حجاب — کیوں ضروری ہے ؟

٤ستمبر کا دن ، مغربی مذہبی رواداری کا پردہ چاک کرتے ہوۓ اس مہذب دنیا کے خدوخال واضح کرتا ہے – آج سے ٹھیک دس سال قبل ٤ ستمبر ٢٠٠٢ کو فرانس نے یورپ میں پہلی بار حجاب پر قانونا پابندی عائد کر دی اس سے پہلے جرمنی ، تیونس اور ترکی میں بھی حجاب جیسا پاکیزہ شعار عتاب کا نشانہ بنا مہذب دنیا کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو روکنے کیلیے اسمبلی فار پروٹیکشن آف حجاب (The Assembly for the Protection of Hijab) نے چار ستمبر کو بطور عالمی یوم حجاب منانے کا اعلان کیا اور اسے شہید الحجاب مروہ الشبرینی سے منسوب کر دیا۔

 
مابعد جدید کا زمانہ آغاز پکڑ چکا ہے ، اب لوگ ایک مسلمان لڑکی کو حجاب میں دیکھیں تو اسے پسماندہ اور اجڈ تصور کرتے ہیں ، ان پڑھ اور جاہل کہنے سے بھی نہیں کترائیں گے لیکن ان پڑھے لکھے جاہلوں نے انسانیت کا درس بھلا چھوڑا ہے ان کا نظریہ حیات صرف اسی بات کے گرد گھومتا ہے؛ اتنی ترقی کر لی جاۓ کہ انسان اور حیوان میں دو ٹانگوں اور بازوؤں کا فرق رہ جاۓ جبکہ اسلام انسان کو انسانیت کی جانب لوٹا کر فلاح و کامیابی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔

 
آخر ایک عورت کو کپڑوں میں یوں چھپا دینا کیوں مقصود ہے؟ انسان کو انسان اگر کہتے ہیں تو اسی بنیاد پہ کہ یہاں اصول اور ضوابط سے کام لیا جاتا ہے اشرف المخلوقات اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں حیوانوں کی سی درندگی نہیں ہے ،جو معاشرہ بے حیا ہو جاےٴ وہ ایک جانوروں کے باڑے سے کم نہیں ہوتا چاہےائرکنڈیشنروں میں رہتا ہوتا اور لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہو برائی کا آغاز بے حیائی سے شروع ہوتا ہے اس درندگی سے انسانیت تک کا سفر حجاب سے ہو کر گزرتا ہے حجاب معاشرے کو حیا دار اور پاکیزہ رکھنے کا اہم ترین جزو ہے – حجاب کے ایک دوسرے پہلو کے بارے جمال الدین افغانی رح نے کیا خوب کہا ہے کہ ” تحقیق جلوت میں ہوتی ہے جبکہ تخلیق خلوت میں ہوتی ہے ، اگر تخلیق جلوت میں کی جاےٴ تو نقش و نگار بدل جاتے ہیں عورت چونکہ ایک تخلیق کار ہے لہٰذا اسے پردے میں رہنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا تخلیق کار ہے اور اس لیے وہ سب سے اور ہمیشہ پردے میں رہتا ہے ” پس معلوم ہوا کہ حجاب نہ صرف انسانیت کی پہچان ہے بلکہ فطرت کا تقاضا بھی ہے۔

 
صرف عورت اور لڑکی ہی کیوں مرد کو حجاب کیوں نہیں ؟ میں اس سوال کے سامنے ایک چھوٹا سا سوال رکھوں گا ایک عورت ہی بچہ کیوں پیدا کرتی ہے مرد کیوں نہیں ؟ جواب یہی ہے کہ عورت اور مرد کا نظام جسم جدا ہے تو لازم امر ہے کہ احساسات بھی جدا ہوں گے اور نفسیات بھی، مرد کی آنکھ اپنے جسم کے احساسات سے دیکھتی ہے اور عورت کی نظر اپنےاحساسات سے روشن ہے یہاں سےتھوڑا آگے بڑھیں تو سائنسی طور پر یہ ثابت ہے کہ مرد کا جنسی رجحان عورت سے نوے فیصد زیادہ ہوتا ہے شگاگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایڈورڈ اپنے ریسرچ آرٹیکل”سیکس ڈرایو! ہاو ڈو مین اینڈ وومن کمپئر؟” میں لکھتے ہیں ” عورت اسی وقت کھانےپر تیار ہوتی ہے جب شمع جلا دی جاےٴ اور مرد پلیٹیں سیدھی کر کےنہ رکھ دے ” اب خود ہی بتا دیں کہ مرد کو محفوظ کریں یا عورت کو؟

 
ایک اور نقطہٴنظرجس کا جواب دینا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہا جاتا ہے کہ حیا تو آنکھ میں ہوتی ہے حجاب میں نہیں !یہ بات اچھی سمجھ لینا چاہیے کہ حجاب اور برقعہ کوئی جادوئی کپڑا نہیں کہ آپ کسی فاحشہ کو او ڑھا دیں اور پلک چھپکنے میں حیا داراور نیکو کارہ ہو جاۓ، غض بصرجیسا عمل ایک تربیت اور ماحول کا متمنی ہوتا ہے اور اگر اس تربیت کی کمی ہے تو یہ جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا ماحول کو ننگا کر دیا جاۓ حجاب کی ضرورت اور اہمیت پھر بھی برقرار رہتی ہے۔

 
یہاں اکثر و پیش تر لوگ پسماندگی اور جاہلیت کو حجاب اور ترقی اور تعلیم کو جینز میں رکھ دیتے ہیں اس سوچ سے بڑی جہالت بھلا اور کیا ہو سکتی ہے ایسی سوچ صرف مغرب کی اندھا دھند مقلد کے دماغ میں ہی گھوم سکتی ہےوہ سوچتے ہیں کہ مغرب نے یہ اتنی بڑی ترقی صرف اسی بنیاد پر کر لی کہ انکے مرد شیو کرتے ہیں اور انکی عورتیں جسم کو ننگا کرتی ہیں۔

 
اس ساری گفتگو کے بعد میں اپنی ماؤں اور بہنوں سے کہوں گا کہ اگر دنیا میں عزت اورآخرت میں فلاح مقصود ہے تو انسانیت کی طرف لوٹ آئیں اس دنیا کے ہوس پرست خیالات کو ایک آنکھ نہ دیکھیں معاشرے کی پاکیزگی آپ کے ہاتھ میں ہے جواب دہی کا احساس پیدا کرتے ہوۓ اسلامی معاشرے کا ماحول پیدا کریں لیکن اس سے زیادہ کڑی ذمہ داری ہم مردوں پر آتی ہے بے حیائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کیوں کہ میراثی کلچر اپنی تلواروں اور نیزوں سے ہم پر حملہ آور ہے- میری دعا ہے کہ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ

فیس بک تبصرے

حجاب — کیوں ضروری ہے ؟“ پر 6 تبصرے

  1. ہم نفسیات وغیرہ کو تو نہیں جانتے بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور صنعتی انقلاب سے پہلے یہودی اور عیسایَ خواتین میں حجاب کا رواج تھا جس کا اظہار آج بھیnuns کے لباس سے حوتا ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد صنعت کاروں کو سستے مزدوروں کی ضرورت تھی اس لیےَ انہوں نے عورت کی آزادی کے نام پر حجاب کی مخالفت شروع کی جو آج موجودہ مرحلے تک پہنچی ہے

  2. امتیاز بھائی میں تھوڑا سا اضافہ کروں بے شک یہ اللہ کا حکم ہے لیکن قانون و احکام الہیٰ اندھا نہیں ہے وہ انسان کی جسمانی ، روحانی اور نفسیاتی اغراض کے عین مطابق ہے کیوں کہ نفسیات کو پیدا کرنے والا بھی وہ خود ہے اور اسکے استعمال کے لیے قانون بھی وہی تشکیل دے رہا ہے
    رہی بات سستے مزدوروں کے لیے حجاب کی مخالفت ، تو آج کا سینیریو یہ نہیں ہے یہ تہذیب اور اقدار کی جنگ ہے

    • اصغر ساجد صاحب۔تصحیح اور تبصرہ پر تبصرہ کا شکریہ۔میں تو حجاب کی مخالفت کی اِبتداء کی بات کر رہا تھا لیکن آج اس مہم میں جو شدت آئی ہے وہ واقعی تہذیبوں کی جنگ ہے لیکن کیا یہ جنگ آج شروع ہوئی ہے ؟

  3. السلام علیکم
    حق بات کہی آپ نے اصغر بھائ-جسکی فطرت ابھی مسخ نہیں ہوئ وہ جانتا ہے کہ حجاب ایک فطری چیز ہے عورت کے لئے- کیونکہ اسلام دین فطرت ہے-
    اور یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے کہ اب کفر اور اسلام کی باقائدہ جنگ شروع ہے، اور کفر کھل کر سامنے آ چکا ہے، چاہے وہ قرآن کی آیات ہوں یا ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس- چاہے وہ ہمارے دینی مدارس ہوں یا ہماری خواتین کا حجاب- وہ ان سب پر حملہ آور ہو چکا ہے- طاغوت اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو چکا ہے اور وہ دست درازی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے- اب اس سے ہاتھ پیچھے کرنے کی گزارش کا زمانہ نہیں بلکہ ہاتھ توڑنے کا وقت ہے-

    خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
    کہ تیرے بحر کی موجوں میں اظراب نہیں

  4. *اضطراب نہیں

Leave a Reply