دنیا کو تہذیب سکھانے والا مغرب آج خود تہذیب کی دلہن کو تار تار کررہا ہے۔ ایک دوسرے کے مذہب اور مقدس ہستیوں کا احترام دنیا کے مسلمہ اخلاقی اقدار کے ضمن میں آتا ہے لیکن 11 ستمبر 2012 کو سام پیسائل “ملعون ” کی طرف سے “مسلمانوں کی مظلومیت” کے نام سے بنائی گئی یہ فلم جو اس تاریخی دن پر یوٹیوب پر ڈالی گئی جس روز امریکی ٹوئن ٹاورپر مارے گئے تین ہزار امریکیوں کا سوگ منا رہے تھے ایک لمحے کو بھی ان سوگ میں ڈوبے لوگوں نے یہ نہ سوچا کہ انھوں نے دنیا بھر میں بسنے والے دو ارب مسلمانوں کی روحوں کو زخمی کر دیا ہے۔
اس 9/11 کو آشکار ہو گیا کہ بڑا دہشتگرد سام پیسائل ہے یا اسامہ بن لادن؟ اور مقام تفکر یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن کو تو کوئی پناہ دینے کے لئے تیار نہ تھا وہ غاروں میں پناہ گزین رہا لیکن سام پیسائل صدر اوباما کی محفوظ پناہ میں ہے اور وہ دنیا کے کڑوڑوں مسلمانوں کے جذبات سے قطع نظر اگر فکر مند ہے تو اسلامی ممالک میں اپنے سفارتکاروں کے لئے، انکی سلامتی اور حفاظتی اقدامات کے لئے، انکو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے حملوں سے بچانے کے لئے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ پر جو الزام لگائے جاتے ہیں وہ سام پیسائل کی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، مگر افسوس کسی ایک بھی اسلامی ملک نے بھی امریکہ کی مذمت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس نے اس فلم کو میڈیا میں کیوں آنے دیا جس نے خباثت اور پست ذہنیت کی تمام حدود کو پار کرلیا؟
ایک رسمی سفارتی احتجاج کی بھی کسی کو جراءت نہ ہوئی اس پہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ لیبیا میں اس ناپاک فلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر نہ صرف امریکہ، اقوام متحدہ بلکہ اسلامی دنیا بھی “انتہائی مغموم” ہو گئی اور مذمتی بیان اور قراردادیں جاری ہونے لگیں۔ وہ جن کو عراق، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے بے گناہ مارے جانے پر کبھی نہ کوئی صدمہ لاحق ہوا نہ کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا کہ “خون مسلم کی ارزانی تو اس صدی کا عنوان ٹھری۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا سرمایہ داری اشتراکیت، نیشنلزم اور سیکیولرازم کے کڑوے کسیلے پھل کھا کر جس کرب سے گزر رہی ہے اور جس منصفانہ نظام حیات کے لئےترس رہی ہے باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو وہ مطلوبہ کردار اور وہ حقیقی اسلامی ریاست دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں پھر بھی مغرب میں قبول اسلام کا رجحان مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے کیونکہ نائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کو جاننے کے لئے جس بڑے پیمانے پر یورپ میں تجسس بیدار ہوا کہ دہشت گرد اسلام ہے کیا؟
اس مطالعے نے ان پر اسلام کی حقانیت واضح کی اور قبول اسلام کی شرح میں واضح اضافہ ہوا اور اسلام کی یہ نظریاتی برتری اہل مغرب سے برداشت نہیں ہورہی اور انہیں اپنئ تہذیبی اقدار کے فنا ہوجانے کا جس سے خطرہ لاحق ہے وہ اسلام اور مسلمان ہیں اسلئے کہ باقی مذاہب اور بانیان مذاہب کی حقیقی تعلیمات وقت کی دھول میں گم ہوچکی ہیں جبکہ ساڑھے چودہ سو برس بعد بھی اس پیغمبر عالی مقام کا پیغام آج بھی دنیا بھر کے دو ارب انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے اور تاریخ کے ہر دور میںآپکے ماننے والوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ آپکے لائے ہوئے پیغام کی حقانیت بھی عیاں ہوتی چلی گئی اور ان حقائق کا علم اہل مغرب کو بھی ہے علامہ محمد اسد”اسلام دوراہے پر” میں رقمطراز ہیں کہ
یورپ کا رویہ اسلام کے بارے میں اور صرف اسلام ہی کے بارے میں دوسرے غیر مذاہب اور تمدنوں سے بے تعلقی و ناپسندیدگی ہی نہیں بلکہ گہری اور مجنونانہ نفرت ہے۔ یہ محض ذہنی نہیں ہے بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ بھی ہے۔ یورپ بدہشٹ اور ہندو فلسفوں کی تعلیمات کو قبول کر سکتا ہے اور ان مذہبوں کے متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے مگر جیسے ہی اسلام کا نام سامنے آتا ہے اسکے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔ بڑے سے بڑے یورپی مستشرقین بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہوئے غیرمعقول جانبداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور وہاں ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی با لکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔
صلیبی جنگوں کی ناکامی نے یورپ کے بغض اور عناد کو جسطرح بھڑکایا اس شکست کا بدلہ وہ آج تک آپ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے لے رہے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تو آسمانوں پر بلند کیا گیا ہے اسلئیے تاریخ کے ہر دور میں ایسی مذموم چالوں کی زد خود اہل باطل ہی پر پڑی۔ “اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بہتر ہے” (آل عمران 54) عالم اسلام اگر اس شخصیت و مستی میں ڈوبا ہوا ہے، عیسائیت بغض و عناد میں اور ہر دور کے بولہب اور بوجہل، سام پیسائل جیسی مذموم حرکتوں کے بعد دنیا کے لئے نشان عبرت بنتے رہے اور روپوشیوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ اسوقت مسلم امہ کو خود بھی اپنی زندگی کا ثبوت دینا ہوگا اور دنیا میں امن و انصاف کی بالادستی نہ صرف امت مسلمہ کا فرض منصبی بلکہ نبی علیہ صلٰوۃ والسلام کے عالمی مشن کا تقاضہ ہے۔ اگر امریکہ اور اسکے حواری دنیا کے امن کو ناکام کرنے اور مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے تلے بیٹھے ہیں اور انہیں توڑ پھوڑ اور قتل و غارت گری کے ذریعے دہشتگرد ثابت کرنے کے متمنی ہیں کہ تہذیبوں کی جنگ ان پر مسلط کرسکیں اور دنیا پر اپنی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں تو ہمیں بھی انکی چالوں کو سمجھنا چاہیئے مومنانہ فراست ہی اسوقت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہم پر امن احتجاج، مکالمے، تحریر و تقریراور اپنے کردار کے ذریعے اسلام کے آفاقی پیغام کی شرح بن جائیں اور کچھ برس قبل جسطرح توہین رسالت کی جراءت پر ڈنمارک کا بائیکاٹ کیا تھا اور انکی مصنوعات کی کئی بلین کی تجارت خطرے میں پڑ گئی مغرب کی اشتعال انگیزی کا جواب انکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے بہت مؤثر انداز مین دیا جا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج اور مظاہرے بلاشبہ حب رسول کا مظہر ہیں اورحقیقت یہی ہے کہ ہر مسلمان حرمت رسول پر جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے لیکن اس حقیقیت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ بحیثیت امہ ہم اپنے فرائض منصبی کو یکسر فراموش کر چکے ہیں اللہ کے نبی فریضہ اقامت دین کی صورت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جو مشن ہمیں سونپ کر گئے تھے ہم نے اسے پس مشت ڈال دیا ہے۔ حب رسول کا حقیقی تقاضہ اطاعت رسول ہے اوراس انتہائی جدوجہد کے لئے ایک بار پھر اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنی ہوگی۔ دین کے دشمن جن نورانی چراغوں کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں وہ یہ جان رکھیں کہ نورانی چراغوں اور آپکے ذکر کو اللہ ہمیشہ کے لئے بلند کر چکاہے ” بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں وہی ذلیل ہونگے اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے بے شک اللہ قوی اور بڑا زبردست ہے (المجادلہ 20-21)۔
اب وقت ہے کہ ہم باہم دست و گریبان ہونے کی بجائے اپنے حقیقی دشمن کو پہچانیں جو ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کررہا ہے اور حب رسول کا تقاضہ تو یہ ہے کہ نہ صرف تجدید ایمان کریں بلکہ غلامی اور محکومی کی ذلت سے خود کو نکالیں اور خاندانوں کی حکومت اور ذاتی مفادات کی غلامی سے نکل کر زمام کار صالحین کے ہاتھ میں دیں اور نبی پاک کی لائی ہوئی شریعت کے نظام کے قیام کی جدوجہد میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ یہی پیمانہ وفاداری ہے۔۔۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبرﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔
ہو اگر عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
(اقبال)
جٕس ہستی کے ذکر کو اﷲ تعالٰی نے خود بلند کیا ہو إُس کی توہین کوئی نہیں کر سکتا۔ہماری کمزوری قوم کی کمزوری نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی نا اہلیت ہے حل صرف اور صرف تمام عالم اسلام کےموجودہ حکمرانوں سے نجات میں ہے۔
emotional like her elder post!
دنيا بھر کے لوگوں پر واضح ہونا چاہیے کہ حکومت امريکہ کا اس ويڈيو سے کوئ تعلق نہيں ہے اور ہم اس ميں ديے گۓ پيغام اور اس کے مواد کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہيں۔ امريکہ کی مذہبی رواداری سے وابستگی ہماری قوم کے آغاز کے زمانہ سے ہے۔ ہمارے ملک ميں تمام مذاہب کے پيروکار بستے ہيں بشمول لاکھوں مسلمانوں کے اور ہم اہل مذہب کی انتہائ قدر کرتے ہيں۔ ہمارے ليے، بالخصوص ميرے ليے يہ ويڈيو نفرت انگيز اور قابل مذمت ہے۔ يہ انتہائ سنکی پن سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کا مقصد اعلی وارفع مذہب کی تحقير کرنا اور اشتعال اور تشدد پر اکسانا ہے۔
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu