٹر ضیاءالحق کا ساتھہ نہیں دیا ؟ کیا اسکے جعلی اسلام کے نفاز میں جماعت اسلامی استعمال نہیں ہوئی؟ کیا افغان جہاد کے نام پر لاکھوں لوگوں کو افغانستان میں نہیں مروایا؟ کیا جماعت اسلامی نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھہ نہیں دیا؟ کیا جماعت اسلامی نے آئی ایس آئی کے کہنے پر آئی جے آئی بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا؟ کیا جماعت نے اس کار خیر کے لئیے آئی ایس آئی سے اس وقت کے پچاس لاکھہ روپے نہیں لئیے؟ کیا جماعت اسلامی نے فوجی ڈکٹیڑ پرویز مشرف کا ساتھہ نہیں دیا ایم ایم اے کی صورت میں؟ پانچ سال سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت رہی کونسی شریعت نافذ کردی ان لوگوں نے سرحد میں؟ ان ہی پانچ سالوں میں یہ درندہ صفت طالبان قبائلی علاقوں میں مستحکم ہوئے ہیں اور ایم ایم اے کی سرپرستی میں ہوئے ہیں جسکا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کے ٹی ٹی آئی امریکہ کی ایجنٹ ہے اور دوسری طرف آپ ان امریکہ کے ایجنٹوں کے خلاف آپریشن کرنے کی بھی مخالفت کر رہے ہیں جماعت اسلامی اس وقت سب سے بڑی حمایتی بن کر کھڑی ہوئی ہے ان امریکہ کے ایجنٹوں کی اور آپ ہیں کے جماعت کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے۔ یہ کیسا دوغلہ معیار ہے آپ لوگوں کا؟ جب آپ خود مان رہے ہیں کہ یہ لوگ طالبان ہیں ہی نہیں یہ تو امریکہ کے ایجنٹ ہیں تو پھر ان کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے تو کیوں شور مچا رہے ہیں آپ اور آپکی جماعت اسلامیِ؟ اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں لوگ کے جو امریکہ کے ایجنٹوں کے حمایتی ہیں وہ لوگ پھر کون ہوئے ؟ اور پھر آپ ہی کہتے ہیں کے جو امریکہ کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے تو بھائی غدار کون ہوا پھر؟ آپ لوگ خود بری طرح سے کنفیوژ ہیں کہ کریں تو کیا کریں؟۔ یہ بات آپ نے درست کہی کے یہ دہشتگرد ہیں اور انکی سرکوبی ہر ہر حال میں ہونی چاہئیے تو برائے مہربانی قاضی صاحب کو بھی بتا دیں کے یہ طالبان نہیں ہییں یہ امریکہ کے ایجنٹ ہیں انہیں شائد یہ بات نہیں معلوم جب ہی وہ ہر فورم پر ان دہشتگردوں کی حمایت میں بول کر بے چارے جماعتیوں کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہیں۔
@ fikerepakistan
میاں!
خود آپ کے کالم نگار یہ کچھ لکھتے ہیں۔۔۔ لگتا ہے یہ سب سے پیسے لے کر سب کی “واٹ” لگا جاتے ہیں۔۔۔ ان کو سمجھیں کا اپنی کالم “آئینی حدود” میں لکھ کریں۔۔۔ اور وقت کے تقاضوں کو سمجھا کریں
سلیم صافی۔ 20 اکتوبر 2012
http://e.jang.com.pk/10-20-2012/karachi/pic.asp?picname=06_03.gif
آپ سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہوں گا، کیا وجہ ہے کہ یہ جہادی کل امریکی مدد سے روس کو شکست دینے کا بعد امریکہ کے خلاف ہی کھڑے ہوگئے اور اب ان کی مدد کیا، ان کو تسلیم کرنے پر کوئی تیار نہیں۔۔۔ لیکن بھلا ہو وقت کا ، دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ فتح کس کو مل رہی ہے۔ کیا اب کے “اسرائیل” ان کی پشت پناہی کررہا ہے ؟؟ یا کوئی چوتھی طاقت امریکہ کو زمین سے لگانے کے لیے ان کی مدد کررہی ہے۔۔۔
حقائق پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن وقت کی ہوا ایک نہ ایک دن ان سے یہ مٹی ہٹا دیتی ہے۔۔۔
جماعت اسلامی کا کردار کیا رہا ہے۔۔۔ اس پر مجھے روشنی ڈالنی کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے بہی خواہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصل معاملہ کیاہے۔ لیکن ہم جو تعصب کی آگ میں سب کا ختم کرنے چلے ہیں، یہ بھی ایک قوم ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی۔ اس پر توجہ دیں۔ ورنہ آپ کل “سونامی خان” کو امریکہ کا ایجنٹ کہہ کر اپنا دل مطمئن کررہے ہوں گے۔
پیارے بھیا فکرپاکستان،
جماعت اسلامی ضیاءالحق سے پہلے ایوب خان و یحییٰ خان کو بحی جھیل چکی ہے اور ایوب دور میں تو جماعت اسلامی پر پابندی کے ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلی مودودی کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔ تو صرف ضیاءالحق کا رونا کیوں بھائی؟ اور کیا صرف جماعت اسلامی ہی ضیاءالحق کے ساتھ تھی؟ اس میں وہ تمام جماعتیں شامل تھیں جو پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس) میں شامل تھیں جو بھٹو آمریت میں انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف بنائی گئی تھی. ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے اور 90 دنوں میں انتخاب کے وعدے کے بعد ہی حکومت میں جماعت کے چند وزرا شامل ہوئے جو کہ ضیاء کی وعدہ خلافی کے بعد چند ماہ میں حکومت سے باہر آگئے تو اس میں ساتھ دینا کیسا ہوا؟ ضیاء الحق نے تو جماعت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی. اسلامی جمعیت طلبہ کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے طلبہ یونین پر پابندی لگائی. یہ سب کچھ وہ جماعت اسلامی کی محبت میں کررہا تھا؟ محترم ٹی وی ٹاک شوز سے حاصل شدہ معلومات کے سہارے اسی طرح کے عذر لنگ پیش کیے جاسکتے ہیں. آپ سے پھر گذارش ہے کہ کچھ مطالعہ کریں.
.
افغان جہاد کے بارے میں بہت باتیں ہوچکی ہیں اور اس پر بحث فضول ہے کہ عصبیت و تعصب کی گھٹی پی کر جوان ہونے والوں کے آگے بھینس کے آگے بین بجانا ہی ہوگا.
کیونکہ جو لوگ افغان جہاد کا پسن منظر اور حالات و واقعات جانتے ہیں وہ اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتے.
ساتھ ہی آپ یہ بھی تصحیح کرتے چلیں کہ افغان جہاد کی پالیسی ضیاءالحق نے نہیں ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی تھی جب 1974 میں کابل سے ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے ربانی، حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور دیگر مجاہدین رہنمائوں کو پشاور پہنچایا گیا. اورساتھ ہ پاکستان میں افغان مجاہدین کی تربیت کا آغاز کرنے کا بھی حکم دیا. لہذا یہ ضیاء ضیاء کی گردان سے تو کم علمی و ٹاک شوئی دانش وری کا اندازہ ہوجاتا ہے.
.
اس سب کے باوجود اگر صرف یہ سوال کیا جائے کہ جناب جب سوویت یونین آپ کے پڑوس میں آکر بیٹھ گیا اور سرحد پر جھٹرپیں ہونے لگیں اور صاف نظر آرہا تھا کہ اسکی اگلی منزل گرم پانیوں کی سرزمین ہے تو اس وقت کیا پالیسی اپنانی چاہیے تھی؟ ذرا ڈیفینس و اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ماہر علامہ فکر پاکستان صاحب اس سوال کا جواب دیں اگر تاریخ جانتے ہیں تو…..
.
آپ کی باتیں اور طرز علمل ہر چیز سے محض بغض و عناد پر مبنی کنفیوژن کی ٹپک رہا ہے. کبھی کہتے ہیں کہ جہادیوں کی دہشت گردی کی بنیاد ضیاء دور میں رکھی گئی. کبھی کہتے ہیں کہ ایم ایم اے کی پانچ سالہ حکومت میں انکو پروان چڑھایا گیا؟ آپ تو شاید پچھلے دس سالوں کی تاریخ بھی نہیں جانتے.
.
میرے بھائی. صوبائی حکومت کے اتنے اختیارات نہیں ہوتے کہ وہ وفاق کے کی علاقے میں آپریشن کو رکوادے یا کروائے. ویسے بھی فاٹا وفاق کے انڈر میں ہے اور اس کے ذمہ دار وفاقی حکومت ہے نہ کہ صوبائی حکومت.
.
ایم ایم اے کے دور میں خود سوات ایک پرسکون علاقہ تھا. خود تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے سربراہ مولانا صوفی محمد جو کہ مولوی فضل اللہ کے سُسر ہیں کو ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے گرفتار کررکھا تھا جسے بعد میں اے این پی کی حکومت نے آزاد کیا اور بڑا ڈھنڈورا پیٹا کہ مولویوں نے انہیں گرفتار کررکھا تھا اور ہم نے انہیں آزاد کیا اور نام نہاد طالبان کو خوب آزادیا عطا کی تاکہ آپریشن کی راہ ہموار کی جاسکتے.
.
جماعت اسلامی ہر اس گروہ کی ہامی ہے جو افغانستان میں غاصبوں کے خلاف جہاد کررہے ہیں. جو یہاں پاکستان میں ریاست سے متصادم ہیں. جماعت انکے ساتھ نہیں ہے لیکن پتہ تو چلنا چاہیے کہ ان امریکی ایجنٹوں کو ہیومن ریسورس کیوں مل رہا ہے؟
.
کیا ڈرون حملے جس میں 90 نوے فیصد بے گناہ مارے جائیں وہ کیا امن قائم کریں گے یا انتقام و نفرت کے جذبوں کو پروان چڑھائیں گے؟ کیا فوجی آپریشن مسئلے کا حل ہے؟ لاکھوں افراد کو اپنے گھروں سے بے گھر کرکے اور اندھا دھند گولہ باری و بمباری جس میں دوست دشمن کی تمیز نہ ہو، گناہ گار و بے گناہ کا کچھ پتہ نہ ہو کیا اس سے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟ آپریشن تو سوات و جنوبی وزیرستان میں بھی ہوئے تو کیا وہاں امن قائم ہوگیا؟
.
آپ کو شدید غلط فہمی نے گھیر رکھا ہے کہ جماعت کے لوگ کنفیوز ہیں یا انہیں کوئی مسئلہ ہے کسی کا دفاع کرنے میں. جماعت اسلامی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوری (پارلمنٹ) کی قراردادوں کی روشنی میں ہی مسئلے کا حل چاہتی ہے. اور پارلمنٹ کی قراردادیں کیا ہیں. مذاکرات، بات چیت، جب امریکی اپنے خلاف برسرپیکار طالبان سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں.
افغانستان میں طالبان حکومت کو پاکستان، ہندوستان، مملکت سعودیہ عربیہ سمیت تمام عالم اسلام کے زیادہ تر جید علمائے کرام کی حمایت حاصل تھی، پاکستان کے تمام بڑے مدارس جیسے دارالعلوم اکوڑا خٹک، دارالعلوم کراچی، بنوری ٹاون اور جامعہ اشرفیہ وغیرہ وغیرہ ملا عمر کی حکومت کو عین اسلامی حکومت تسلیم کرتی تھیں۔ اب اگر قاضی حسین اپنی اور جماعت اسلامی کی بات کررہے ہیں تو جماعت اسلامی ایک فیصد پاکستانیوں کی بھی ترجمان نہیں چہ جائے کہ وہ پورے عالم اسلام کی طرف سے کوئی رائے دے۔
جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو یہ واقعہ انتہائی بلاجواز ہے اور تمام جید علماء اسکی مذمت کرچکے ہیں۔
کاشف نصیر: دارالعلوم اکوڑا خٹک، دالعلوم کراچی و بنوری ٹائون وغیرہ بھی مملکت پاکستان کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہیں. حضرت ڈاکٹر اسرار احمد کے ملا عمر کی خلافت کو تسلیم کرلینے سے سارے پاکستان کی نمائندگی نہیں ہوجاتی. اگر سوات کے صوفی محمد کی ٹی این ایس ایم کے جاہلانہ فلسفے کو ڈاکٹر اسرار صاحب تسلیم کرلیں تو وہ عین شرعی و حق نہیں کہلا سکتا. سعودی عرب و ہندوستان سے نہ جانے کس نے تسلیم کیا. کہیں دارالعلوم دیوبند نے تو تسلیم نہیں کرلیا تھا؟ 🙂
صرف سعودی حکومت نے تسلیم کیا تھا وہ بھی پاکستانی حکومت کے اسرار پر.
ساتھ ہی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے. یہ جماعت اسلامی ہے احیاء اسلام کی عالمی تحریک جس سے مہیز لیکر ہی دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے اپنی راہ متعین کی ہیں. بات جب دنیا بھر کی معروف اسلامی تحریکوں کی کی جاتی ہے تو اس سے مراد جماعت اسلامی اور اس کی ہمسایہ برادر تنظیمات ہی ہوتی ہیں جیسے اخوان المسلین مصر، و دیگر اسلامی ممالک کی اسلامی تحریکیں نہ کہ تنظیم اسلامی کہ جو شاید 0.0001 فیصد کی بھی نمائندہ نہیں.
میں نے تنظیم اسلامی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی ڈاکٹر اسرار احمد کا کوئی حوالہ دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں آپکو پریشانی لاحق ہوگئی۔ میں آپ سے دو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ تنظیم اسلامی 0.00001 فیصد افراد کی چھوٹی سی تنظیم ہے البتہ میں یہ سوال کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی کتنے فیصد لوگوں کی نمایندہ جماعت ہے؟
پاکستان کے دو صوبوں اور تقریبا تمام بڑے شہروں میں دیوبندی مکتب فکر کی اکثریت ہے اور علماء دیوبند نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی ہے جب کہ پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں بریلوی مکتب فکر کی غالب اکثریت ہے اور یہ لوگ بھی اصول شریعت اور نفاز شریعت میں طالبان سے ہمیشہ سو فیصد متفق رہے ہیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی سے میں نے طالبان کی حکومت کے شریعی اقدامات کی حمایت میں کئی بار سنا تھا۔ سعودی علماء طالبان کے طرز حکومت سے سو فیصد متفق رہے ہیں اور انکی اس حوالے سے کئی تحاریر موجود ہیں۔ ہندوستان کے مشہور اہل حدیث اسکالر ڈاکٹر زاکر نائیک بھی طالبان کی حکومت کو عین اسلامی قرار دیتے رہے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے تمام اکابرین کا طالبان کے حوالے سے یہی موقف رہا ہے۔
تبصرہ کرتے ہوئے میں بھول گیا تھا کہ میں ایک جماعتی بلاگ پر تبصرہ کررہا ہوں اور جماعتیوں کے نزدیک اسلامی تحریکوں سے مراد صرف اور مولانا مودودی کے مداح ہوتے ہیں۔
حضور تبصرہ کرتے ہوئے آپ بغض جماعت کی اپنی ازلی فطرت سے باز نہ رہ سکے اور جماعت کی نمائندگی آپ کو ایک فیصد بھی نظر نہیں آئی. باقی یہ تو جاہلانہ باتیں ہیں کہ اس ملک میں فلاں کی اکثریت ہے اور فلاں اقلیت. جو اکثریت ہیں ان کے فتوے طالبان کے بارے میں موجود ہیں جو شترمرغ کی طرح ریت میں سر دیے اپنی دنیا میں مگن رہیں ان سے یہی امید ہے کہ انہیں جماعت اسلامی اپنی حریف اور دشمن ہی لگتی ہے کہ جماعت ان منبر و محراب کے اثیر ملائوں کے لیے ہمیشہ سے خطرے کی علامت ہی رہی ہے. وہ جماعت کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کرسکتے ہیں.
نہ جانے کہاں پڑھ لیا کہ علامہ شاہ احمد نورانی، سعودی علماء و ہندوستانی علماء نے طالبان دور حکومت کو عین اسلامی قرار دیا تھا. بجز اسکے کچھ نہیں کہ استعمار کے خلاف جہاد میں ہر کسی نے مزاحمت کو اسلامی جہاد ہی کہا ہے. اگر بدھا کے مجسموں کو توڑنا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، اور زبردستی داڑھی راکھوانا اور پردہ کروانا عین اسلامی ہے تو پھر ایسا اسلام تنظیم اسلامی کے جیالوں کو ہی مبارک ہو. ہم اس سے اعلان براءت کرتے ہیں.
یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے کبھی سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر تنظیم اسلامی کا نہ کبھی دفاع کیا ہے اور مداح سرائی البتہ میں کئی بار اعتراف کیا ہے کہ یہ جماعت 0.0001 فیصد پاکستانیوں کی جماعت ہے۔ اس لئے بار بار ڈاکٹر اسرار احمد اور تنظیم اسلامی کا ذکر کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔جب اس کے مقابلے میں میں نے نہ صرف جماعت اسلامی کا بارہاں دفاع کیا ہے بلکہ سوشل میڈیا میں کئی لوگ مجھے جماعت اسلامی کا رکن کا کارکن سمجھتے ہیں اس لئے جماعت اسلامی سے بغض رکھنے کا الزام دینا درست نہیں۔
جماعت اسلامی کو ایک فیصد افراد کی جماعت قرار دینے کا مطلب ہے کہ جماعتیوں کی تعداد 19 لاکھ سے زیادہ ہے، اس پر تو آپکو خوش ہونا چاہئے۔ مزید یہ کہ صرف “ایک فیصد” کے جملے سے آپ جس حد تک جزباتی ہوئے ہیں اور مخالف کی رائے کو دلیل کی بنیاد پر رد کرنے کے بجائے “بغض جماعت کی اپنی ازلی فطرت” “جاہلانہ باتیں” جیسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، اس کے مقابلے میں قاضی صاحب کی طرف سے طالبان سے متعلق خیالات پر اس ناچیز کے الفاظ پر ضرور توجہ دیجئے گا۔
اکثر اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ تنقید کا جو حق جماعت اسلامی اکثر اپنے لئے طلب کرتی ہے، دوسروں کو جماعت پر تنقید کرنے لئے دینے میں تامل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اور انتہائی جزباتی انداز میں مخالفین کی کردار کشی وغیرہ کرتی ہے۔
جناب آپ کس بنیاد پر سوشل میڈیا پر تنظیم اسلامی کی حمایت یا دفاع کریں گے؟ ایسا کیا کیا ہے یا کرنے کے قابل ہیں کہ ان کا دفاع کیا جائے یا انہیں موضوع بحث بنایا جائے؟ آپ کسی خوش فہمی میں تو مبتلا نہیں؟
آپ نے کیسے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جماعت اسلامی کے ہمنوا ایک فیصد سے بھی کم ہیں؟ شاید کبھی گیلپ کا کوئی سروے تک نظر سے نہیں گذرا کہ اپنی دلی تمنائوں کو یوں آشکار کرتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگ شاید عقل سے عاری ہیں جو آپ کو جماعت کا کارکن سمجھتے ہیں کیونکہ اکثر مواقوں پر آپ کی حرکات بالکل وہی رہی ہیں جو ڈاکٹر اسرار اور خود انکے ممدوحوں کا شیوہ رہا ہے۔ کبھی کلمہ خیر انکے منہ سے نہیں سنا۔ یار لوگ تو امت اخبار کو بھی جماعت کا اخبار سمجھتے ہیں۔
تنقید آپ کا حد ہے تنقید ضرور کریں لیکن حد میں رہ کر بے بنیاد باتیں جن کا کوئی سر پیر نہ ہو نہ کوئی حقیقت کسی بھی حق گو فرد کو گوارا نہیں ہوسکتی۔ اپنے تبصروں پر غور کریں۔
باتیں تو آپ بڑی دلائل کی کرتے ہیں ذرا اپنے دلائل کے بودے پن پر کبھی غور بھی کیا ہے؟ بھلا پتہ تو چلے کہ ہمارے مولانا شاہ احمد نورانی کتنے فیصد بریلوی بھائیوں کے نمائندہ ہیں؟ اور کیا کوئی ثبوت موجود ہے آپ کے پاس ان کے کسی ایسے اسٹیٹمنٹ کا؟ اور جن چند دارالعلوموں کی بابت آپ بیان کررہے ہیں وہ کیسے پورے پاکستان کی نمائندہ ہوگئیں؟ کچھ تو عقل کو ہاتھ ماریں۔
اگر قاضی صاحب نے کہا بھی ہے اور انکی جماعت کی نمائندگی ایک فیصد بھی نہیں تو آپ کو اتنا بوکھلانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے لیکن قاضی صاحب کو نہیں کہ جناب گنڈاسا لیے پہنچ گئے کہ قاضی صاحب آپ کی کیا اوقات؟؟؟ آپ ہیں کیا جناب؟
یہ جماعتی بلاگ کیا ہوتا ہے؟ ڈاکٹر اسرار کا نام آتے ہی ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی نے دم پہ پیر رکھ دیا ہو اس کے بعد ساری حدیں پھلانگنا آپ کا شیوہ رہا ہے۔ کیا ڈاکٹر اسرار سے آپ کے تعلق کو قلم کارواں کے کسی آفیشل نے بیان کیا ہے؟
جماعت اسلامی جیسی تنظیم کا ضیاء کچھ عرصہ ساتھ دینا آپ کے حلق سے نیچے نہیں اترتا لیکن ڈاکٹر اسرار کی ضیاء کی حکومت میں شمولیت اور انکی آشیرباد پر آپ دس بہانے گھڑنے کے لیے تیار رہیں گے۔ اور اس کے مظاہر پہلے بھی ہم دیکھ چکے۔۔۔۔
فکر پاکستان : آئی جے آئی کی تشکیل طالبان کی پیدائش سے سالوں پہلے کا واقعہ ہے، آپ دو مختلف معاملات کو آپس میں ملارہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ قبائلی علاقوں میں طالبان نے طاقت ایم ایم اے کی حکومت کی بدولت نہیں حاصل کی، شاید آپ بھول گئے ہیں کہ قبائلی علاقے 2002 سے مسلسل فوجی آپریشن کی زد میں ہیں، وانا آپریشن کب ہوا تھا ؟ ڈرون حملے کب شروع ہوئے؟ باجوڑ، خیبر، مہمند اور کرم ایجنسیوں میں آپریشن کس دور میں ہوئے؟
منتظم صاحب : 90 دن کے وعدے پر ایک “جمہوریت پرست” اور “آئین پرست” جماعت کا کسی فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل ہوجانا بڑے تعجب کی بات ہے۔
علامہ صاحب آپ کا بس چلے تو آپ شاید رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہی کہیں کہ رسول خدا ہوتے ہوئے بھی حدیبیہ جیسا معاہدہ کیا کفار سے اتنا دب کر.
حقائق کو مسخ کرنے میں جماعتیوں کا جواب ہی نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ جماعت اکیلی شامل نہیں تھی اور بھی کئی جماعتیں شامل تھیں ضیاءالحق کے اقتدار کو دوام بخشنے میں، تو حضرت یوں کہیے نہ کے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں بشمول جماعت اسلامی پھر حاجی نہ بنیں نہ، ایسی منافقت کے ساتھہ جماعت اسلامی کے ساتھہ اسلامی لگانا اسلام کی توہین ہے۔ اور ایم ایم اے تو ماشااللہ سے پرویز مشرف کے ہر اقدام میں کی ساتھی رہی ہے، ویب منتظم آئی جے آئی والے پچاس لاکھہ والی بات پر آپکی مجرمانہ خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟ اب تو عدالت کا فیصلہ بھی آگیا ہے اب بھی اگر آپ قاضی صاحب اور جماعت کی جھوٹی تعریفوں کے برج خلیفہ باندھیں تو تو تو تو دنیا اب انتی بیوقوف نہیں رہی ہے، اللہ کے واسطے اپنی آنکھوں سے جماعت کا عینک اتار کر معاملات کو پرکھیں انشاءاللہ اپکی ذہنیت پر جماعت کا لگایا ہوا تالا خود بہ خود کھل جائے گا ورنہ لگے رہئیے اس ہی طرح جھوٹی تعریفوں میں دنیا قاضی صاحب کو بھی جان چکی ہے اور جماعت اسلامی کو بھی۔ ایسی منافقت کے ساتھہ کم از کم اسلامی کا لفظ ہٹوا دیں اس میں سے تو زرا تکلیف کم ہوگی ہم لوگوں کو، ورنہ دنیا ایسے لوگوں اور ایسی جماعتوں کو دین فروش کے نام سے یاد کرتی ہے۔
کاشف نصیر بھائی کی ذات سے اختلاف مشکل کام ہے میرے لیئے۔
ہم تو آپ کی منافقت کی بات کررہےکہ سب کو چھوڑ کر صرف جماعت اسلامی کے خلاف گندی زبان کے جوہر دیکھانا چہ معنی دارد؟ جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے ہم فرض کرلیں کہ ضیاء کے ساتھ تین ماہ غلط تھے تو غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں. اس میں کونسی سی بڑی بات ہے؟ پرویز مشرف کا ساتھ دینے کی بکواس بھی ایسی ہی واہیات ہے جیسے کہ ایم ایم اے دور میں طالبان کی مظبوطی کی.
آپ کے معلومات اور غلط بیانی کا تو پول کھل گیا ہے. اور دیے گئے حقائق کو اگر غلط ثابت کرسکیں تو کیا ہی بات ہے. آپ حضرات کا المیہ یہ ہے کہ خواب میں بھی ضیاء ضیاء چلاتے ہیں اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک سب کو چھوڑ کر صرف ضیاء ہی ان کی توپوں کے دھانے پر ہے.
بحرحال آئی جے آئی کے لیے پیسے لینے کی بات بھی کھلا سچ کی طرح ہے کہ ہر کسی کو معلوم ہے. جو فہرست پیسے لینے والوں کی ہے اس میں ہر ایک فرد کے نام ہیں کہ فلاں نے اتنے پیسے لیے فلاں نے اتنے. الطاف بھائی کا نام تک موجود ہے لیکن جماعت کے معاملے میں کسی فرد کا نام نہیں. اور بقول عبداللہ طارق سہیل صاحب کے “نواز شریف سے لیکر باقی تمام لوگوں نے خود پیسے لیے لیکن پوری جماعت اسلامی خود پیسے لینے چلی گئی وہ بھی صرف 50 لاکھ روپے. کیا بات ہے.
اور پھر سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی ہی ایک اکیلی تنظیم ہے جس نے مقدمے میں فریق بننے کی درخواس دی اور آخر تک اسکی پیروی کرتی رہی. ساتھ ہی صرف جماعت کے سیکریٹری جنرل نے ہی حلف نامہ داخل کیا اس بابت کسی اور کو توفیق نہیں ہوئی. اور مقدمے کے اہم ملزمان اسی پارٹی کے دور حکومت میں نوازے گئے جس کو ہرانے کے لیے پیسے دیئے گئے تھے یعنی بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں جنرل مرزا اسلم بیگ صاحب کو تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا اور اسد درانی صاحب پہلے جرمنی میں سفیر رہے پھر سعودی عرب میں. کیا بات ہے اس ڈرامے بازی کی بھی. نیچے حلف نامے کا اسکرین شاٹ موجود ہے.
🙂 فکر پاکستان، وہ کیوں ؟
کاشف نصیر بھائی اختلافات تو دو سگے بھائیوں میں بھی ہوتے ہیں یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے، میں نے آپکی تحریروں اور غیر جانبدار تبصروں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ اللہ کے کرم سے معاملات کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھتے ہیں اور یہ آج کے دور میں بہت بڑی نعمت ہے اسلئیے چھوٹ موٹے مسائل پر آپ سے اختلاف بنتا نہیں ہے میرا، ہاں کسی جگہ اگر کوئی اصولی اختلاف سامنے آیا تو آپ مجھے اپنا مخالف پائیں گے۔ یہاں ہر شخص ہی اس تنظیم یا اس فرقے کی اندھی تقلید اور اندھی حمایت میں لگا ہوا ہے جس سے وہ وابسطہ ہے، ویب منتظم کی تحریروں اور تبصروں سے آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں کے وہ ہر ہر حال میں جماعت اسلامی کو پاکباز ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ساری دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی اب مودودی صاحب والی جماعت اسلامی ہرگز نہیں رہی ہے لیکن کیا کریں دماغوں پر اپنی اپنی جماعتوں کے ایسے تالے لگے ہوئے ہیں کے اپنی جماعت کے علاوہ لوگوں کو سارے ہی کرپٹ نظر آتے ہیں، ویب منتظم کہتے ہیں کے ایک جماعت اسلامی ہی کیا باقی تمام جماعتوں نے بھی تو شامل تھیں ضیاءالحق کے اقتدار کو دوام بخشنے میں، کیسی بھونڈی دلیل ہے اگر سو لوگ مل کر کوئی چوری کریں گے تو کیا وہ چوری جائز ہوجائے گی؟ آپ میں اور دوسری جماعتوں میں ایک واضع فرق یہ ہے کہ باقی جماعتوں نے اسلام کا نام لے کر یہ ملک و قوم کے ساتھہ یہ گھٹیا کام نہیں کیا تھا وہ سیاست کے نام پر کر رہے تھے میں انکی بھی مذمت کرتا ہوں میں نے کب انہیں ٹھیک کہا ہے، لیکن آپ تو اسلام کے نام لیوا ہیں آپکا ایسا کوئی بھی قدم اسلام فروشی کے زمرے میں آئے گا جناب اللہ کا واسطہ لے آپکو کے آپ اپنے دماغ پر لگا جماعت کا تالا کھول لیں ورنہ آنے والے وقتوں میں بلاگ پر تو کیا آپکے گھر میں بھی آپکی کوئی نہیں سنے گا۔ جو حلف نامہ آپ نے پیش کیا ہے ایسے حلف نامے اور حلف پر ہی ہاتھہ رکھہ کر ہر روز پاکستان میں جھوٹ بولا جاتا ہے ایک ہی معاملے پر دو فریق حلف پر ہاتھہ رکھہ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ جو کہوں کا سچ کہوں کا اور سچ کے سوا کچھہ نہیں کہوں گا، اور پھر اسکے بعد وہ سچ کے سوا سب ہی کچھہ کہتا ہے، ابھی رمضان کی ہی مثال لے لیں قبائلی علاقوں کے اٹھارہ لوگوں جن میں کچھہ عالم دین اور کچھہ حفاظ بھی تھی نے قسم اٹھا کر گواہی دی ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے عید کا چاند دیکھا ہے اور انکی اس گواہی کو مان کر لاکھوں لوگوں نے اپنے دو عدد روزے قربان کر دئیے لیکن شوال کا جاند تیس تاریخ کا ہوگیا اور ان اٹھارہ لوگوں کی جھوٹی گواہی کا پول کھل گیا، تو بھائی معاف کیجئیے گا اگر پاکستان کی ساری جماعتیں کرپٹ اور جھوٹی ہیں تو جماعت اسلامی بھی کوئی دودھہ کی دھلی نہیں ہے وہ بھی باقی تمام سیاسی جماعتوں کی طرح کرپٹ اور جھوٹی مکار ہے ہاں باقی جماعتوں اور جماعت اسلامی میں یہ فرق واضع ہے کے باقی لوگ سیاست کے نام پر یہ گھناونا کاروبار کررہے ہیں اور جماعت اسلامی اسلام کے نام پر یہ گھناونا کاروبار کر رہی ہے، ایسے لوگوں کو اسلئے ہی اسلام فروش کہا جاتا ہے۔
جناب فکر ۔۔۔۔۔۔۔:
آپ کب سے اسلام کے اتنے ہمدرد ہوگئے؟ بھلا جو لوگ “پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ” کو جھوٹ اور بہتان قرار دیں اور اسلام کو نظام حیات ماننے سے انکاری ہوں اور جن کا متمع نظر سکیولر و بے دین ریاست کا قیام ہو انکے پیٹ میں جب اسلام کا درد جاگے تو دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہوتی ہے۔ اپنے فکری استاد انکل حسن نثار سے پوچھنا کہ 90 کی دہائی میں “ظالموں قاضی آرہا ہے” کے نعرے لگانے کے لیے کتنے پیسے لیے تھے؟
ساتھ ہی ویب منتظم نے کہا ہے کہ جناب ٹھیک ہے ہم سے غلطی ہوئی تو اب کیا کیا جائے؟ آپ کی تو ساری تاریخ ہم جانتے ہیں، ڈکٹیٹر پرویز مشرف جن لوگوں کا آئیڈیل ہو انہیں ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا بڑا قلق ہے۔ ساتھ ہی اسے مودودی صاحب کا غم بھی لاحق ہوگیا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یہ مولانا مودودی پر گھٹیا ترین الزامات لگارہا تھا اسی قلم کارواں کی ایک پوسٹ میں اور اب یہ اس غم میں ہلکان ہورہے ہیں کہ ہائے جماعت اسلامی مولانا مودودی کی جماعت نہیں رہی۔۔۔ 🙂
اگر ان حلف ناموں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تو سپریم کورٹ میں بیٹھے لوگ شاید نااہل لوگ ہیں کہ غیر ضروری چیزوں کو کاروائی کا حصہ بناتے ہیں اور اس کے لیے خصوصی طریقہ کار مقرر کررہا ہے۔ بھائی ویب منتظم اسے کسی قانونی معاملات کا بھی کچھ اتا پتہ نہیں ہے بھائی آپ خواہ مخواہ سر پھٹول کررہے ہیں۔ بہر حال آپ نے اسے بہت زیادہ ایجوکیٹ کردیا ہے۔ اب تھوڑی بہت تاریخ سے تو آشنائی ہوہی گئی ہے اسکی۔
کاشف نصیر صاحب: میاں فریضہ اقامت دین صرف جماعت اسلامی اور دیگر برادر تنظیمات کا ہی شیوہ رہا ہے۔ خود محترم اسرار صاحب زبردست تنقید کے ساتھ جماعت اور دیگر پاکستانی دینی جماعتوں کا تقابل کرتے ہوئے یہی فرمایا کرتے تھے۔ اس میں اتنا چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔
ویسے آپ ہر بار تبصرہ کرتے ہوئے یا یہاں کوئی تحریر لکھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ جماعتی بلاگ ہے۔ 😉
.
اب تو یہاں لکھنے والے ہر لکھاری کی چھان بین کرنی ہوگی کہ جماعتی ہے کہ نہیں۔
.
لیکن یہ بات خوب رہی تحریر کے اصل پیغام سے قطعہ نظر کاشف صاحب کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ قاضی صاحب نے طالبان کی حکومت کو عین اسلامی نہیں قرار دیا
اور۔۔۔
نام نہاد فکر پاکستان کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ قاضی صاحب نے طالبان کو واجب القتل کیوں قرار نہیں دیا اور وہ ان کےخاتمے کے لیے ڈرون حملے اور فوجی آپریشن کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس سے آگے وہی پرکھوں سے حاصل شدہ بھائی لوگوں والی جماعت دشمنی والی ذہنیت۔۔۔
.
اے ہمارے رب ہم لوگوں کو سیدھا راستہ دیکھا اور شیطان کے ایجنٹوں کے شر سے بچا۔۔۔
آمین!
یہ -(ایڈٹ) اعظم جھوٹا ترین انسان ہے، میں نے کبھی بھی مودودی صاحب کے خلاف کوئی بات نہیں کی میں چیلنچ کرتا ہوں ایک تبصرہ بھی یہ نکال کر لے آئے میرا مودودی صاحب کے خلاف۔ یہ جس تحریر پر میرے تبصروں کا ذکر کررہا ہے اس تحریر پر میں اسے مٹی چٹا چکا ہوں، میں نے اس وقت بھی کہا تھا اور ثابت کیا تھا کہ یہ جماعت مودودی صاحب کی جماعت اسلامی نہیں رہی۔ میں نے مودودی صاحب کی کتابوں سے اقتباسات لے کر اسے پڑھوائے تھے کے مودودی صاحب کتنے بڑے ناقد تھے فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے اور آج کی جماعت اسلامی پیسے کی حوس میں ان ہی فرقہ بندی اور مسلک پرستی والوں کے ساتھہ ہم پیالہ و ہم نوالہ بنی ہوئی ہے۔ یہ مکار لوگ سمجھتے ہیں ہیں کے صرف یہ ہی مسلمان ہیں جو جماعتی نہیں ہے اسے مسلمان کہلانے کا حق ہی نہیں ہے، (ایڈٹ)ہوتے ہیں تو ایسے مسلمانوں سے تو ہندو بھلے ہیں وہ کم از کم تمہاری طرح دین فروشی تو نہیں کرتے۔
(نوٹ از ویب منتظم:
فکر پاکستان! برائے مہربانی تبصرہ کرتے ہوئے شائستگی کا خیال رکھیے۔ غیر شائستہ تبصرے اخلاقی شکست کا مظہر ہوتے ہیں)
نام نہاد فکر پاکستان، اصل نام کاشف یحیی ، ابلیس کے بھیا (فکر ۔۔۔) صاحب، ذرا یہ اقتباس غور سے ملاحظہ کریں۔۔۔
۔
“مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کا شمار دیوبندی فرقے میں ہوتاہے مگریہ لوگ دیوبندیوں سے بھی دو ہاتھ بد عقیدگی میں آگے ہیں یہ بھی دیوبندی ہی کہلاتے ہیں مگر دیوبندی بھی اندرونی طور پر ان سے بیزار ہیں لیکن بد عقیدگی میں سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں ۔
مودودی کی نگاہِ بصیرت الیی ہے کہ ہرطرف اسکو کمزور یاں ہی کمزور یاں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ سے لیکر ہر نبی صحابی اور ولی اللہ کی شان میں نکتہ چینی کی ہے ۔”
۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
۔
“آپ نے مودودی کے عقائد پڑھے یہی عقائد ان کی جماعت اسلامی کے بھی ہیں مودودی کے بارے میں دیوبندی مولوی محمد یوسف لُد ھیا نوی اپنی کتاب ”اختلاف اُمّت اور صراطِ مستقیم“ میں لکھتا ہے کہ مودودی وہ آدمی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حجّۃالا سلام امام غزالی علیہ الرحمہ تک تمام عظیم ہستیوں کے ذات میں نکتہ چینی کی ہے ۔”
۔
“مودودی کی کتاب تفہیمات غلاظتوں سے بھری پڑی ہے ۔جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے عقائد کیا تھے۔”
اصل تبصرہ یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔۔۔
http://www.qalamkarwan.com/2011/06/allah-walon-ki-hrtal-or-itehad-ki-zarurat-hy.html#comment-245
۔
ساتھ ہی احباب مندرجہ بالا تحریر پر تبصروں سے محظوظ ہوسکتے ہیں اور کاشف یحیی صاحب کی خوش فہمی کا بھی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ 🙂
ابلیسی بھیا صاحب، اب مجھے کچھ نہیں کہنا 😀
فکر پاکستان !
امید ہے آپکو شافی جواب مل گیا ہوگا۔ آپ نے شروع میں قاضی صاحب پر بھی عجیب و غریب الزام لگایا کہ انہوں نے لوگوں کو مروایا اور درندے سے تشبیہ دی۔ آپ جہاد کی فضیلت کے بارے میں تو کیا جانیں گے اتنا بھی نہیں جانتے کہ جہاد دین کا حکم ہے اور جب جہاد ہوتا ہے تو شہادتیں ضرور ہوتی ہیں۔ افغانستان پر ایک کافر جارح نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا تھا شریعت کی رو سے جہاد واجب تھا۔ اگر آپ کا دماغ جہاد اور عسکریت پسندی میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہے تو آپکو کیا ضرورت ہے اس طرح کی بیان بازیاں کرنے کی۔
پھر آپ نے کہا کہ جماعت اسلامی مولانا مودودی کی راہ سے بھٹک کر فرقہ پرستی کی راہ پر چل پڑی ہے تو جناب آپ کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ قاضی صاحب نے کئی بار شیعہ علما کی امامت میں نماز کی اقتدا کی ہے۔ امام بارگاہوں پر حملوں کے بعد جماعت اسلامی سب سے پہلے پہنچ کر ان حملوں کی مذمت کرتی رہی ہے۔ اگر آپ کو یقین نا آئے تو آغا مرتضیٰ پویا یا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے مراسلت کرکے جماعت اسلامی کے فرقہ پرستی کے حوالے سے خود معلوم کرسکتے ہیں۔ آغا مرتضیٰ پویا نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر جماعت اسلامی کو موقع دیا گیا تو یہ ملک سے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیگی۔
آپ کو الزامات لگانے سے پہلے تھوڑی تحقیق سے بھی کام لینا چاہیے۔پھر جب آپ علما کے خلاف ڈھٹائی سے دن رات تحریریں چھاپتے رہتے ہیں تو پھر انہی علما کی باتوں کو بنیاد بنا کر کس طرح سے کسی پر الزام لگا سکتے ہیں۔ اتنا تعصب کچھ اچھی چیز نہیں ہے۔ تعصب کسی بھی قسم کا ہو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی کی عقل کو خبط کردیتا ہے اور بہت ساری واضع چیزوں کے بارے میں اندھے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
اپنے طرز عمل پر پھر غور کیجیے۔
جناب ویب منتظم صاحب!
یہ بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ میرا ایک تبصرہ نا صرف ہٹا دیا گیا بلکہ دوسرے تبصرے کو آنے ہی نہیں دیا گیا۔ فکر پاکستان کی بوکھلاہٹیں نئی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے وہ متعدد بار بات کہہ کہہ ذلیل و خوار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن آفرین ہے فکر پاکستان کی غیرت پر کہ مجال ہے کہ اپنے طرز عمل پر ذرا برابر بھی شرمندگی ہو انہیں۔ اس بار تو انہوں نے ساری حدیں پار کردی ہیں۔ ناصرف برابر جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ ڈھٹائی کا دامن بھی نہیں چھوڑ رہے۔ کاش کوئی انکا دماغی معائنہ کروادے۔
محترم میں نے پہلے بھی یہ ہی کہا تھا اور آج بھی یہ ہی کہہ رہا ہوں کے مودودی صاحب کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی فرقہ بندی اور مسلک پرستی کے سرے سے خلاف تھی، جماعت اسلامی بنانے کی وجہ بھی یہ ہی تھی کے اس وقت تمام مسلمان فرقوں میں بٹ گئے تھے کوئی خود کو دیوبندی کہلانے میں فخر محسوس کرتا تھا تو کوئی بریلوی، جماعت اسلامی بنانے کا مقصد ہی فرقہ بندی اور مسلک پرستی کی لعنت سے لوگوں کو نجات دلانا تھا، یہ تھی مودودی صاحب کی جماعت اسلامی جبکہ آج دی جماعت اسلامی پیسے اور قتدار کی حوس میں ان ہی مسلک پرستی اور فرقہ بندی والی جماعتوں کی گود میں جا کر بیٹھہ گئی ہے اپنے قائد کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ہے۔ جس پیراگراف کا حوالہ دے کر یہ مکار اعظم لوگوں کی بہکانا چاہ رہا ہے وہ پیراگراف ان ہی مسلک پرستی اور فرقہ بندی والوں نے مودودی صاحب کی تحریروں سے لئیے تھے جو میں نے اسے دکھانے کے لئیے پیسٹ کیا تھا کہ آج جماعت اسلامی ایم ایم اے بنا کر اقتدار کی حوس میں جن لوگوں کی گود میں بیٹھی ہے یہ لوگ انکے قائد مودودی صاحب کے لئیے کیا رائے رکھتے ہیں اور خود مودودی صاحب ایسے مسلک پرستی اور فرقہ بندی والوں کے لئیے کیا رائے رکھتے تھے۔ مودودی صاحب مسلک پرستی اور فرقہ بندی سے کس قدر نفرت رکھتے تھے اسکا اندازہ مودودی صاحب کی تحریروں سے آپ خود کر سکتے ہیں اور آج کی جماعت اسلامی ان ہی مسلک پرستی اور فرقہ بندی والوں کے ہاتھہ مضبوط کر رہی ہے تو یہ اپنے قائد کے فرمان سے غداری کے مترادف نہ ہوا کیا ؟ میری تحریر صرف اتنی تھی باقی آگے ان ہی فرقہ بندی اور مسلک پرتی والوں نے اپنی رائے دی ہے مودودی صاحب کے بارے میں جسکا میں زمہ دار نہیں ہوں۔
۔
“(ایڈیٹ) کاپی پیسٹ مواد اسی تحریر سے جس کا لنک وقاراعظم صاحب نے دیا ہے
http://www.qalamkarwan.com/2011/06/allah-walon-ki-hrtal-or-itehad-ki-zarurat-hy.html#comment-245 ”
۔
یہ ہیں مودودی صاحب کی رائے فرقہ بندی والوں کے لئیے جو مودودی صآحب کی ہی تحریروں میں سے جمع کی گئی ہے، اب جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب کی رائے دیکھہ لیجئیے اور پھر زرا آج کی جماعت اسلامی پر نظر ڈالئیے جو دولت اور حوس اقتدار کی خاطر ایم ایم اے کی صورت میں ان ہی لوگوں کے ہاتھہ مضبوط کر رہی ہے، پھر آپکو صحیح طریقے سے اندازہ ہوجائے گا آج کی منافق اور وطن فروش جماعت اسلامی میں اور مودودی صاحب کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی میں۔ اب کہیں جا کر ڈوب مرو ۔۔۔۔۔۔۔ اعظم۔
اقتباس:
“مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کا شمار دیوبندی فرقے میں ہوتاہے مگریہ لوگ دیوبندیوں سے بھی دو ہاتھ بد عقیدگی میں آگے ہیں یہ بھی دیوبندی ہی کہلاتے ہیں مگر دیوبندی بھی اندرونی طور پر ان سے بیزار ہیں لیکن بد عقیدگی میں سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں ۔
مودودی کی نگاہِ بصیرت الیی ہے کہ ہرطرف اسکو کمزور یاں ہی کمزور یاں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ سے لیکر ہر نبی صحابی اور ولی اللہ کی شان میں نکتہ چینی کی ہے ۔”
محترم یہ کس دیوبندی، بریلوی یا کسی اور مسلک کے عالم کی رائے ہے بھائی؟ یہ تو آپکی رائے ہے۔۔۔
اور ساتھ ہی آپ نے جو مولانا مودودی (رح) کی تحریروں کے نام نہاد اقتسابات دیے ہیں کب کسی مسلک یا فرقے کے بارے میں ہیں؟
اقتباس:
عقیدہ :نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا ۔(بحوالہ :رسائل و مسائل ص 31)
عقیدہ :قرآن مجید نجات کے لئے نہیں بلکہ ہدایت کے لئے کافی ہے ۔(بحوالہ:تفہیمات ص 321)
۔
اور اسی طرح کے دیگر اقتباسات سے کیسے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودی نے انہیں ان فرقوں کو نیچا یا برا دیکھانے کے لیے دیا ہے؟؟؟؟
اور اگر یہ دوسرے علماء نے لکھے ہیں تو اسے کیوں پوسٹ کیا آپ نے۔ اس کا کیا تعلق ہے فرقہ پرستی ہے؟
آپ کو یہ تک نہیں معلوم کہ جماعت اسلامی کیوں بنائی گئی تھی اور ادھر اُدھر کی پھر سے ہانکنے لگے ہیں آپ۔ یہ اسی تحریر پر وجاہت اقبال صاحب کا تبصرہ ہے پڑھیں امید ہے افاقہ ہوگا۔۔۔
۔
جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ 4 کے تحت اس کا مقصد مندرجہ ذیل ہے جو 1957 میں مولانا مودودی کی امارت میں نافذ ہوا:
۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین(حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اورحقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔
تشریح: ”الدین“، حکومت الٰہیہ اور اسلامی نظامِ زندگی۔ تینوں اس جماعت کی اصطلاح میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے جس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ”اقامت دین“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اسی مفہوم کو یہ جماعت اپنی زبان میں ”حکومتِ الٰہیہ“یا اسلامی نظام زندگی کے قیام سے ادا کرتی ہے۔ ان تینوں کا مطلب اس کے نزدیک ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسانی زندگی کے جس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے اس میں وہ برضا و رغبت اسی طرح اللہ کی تشریعی حکومت تسلیم کرے جس طرح دائرہ جبر میں کائنات کا ذرہ ذرہ چارو ناچار اس کی تکوینی حکومت تسلیم کررہا ہے۔ اللہ کی اس تشریعی حکومت کے آگے سرجھکانے سے جو طریقِ زندگی رونما ہوتا ہے وہی”الدین“ ہے، وہی ”حکومت الٰہیہ“ ہے اور وہی ”اسلامی نظام زندگی ہے۔
اقامتِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں بلکہ پورے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج زکوٰة سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے ۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔
پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کااصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
کتابچہ ہم جس طرف بلاتے ہیں میں ایک جگہ مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ:
اپنی جماعت کے بارے میں ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائر و منحصر ہے۔ ہم کو اپنے فرض کا احساس ہوا اور ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو آپ کا فرض یاد دلارہے ہیں۔ اب یہ آپ کی خوشی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، یا خود اٹھیں اور اپنا فرض ادا کریں، یا جو بھی آپ کو یہ فرض ادا کرتا ہوا نظر آئے اس کے ساتھ مل جائیں۔
بیچارے ابلیس کے بھیا جتنا منہ کھولتے ہیں اتنا ہی انکی جہالت اور ذلالت عیاں ہوتی ہے۔ اور سب سے ہم بات یہ کہ انکو شرم بھی نہیں آتی۔ انکے ہاں چلو بھر پانی بھی نہیں ہوتا 🙂
اب سارے جماعتیوں کی ماں مر گئی میرے بلاگ پر جماعت اسلامی کی حقیقت دیکھہ کر۔ اور یہ ڈاکٹر کا کام بھی صرف بھونگنا ہی ہے تم بھونگتے رہو میں تم منافقوں کی حقیقت لوگوں پر عیاں کرتا رہوں گا۔
فکر پاکستان!
براہ مہربانی آپ اپنا علاج کروا لیجیے. آپکی ذہنی کیفیت مجھے ٹھیک نہیں لگتی.
فکر ۔۔۔۔۔
خیر سے وہ مشہور مصرعہ تو ضرور پڑھا ہوگا کہ:
آواز سگاں کم نہ کرد رزق گدارا
تو آپ کی کیائوں کیائوں پر لوگ باگ ہنستے ہی ہیں۔ ویسےسچی مجھے بڑی ہنسی آرہی ہے۔ آپ کا پیکر خاکی بھی کسی لطیفے سے کم نہیں۔ جناب آپ کی تو راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ سوتے ہوئے بھی جماعتی جماعتی چلاتے ہیں۔
ویسے یہ بھی ہمارا المیہ ہی ہے کہ یہاں “سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد”۔
اس کا مطلب ذرا ڈھونڈ کر سمجھ لیجیے گا۔ 😀
@ فکر، @وقار، @منتظم
ہر دفعہ کی طرح۔۔۔ اصل موضوع سے ہٹ کر گفتگو چل نکلی ہے۔۔۔ لائن پر واپس آجائیں۔۔۔ایسی گفتگو کا کچھ حاصل نہیں۔
@ وقار
آپ کو ان مجاہدوں کی حمایت کرنے کا کس نے کہا ہے جو بدھا کے مجسمے کا تباہ کرتے اور “زبردستی” کا پردہ کرواتے ہیں۔۔۔ آئینی زبان میں بات کریں تو وہ لوگ ہیں “دہشت گرد” اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح سے ان کے خلاف فوج کشی کرنا جائز ہے۔ میرا خیال ہے آپ اپنے کو واضح کریں کہ آپ نے کسی قانون کے پیچھے چلنا اور کس کا حکم سامنے رکھ کر امت کے مسائل کو دیکھنا؟؟۔۔پاکستان کے آئین کی روح سے آپ افغانستان کے دہشت گردوں کی حمایت کسی طور پر بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ آپ ایک قومی اسلام کے حامی ہیں۔۔۔جس میں اپنی قوم کے علاوہ کسی کا درد رکھنا جائز نہیں۔ رنگ برنگا اسلام تو ویسے بھی آج کل ‘ہٹ’ ہے، اور عوامی مزاج کے ساتھ سیاست کرنا آج کا اصل کام۔۔۔ مسئلہ سارے کا سارا اس “شدت پسندی” والے اسلام میں ہے ؟ اور دنیا کی فوجیں اسی لیے افغانستان میں تشریف لائی ہیں ۔۔۔ اسلامی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہ مغرب کے بتائے ہوئے راستے سے اسلام کو غالب کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ اور اس کے نتائج یہ ہیں کہ اردگان صاحب ابھی تک اسلام سے متعلق کوئی ٹھوس قانون سازی نہیں کرسکے۔ غنوشی صاحب مصر میں جا کر لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ “سیکوالرزم کو اپنا لینے میں کوئی مسئلہ نہیں” (معارف فیچر سروس کے غالباً جون، جولائی کے شمارے دیکھ لیں)۔۔ ایک نظر اس مضمون پر بھی ڈال لیں
http://eeqaz.org/index.php/ahwal/muslim-ummah/154-nahda-victory
اتنا علم حاصل کرنے کے باوجود بھی آپ کی رائے پڑھ کو انداز ہوگیا کہ آپ کا میڈیا سے باہر کی دنیا کا کتنا مطالعہ ہے۔۔۔ افسوس ہوا، لیکن اللہ سے آپ سمیت ان سب کے لیے دعا ہے کہ اللہ آپ کو جلد اس مخمصے سے نکال دے۔ یا تو آپ پر مسئلہ واضح کردے یا پھر آپ جس چیز کو “حق” سمجھ رہے ہیں اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے کھل کر آجائے۔۔۔ جیسے الجزائر میں آیا تھا۔
والسلام
بھائی صاحب میں تو اس بے پر کی بک بک سے تنگ آگیا ہوں۔۔۔
نہ آپ ریاست کے قوانین سے واقف ہیں نہ ہی اسلامی قوانین سے۔ اس پر مستزاد آپ کو دوسروں کے مطالعہ کی فکر کھائے جارہی ہے۔
مغربی جمہوریت مغربی جمہوریت کا رٹا ڈالا ہوا ہے ہمارے ان نام نہاد خلافت کے ڈرامے نے۔ بھلا پتہ تو چلے کہ کب کسی طریقہ حکومت کو مسلمانوں پر لازم کیا ہے؟ ہم خلافت کی بات کریں تو کیا خلافت میں جمہور کا کوئی عمل دخل نہیں؟ بس آمریت ہی آمریت؟
اور آپ سے کس نے کہا ہے کہ مغربی طرز جمہوریت کو من و عن اپنا لیا جائے؟
کبھی آئین پاکستان کا مطالعہ کیا بھی ہے؟
مغربی جمہوریت جمہور کو ہی سیاہ و سفید کا مالک گردانتی ہے۔
جبکہ اسلام میں جمہوریت یا اسلامی جمہوریت میں حاکمیت اعلی خدا کی تسلیم شدہ ہے اور جمہور خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے کوئی قانون نہیں بناسکتی۔
اور یہی پاکستانی آئین کے دیباچے میں قرارداد مقاصد میں تحریر ہے۔
تیونس میں ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں راشد الغنوشی کی فتح کو اور ادھر ہتھیار کے ذریعے فوراً سے پیشتر اسلام نافذ کرنے کے شوقینوں کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوگیا۔
ترکی میں صحیح معنوں میں اسلام پسند حکمران نہیں بلکہ نجم الدین اربکان سے علیحدہ ہوکر اقتدار میں آنے والوں کی حکومت ہے جنہیں کم از کم کسی خاتون کا حجاب نہیں چبھتا لیکن ہمارے مجاہدین کی پریشانی نہیں رکتی کہ بس اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر اسلام نافذ کردیں۔
اور یہ بھی محض تخیل ہی ہے جو موصوف نے قومی اسلام کی نام نہاد اصطاح گھڑی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم چیچنیا سے لیکر بوسنیا تک اور افغانستان سے کشمیر و عراق تک مظلوموں کے ہم نوا نہ ہوتے۔
منتظم صاحب نے تو آپ سے کچھ سوال کیے تھے ان کے جواب کب آرہے ہیں؟ ہم توڑ دیں آپ کے ان نام نہاد مجاہدین کے لیے پاکستان؟
پورے دنیا کے مسلمانوں کو کون سا غم ہے ان مجاہدین کا؟ یہ پاکستان ہی ہے جہاں کے لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بھول گئے جب ان مجاہدین کو خود ان کے ممالک نے اپنانے سے انکار کردیا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا جس نے انہیں پناہ دی۔ اور ان کے حواری ہمیں پاکستان کے خلاف بہکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صحیح اسلام کے لیے تو ضروری ہے کہ اپنے ملک سے غداری کی جائے۔
محترم ویب منتظم:
ہماری مخلصانہ کوششوں کی تعریف کرنے کا آپ کا شکریہ! آپ کی توجہ چاہتی ہوں: آپ نے اپنی اشاعت میں جو غلط فہمیاں بیان کی ہیں انہیں مجھے براہ مہربانی دور کرنے کا موقع دیں:
ڈبلیو ایم ڈی:
اس ميں کوئی شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے بیرونی ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوۓ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئی کوشش نہيں کی۔ تاہم میں آپ کو یاد دلاتی ہوں کہ حقیقت یہ ہے کہ کئی بار صدام حسين کی حکومت نے ایران اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا-
امریکہ مسلمانوں کے خلاف:
امريکہ سميت کسی بھی ملک کے لۓ يہ ممکن نہيں کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی کو ترتيب ديں اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کريں۔ مسلم ممالک ميں بے چينی اور تشدد کی فضا امريکہ کے ليے کسی بھی طرح سودمند ہو سکتی ہے سمجھ کر اس بات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ ان حملوں کا محور امريکی سفارت خانے، قونصل خانے اور امریکی شہری ہی ہیں۔ يہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتا ہے کہ امریکہ میں موجود لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ قانون کے تحت منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے.
امریکہ کا پاکستان میں کھیل:
امریکہ اس خطے ميں ان دہشتگردی کا عفریت رکھنے والے عناصر کيخلاف جاری جدوجہد میں مدد کررہا ہے جو نہ صرف پاکستان کے معصوم لوگوں کے اندر دہشت پھيلا رہے ہيں بلکہ امريکہ اور دوسرے ممالک کے لۓ بھی خطرہ ہیں۔ اس خطے میں امریکی حکومت مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنارہی ہے ۔ کيونکہ،اس طرح یہ غیر حقیقی سرگرمياں ان غیر انسانی بنياد پرست عناصر کو شکست دینے کيلۓ ہمارے عالمی مقاصد کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہيں۔ ہم القاعدہ اور دیگر انتہا پسند اور دہشتگرد تنظیموں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو خطہ میں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہيں جو جان بوجھ کر شہریوں کا قتل کر رہے ہیں۔
اس علاقے ميں دہشت گردوں کو شکست دينے اور ان کو تباہ کرنے کے ليے امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی رابطے اور افہام و تفہیم ہے۔ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لۓ ہم پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے ميں ان کی باقاعدہ مدد کر رہے ہيں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس وقت پاکستانی شہريوں کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کی لعنت سے ہے-
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
جناب ویب منتظم صاحب۔آپ سے گذارش ہے کہ صرف سنجیدہ تبصرے ہی شائع کئے جائیں یہ گالی گلوچ والے لوگوں کو إن صفحات کو خراب کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
میں کسی بھی پارٹی کے اچھے ہونے یا نہ ہونے کے بارے کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا ، لیکن میں ڈرامہ سیریل ملالہ کی حقیقت سے آگاہ ہوں۔سننے میں آیا ہے کہ ملالہ اور ان کی فیملی کو ” وہاں “ کی شہریت بھی مل گئی ہے، اور ان کے واپس آنے کا امکان بھی کم ہے۔شیاید ملالہ کا بھی ٹیلی فون سے پاکستان میں تعلیم پھیلانے کا ارادہ ہے۔