یہ قتل ہوا کیوں لوگو ! ؟

 پھرکراچی کا افق ایک بار زرد پر گیا  پھر مقتل خانے آباد ہو گئے پھر ظلم نےاپنے شعلے اٹھا دیے پھر کراچی سلگنے لگا میرا قائد ڈاکٹر پرویز محمود کل جبر کے نیزے پر چڑھ گیا شائد لطف خون کا خوگر پیاسا ہو گیا ذات پات اور علاقائی تعصب کے درندوں نے اگلے ہی دن ایک اور ماں کا کلیجہ کاٹ دیا ایک بار پھر ان حق کے ٹھیکیداروں نے حق کو ہی چبا ڈالا  ——– امتحاں در امتحاں ! یہ سلسلہ رکا نہیں، رکےبھی  کیوں ؟اپنی سیاسی دھاک کے لیے  انسانوں کا شکار کرنا ظالموں کا ہمیشہ مشغلہ رہا ہے –

 

لیکن یہ جہل  ہوا کیوں لوگو ! ؟ یہ قتل  ہوا کیوں لوگو ! ؟ کراچی پر درندوں کا راج  ہوا کیوں لوگو ! ؟

 

 کیا سچائی سے محبت کو جرم کا نام دیتے ہیں ؟ اگر تم اس کو جرم کہتے ہو توہاں میرا پرویزمحمود اور عبد الواحد مجرم تھے-  کیا اندھیروں میں روشنی کی جدوجہد جرم کے فہرست میں جگہ پاتی ہے ؟ اگر تم اس کو جرم کہتے ہو توہاں میرا پرویزمحمود اور عبد الواحد مجرم تھے- کیا ظلم سے بغاوت جرم کی ہی کوئی قسم ہے ؟ اگر تم اس کو جرم کہتے ہو توہاں میرا پرویزمحمود اور عبد الواحد مجرم تھے- کیا حق گوئی کی دعوت جرم ہوتا ہے ؟ اگر تم اس کو جرم کہتے ہو توہاں میرا پرویزمحمود اور عبد الواحد مجرم تھے- اگر جبر کے شہر میں سر اٹھا کے سینہ تان کے چلنا جرم ہے توہاں میرا پرویزمحمود اور عبد الواحد مجرم تھے-  ہاں میرا وحید بھی مجرم تھا ، میرا نواز بھی مجرم تھا ، میرا سعد بھی مجرم تھا ، ہاں میرا عامر اور فیصل بھی مجرم تھا ، میرا غیور بھی مجرم تھا پھر میرے جاوید اور اسلم کو بھی مجرم کہنا پڑے گا ہاں پھر وسیم بھی مجرم تھا پھر میرا مالک بھی مجرم تھا ———  پھر دو چار نہیں ، دس بارہ نہیں مجرم گننا مشکل ہو جایئں گے – جبر اور ظلم کے سرداروں پھر آپ کی گولیاں کم پر جایئں گی لیکن سینے گننا مشکل ہو جایئں گے کیوں کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کے غلاموں نے جبر کے ہر دور میں اپنے خون سے دیے روشن کیے ہیں یہ سلسلہ رکا نہیں  تھما نہیں رکے بھی کیوں میرے پیارے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کی زبان مبارکہ سے جاری ہوا ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا آج بھی کراچی سے خیبر تک اور لاہور سے گوادر تک ، محلوں ، شہروں اور تعلیمی اداروں تک الله ج  کے مدد گار وقت کے فرعونوں سے جہاد کر رہے ہیں اور اپنے لہو کی سرخی سے اسلامی انقلاب کے راستے ہموار کر رہے ہیں لیکن آپ کا ظرف کے آپ اس کو کونسی داستان میں بند کرتے ہیں یا کونسا عنوان دیتے ہیں –
آج ان پاک راستوں پر اگر ظلم کے اندھیروں نے پر پھیلا دیے ہیں تو ہمیں کوئی غم نہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر تاریکی کا انجام صبح صادق سے ہوتا ہے ، ہم اس صبح پر نور تک اپنے خون کے چراغ جلاتے رہیں گے اور اس صبح پر مر مٹنے کے لیےسو ڈاکٹر پرویز محمود اور آئیں گے ہزار عبد الواحد اور جواں ہو چکے ہیں – اے بھتہ خور دہشت گرد ظالموں کان کھول کے سن لو “وہ اور ہی ہوں گے ڈرنے والے ” جو تمہاری بندوق کی نوک کے خوف سے ووٹوں کی لائن لگا دیتے ہوں گے ، “تم نے دیکھے نہیں جاں سے گزرنے والے ” جو بابرکت منزل کے لیے جاں ہتھلیوں پر رکھ کے پھرتے ہیں ، تم انسان خوربھیڑیے  ہو تو ہم بھی قربانیوں کی لازوال داستان رکھتے ہیں ، درندگی تمہاری صفت ہے تو آرزو ہم بھی شہادت کی رکھتے ہیں
وقت کے یزیدوں !
تم کربلا سجا لو یہاں حسینی قافلہ سر کٹوائے گا
الله ہمارا منصف ہمارے دل میں صبر پائے گا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply