” السلام علیکم تمام اہل وطن کو جشن آزادی مبارک ہو پاکستان مائی لوو ہیپی انڈپنڈنٹ ڈے” ” پاکستان میری جان ، پاکستان زندہ باد” “میرا پیار پاکستان میری جان پاکستان اس پر جان بھی قربان ، جشن آزادی مبارک ” “جب تک سورج چاند رہے گا میرا پاکستان رہے گا ، پاکستان زندہ باد “صبح سے میرا موبائل ایسی آوازوں سے چیخ رہا ہے لیکن میں عجیب کشمکش میں ہوں سوچتا ہوں ان آوازوں کا کیا جواب دوں ؟ میرے جواب سے کونسا پاکستانی قوم کا رجحان بدل جاۓ گا جیسے ان آوازوں سے کونسا پاکستان کا مقدر بدل گیا ہے ، یہ چند آوازیں ہی تو ہیں جو عام حالات میں گاہے بگاہے کن من بارش کی بوندوں کی طرح ٹپکتی رہتی ہیں اور چودہ اگست پر تو جیسےان آوازوں کا تربیلا ڈیم کھل جاتا ہے پوری قوم پاکستان کے عشق میں مری جا رہی ہوتی ہے –
جذبۂ حب الوطنی غیرت مند قوموں کا طرہ امیتاز ہوتا ہے لیکن کیا اس جذبۂ کو بھی آپ یہی نام دیں گے “پینا ڈال ” “پینا ڈال ” “پینا ڈال “………… 33 بار ورد کرنے سے بھلا کون سا مریض تاپ صحت یاب ہو پایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں زندہ باد زندہ باد کہنے سے لاچار اور لاغر پاکستان زندہ ہو کر ترقی کی شاہرہ پر بگٹٹ بھاگنا شروع کر دے گا –
چلیں کہ ضد کو توڑتے ہیں ان آوازوں میں اپنی آواز لگاتے ہیں کہ شائد اک چراغ سے کچھ بتیاں روشن ہوں جایئں یوں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذرا سا اجالا ہو جاۓ ، اے آوازوں مجھے تو بتاؤ کس آزادی پر دھمال ڈال رہے ہو اے پاکستان میری جان کہنے والی میرے جوان اپنا ہیر سٹائل دیکھیں ، اپنے کالر پی لگا پیتل کا پھول سونگھیں ، ہاتھ میں پکڑے پن پینسل کا میڈ ان چیک کریں ، اپنے فیس بک پر فٹاک فٹاک چلتے اپنے کمنٹس اور پوسٹس پڑھیں ان سے کہاں اس عظیم آزادی کی خوشبو آتی ہے ؟ قوم کی دوشیزائیں اپنے نقش نین کا عکس دیکھیں ، اپنے منہ کے گن گناتے الفاظ کو اپنے کانوں سے سنیں ، اپنی ناز اداؤں پر نظر پھریں کہاں اس بابرکت آزادی کی مہک آتی ہے ؟ میری مائیں اپنے رسم و رواج کا رنگ ڈھنگ دیکھیں ، ساس اور بہو کے جھگڑے دیکھیں میرے باپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو شادی کے بندھن میں کس طرح جڑتے دیکھیں اور اپنے بے حس رویے بھی دیکھ لیں کہاں اس آزادی کا عکس نظر آتا ہے کس کس شکل کو دکھاؤں کہ آپ اس آزادی کو دیکھ سکو لیکن کہاں دیکھ سکو گے –
مجھے اپنی قوم سے شکوہ ہے اور بجا شکوہ ہے ، ہر درد مند محب وطن پاکستان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر روتی آوازوں کو محسوس کر سکتا ہے ، آج ہمارا پاکستان ہم سے سوالی ہے وہ پوچھتا ہے کہ میں ان پریشان حال روحوں کو کیا جواب دوں جو پاکتسان کا مطلب کیا لا الہ الا الله کا نعرہ لگاتی نیزوں کی انیوں پر چڑھ گئیں، آج خون کے دریا خون کے آنسو روتے ہیں کہ کیا ہم بنجر پہاڑی میدانوں میں بہہ گئے ، پاکستان کی بنیادیں 65 سال ہو گئے ہم سے سوال کنندہ ہیں کہ مجھ پہ کونسا بوجھ لادھ دیا گیا ہے –
آج پھر چودہ اگست ہے آج پھر ہم جشن آزادی منا رہے ہیں لیکن وہ پاک روحیں ماتم کنا ہیں – آؤ آج احساس پیدا کر لیں دھرتی ماں آہوں کو سن لیں ، لٹیرے ، کرپٹ ، جاگیر داروں ، سرداروں اور وڈیروں کی شکل میں موجود سیاسی جغاداروں سے اعلان لاتعلقی کریں ،مفادات کی امیدوں کو آگ لگا دیں ، فرسودہ اور گمراہ کن میراثی لبرلز کے خیالات میں بہنا چھوڑ دیں اور آگے بڑھ کر اسلام پسندوں کے دست و بازو بن جایئں کہ نظریہ پاکستان کےاصل علمبردار اور امین یہی ہیں
جذبۂ حب الوطنی غیرت مند قوموں کا طرہ امیتاز ہوتا ہے لیکن کیا اس جذبۂ کو بھی آپ یہی نام دیں گے “پینا ڈال ” “پینا ڈال ” “پینا ڈال “………… 33 بار ورد کرنے سے بھلا کون سا مریض تاپ صحت یاب ہو پایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں زندہ باد زندہ باد کہنے سے لاچار اور لاغر پاکستان زندہ ہو کر ترقی کی شاہرہ پر بگٹٹ بھاگنا شروع کر دے گا –
چلیں کہ ضد کو توڑتے ہیں ان آوازوں میں اپنی آواز لگاتے ہیں کہ شائد اک چراغ سے کچھ بتیاں روشن ہوں جایئں یوں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذرا سا اجالا ہو جاۓ ، اے آوازوں مجھے تو بتاؤ کس آزادی پر دھمال ڈال رہے ہو اے پاکستان میری جان کہنے والی میرے جوان اپنا ہیر سٹائل دیکھیں ، اپنے کالر پی لگا پیتل کا پھول سونگھیں ، ہاتھ میں پکڑے پن پینسل کا میڈ ان چیک کریں ، اپنے فیس بک پر فٹاک فٹاک چلتے اپنے کمنٹس اور پوسٹس پڑھیں ان سے کہاں اس عظیم آزادی کی خوشبو آتی ہے ؟ قوم کی دوشیزائیں اپنے نقش نین کا عکس دیکھیں ، اپنے منہ کے گن گناتے الفاظ کو اپنے کانوں سے سنیں ، اپنی ناز اداؤں پر نظر پھریں کہاں اس بابرکت آزادی کی مہک آتی ہے ؟ میری مائیں اپنے رسم و رواج کا رنگ ڈھنگ دیکھیں ، ساس اور بہو کے جھگڑے دیکھیں میرے باپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو شادی کے بندھن میں کس طرح جڑتے دیکھیں اور اپنے بے حس رویے بھی دیکھ لیں کہاں اس آزادی کا عکس نظر آتا ہے کس کس شکل کو دکھاؤں کہ آپ اس آزادی کو دیکھ سکو لیکن کہاں دیکھ سکو گے –
مجھے اپنی قوم سے شکوہ ہے اور بجا شکوہ ہے ، ہر درد مند محب وطن پاکستان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر روتی آوازوں کو محسوس کر سکتا ہے ، آج ہمارا پاکستان ہم سے سوالی ہے وہ پوچھتا ہے کہ میں ان پریشان حال روحوں کو کیا جواب دوں جو پاکتسان کا مطلب کیا لا الہ الا الله کا نعرہ لگاتی نیزوں کی انیوں پر چڑھ گئیں، آج خون کے دریا خون کے آنسو روتے ہیں کہ کیا ہم بنجر پہاڑی میدانوں میں بہہ گئے ، پاکستان کی بنیادیں 65 سال ہو گئے ہم سے سوال کنندہ ہیں کہ مجھ پہ کونسا بوجھ لادھ دیا گیا ہے –
آج پھر چودہ اگست ہے آج پھر ہم جشن آزادی منا رہے ہیں لیکن وہ پاک روحیں ماتم کنا ہیں – آؤ آج احساس پیدا کر لیں دھرتی ماں آہوں کو سن لیں ، لٹیرے ، کرپٹ ، جاگیر داروں ، سرداروں اور وڈیروں کی شکل میں موجود سیاسی جغاداروں سے اعلان لاتعلقی کریں ،مفادات کی امیدوں کو آگ لگا دیں ، فرسودہ اور گمراہ کن میراثی لبرلز کے خیالات میں بہنا چھوڑ دیں اور آگے بڑھ کر اسلام پسندوں کے دست و بازو بن جایئں کہ نظریہ پاکستان کےاصل علمبردار اور امین یہی ہیں
لٹے،جلے،اجڑے اور اندھیرے میں ڈوبے پاکستان کو آزادی کے65سال مبارک
ہماری جانب سے آپ کو جشن آزادی مبارک
http://www.freeimagehosting.net/fhd8s
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
جشن آزادی کی مبارکباد کے پیغامات وصولتے ہوئے اکثر ایسے ہی احساسات ہوتے ہیں۔ اکثر دل بوجھل اور یاس و الم کی تصویر بن جاتا ہے لیکن پھر امید کا دیا ٹمٹمانے لگتا ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب پاکستان پاکستان بن جائیگا۔
اچھی تحریر ہے. بہت خوب…