’’ پا کستان ایک ناکام ریاست؟‘‘ پس منظر میں سیاہ بینر پر سنہری روشنائی سے چمک رہا تھا۔
کالج کے طلباء اور طالبات ہوں اور موضوع بھی اتنا حساس ہو تو تصور میں جوش اور جنوں کے سوا کچھ نہیں آتا سو ایسی ہی صورت حال تھی۔
ڈائریکٹر کی میٹنگ میں ابھر تے ہوئے ٹی وی پروڈیوسر عامر نے جب اگلی سہہ ماہی کے لیے سٹو ڈیو میں ٹاک شوکے بجائے تعلیمی اداروں میں مباحثہ کروانے کا خیال پیش کیا تو سب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
’’بھئی لڑکوں کو قابومیں رکھنا مشکل ہوگا ۔‘‘ توڑ پھو ڑ کی ذمہ داری کون لے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مگر مخالفت کے باوجود اس کے خیال کو منظور کرلیا گیا اور اب یوں لگ رہا تھا کہ پروگرام اور چینل دونوں شہرت کی بلندیوں پر ہوں گے۔ اگرچہ کہ سکرپٹ میں شانے اچکانے، ہاتھ ہلانے تک کی ہدایات درج ہوتی ہیں اور آخر میں ایوان طلبہ سے من چاہا نتیجہ اخذ کروانا طے ہوتا ہے مگر یوں کہ دیکھنے والے اسے حقیقی سمجھتے۔ سو ماحول کی گھٹن اور جذبات کی نکاسی بھی ہوجاتی۔
دھواں دار بحث جاری تھی۔ نسل نو ماضی کی مختلف تعبیر کررہی تھی۔۔۔
’’ اگر انگریز تجارت کی آڑ میں ہندوستان آئے، اور اپنی سوجھ بوجھ سے حکومت کا انتظام اپنے ہا تھ میں لے لیا تو کیا فرق پڑ تا ہے؟
اپنی تاریخ، ورثہ کی دہا ئیاں دینے وا لے بھول جاتے ہیں کہ اس سے قبل یہاں مسلمانوں نے بھی تابڑ توڑ حملے کیے اور غارت گری کے بعدعنان اقتدار سنبھالا۔ یہ تو زمانے کا الٹ پھیر ہے۔ انگریزوں کی روشن خیالی، انصاف پسندی کی داد دیں کہ غلاموں کی خواہش پر آزادی عطا کردی۔۔۔‘‘
’’ مسلمانوں کی جنگ آزادی، انگریزوں کے لیے غدر ہے اور آج کا تاریخ کا طالب علم دونوں کو یکساں سمجھتا ہے ‘‘ دوسرے طالبعلم نے ہرزہ سرائی کی۔
’’ اسی لکیر کے فقیر ہونے کے سبب ہی پاکستان آج یک و تنہا ہے۔ تریسٹھ برس کے بعد بھی اقوام عالم میں کسی کو اپنا ہمنوا نہ بناسکا۔ ساری خارجہ اور علاقائی پالیسیاں ازکار رفتہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘ دوسرے نے گویا مصرعہ ثانی پیش کیا۔
’’۔۔۔۔۔۔کاش میں وہاں ہوتا! ٹی وی کے آگے بیٹھے عامر کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اپنا پرانا خاندانی مرض درد شقیقہ اٹھنے پر پورا پروگرام اسسٹنٹ ہارون پر چھوڑنا پڑا تھا۔ان طالبعلموں کی غیرجانب داری نے سب کو ششدر کردیا۔ ہمارے درمیان اپنی تاریخ سے اس درجہ مغائرت! اپنے نظریات سے اتنا بعد!! اگر بات اپنی کم علمی، نا اہلی تک رہتی تومناسب تھا مگر جنگ آزادی اور ٖغدر کو یکساں سمجھنے والے اتنے بے باک ہوگئے کہ کھلے بندوں اظہار کرنے لگے۔
’’پاکستان کی بنیاد ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میزبان نے چبا چبا کر بولنا شروع کیا مگر یہ کیا! عامر کا افسو س زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔ جب ہال کے دوسرے کونے سے گہری آنکھو ں والا ایک طالبعلم کھڑا ہوگیا۔ آواز بغیر مائیک کے گونج رہی تھی۔۔۔
’’ فرق پڑتا ہے۔ بالکل فرق پڑتا ہے! مسلمانوں نے سازش کے جال نہیں بنے تھے۔مکر وفریب،حیلوں بہانوں سے اہل ہندوستان سے اقتدار نہیں چھینا تھا۔ اپنے نظریہ کی اخلاقی برتری ثابت کی تھی اور یہ نظریہ آج بھی تمام فکرہائے حیات پر فوقیت رکھتا ہے۔ کمی تو ہمارے عمل کی ہے! بے آئین جمہوریت پر نازاں انگریز بلیک ہول اور قصہ خوانی بازار جیسے سانحات کو تاریخ میں اپنی کامیابیوں کے نام سے درج کرواتے ہیں۔۔۔۔ مگر ٹریفلگر اسکوائر پر نصب جنرل ڈائر کا مجسمہ ان کی روشن خیالی اور انصاف پسندی کا پول کھول دیتا ہےجس نے بہادر شاہ ظفر کے 10بیٹوں کے سر خوان میں سجا کر پیش کیے۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’ ۔۔۔۔۔۔آخر ہم کیوں اپنی تاریخ، ورثہ کو یکسر فراموش کردیں؟ پاکستان ناکام ریاست نہ تھا اور نہ ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ حاضرین فیصلہ کرتے کہ داد دیں یا ہوٹنگ کریں اگلی قطار میں سے ایک جدید لباس میں ملبوس لڑکی تڑپ کر کھڑی ہوگئی۔
’’ بالکل!! ہم کیوں اپنے تحفظ اور اصول معاشیات سے دست بردار ہوں؟ بس پاکستان کے قیمتی اثاثے اور لو ٹ کھسوٹ کر جو دولت بیرون ملک منتقل کی گئی ہے وہ واپس لے آ ئیں اور استعمار کے ایجنٹ معاشرے میں مایوسی پھیلانے کے بجائے یہاں سے روانہ ہوجا ئیں تو پاکستان ناکام ریاست نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ان غیرمتوقع، ناپسندیدہ جوابی جملوں سے پروگرام میں افراتفری نظر آنے لگی تو ایک دم کمرشل کا اعلان ہوگیا۔ رنگ برنگے اشتہارات کے بعد پروگرام شروع ہوا تو پاکستان کی ناکامی فیصد کارکردگی، اعداد و شمار کے آئینے میں ثابت کی جانے لگی۔ مصنوعی گرما گرمی بھی ہوئی۔ تیز و تندسوالات بھی اٹھائے گئے۔ پاکستا ن کی ناکامی کی وجوہات پان اسلام ازم پر ڈالی گئی مگر حیرت انگیز طور پر آخر میں جمع تفریق کرکے جواب صفر نہ آیا بلکہ طلبہ کی اکثر یت نے ’’ فرق پڑتا ہے!! ہم کیوں اپنی تاریخ اور تحفظ سے دست بردار ہوں!‘‘ میسیج کرکے معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا۔
یوں طے شدہ پیغام ’’پاکستان ناکام ریاست ہے‘‘ نشر نہ ہوسکا۔ میزبان کو حیرت اور صدمہ کے ساتھ پروگرام کا اختتام کرنا پڑا۔ نہ جانے اسٹوڈیو میں کون محب وطن بیٹھا تھا کہ بطور جھلکیاں دفاع پاکستان کے مکالمے باربار دکھا کر رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
عامر ایم ڈی کے بارے میں سوچنے لگا۔ عین اسی وقت فون بج اٹھا۔ دوسری طرف ڈائریکٹر صاحب تھے۔ ’’ اسلام آباد سے فون آرہے ہیں۔ کل آفس آکر ملو۔ کیا تماشا لگا رکھا ہے ٹی وی پر!!‘‘ صائمہ نے کھانے کے بعد دوا اور پانی کا گلاس پکڑایا تو آنکھوں میں نمی جھلک رہی تھی۔ عامر نے اس کا چہرہ بغور دیکھا
’’ درد کچھ کم ہوا؟؟ ‘‘ ’’ ہاں کافی بہتر ہے! ایم ڈی نے بلایاہے اور جواب دہی کے لیے ملبہ ہارون پر گرانا مناسب نہیں۔ ‘‘
’’۔۔۔۔۔اور تمہا رے منہ بسورنے کا سبب کیا ہے؟‘‘ ’’ مہنگائی؟ حالات؟ کیا ہوگا؟‘‘ صائمہ نے آگے بڑھ کر شیلف میں رکھا اخبار اٹھا کر سامنے کردیا۔ انتہائی معتبر صحافی کے کالم سے چند سطریں ہائی لائٹ کی ہوئی تھیں
’’ پچھلے ساٹھ برسوں میں پاکستان نے کوئی 30 ارب ڈالر کے قرضے لیے لیکن گذشتہ تین برسوں میں 132 ارب ڈالر سے زیادہ کے!
یہ قرضے کیوں لیے گئے؟ ملک میں کہاں لگائے گئے؟ عوام کو کیا سہولت ملی؟ اس سوال کاجواب جس کے پاس بھی ہے وہ بتائے گا نہیں۔‘‘
’’۔۔۔۔۔۔صائمہ! اخبارات مایوسی پھیلارہے ہیں۔آجکل دنیا کا کونسا ملک ہے جو مقروض نہیں؟ سب سے بڑی طاقت کا بھی یہ ہی حال ہے اور یہ تو امدادی قرضے ہیں۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر۔۔۔۔‘‘ عامر ایک ایک لفظ سوچ کر کہا مگران لفظوں میں اعتبار کہاں سے لاتا؟ جب الفاظ اپنا اعتبار کھودیں تو مایوسی پنجے گاڑ لیتی ہے۔
’ ۔۔۔میڈیا کا کردار شرمناک ہے۔ 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور بے روزگار نوجوان کو رشتہ مانگنے پر زودوکوب کرنے کی خبر ایک سانس میں سنائی جاتی ہے! مگر اتنا بڑا نام، غلط اطلاع نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔‘‘ ’’ اور پھر اگر قرضہ لیا تو اس کی تفصیلات تو منظرعام پر لائی جاتی! پارلیمنٹ کو چھوڑیں۔ کون اپنی غلطیاں بحث کے لیے پیش کرے گا؟ اس کا لہجہ جذبات کی چغلی کھارہا تھا۔
’’ اف صائمہ! تمہاری مہارت تو کیمسٹری میں ہے۔ معاشی تجزیہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ ‘‘ عامر نے بات پلٹنا چاہا۔
’’ مگر میں ایک گرہستن بھی ہوں۔ مجھے علم ہے چھوٹا سا آنگن رھن رکھنے سے ساہوکار کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنی ہوگی۔ گھر کے درو دیوار میں پڑنے والی دراڑ مجھے اور میرے خاندان کو غیر محفوظ بنارہی ہے ۔۔۔‘‘ صا ئمہ کے آنسو پھسل گئے
’’ کیا اتنی سادہ سی بات حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی؟ ایک گھرہستن نے مجھے لاجواب کردیا ۔۔‘‘ عامر کی خاموشی چیخ پڑی۔
اس سے پہلے کہ عامر صائمہ کے آنسو پونچھتا، بچوں کا سنسربورڈ آپہنچا اور ماں کو آنسو پونچھتے دیکھ کر عامر سے پرسش ہونے لگی۔
اگلی صبح ایم ڈی کے آ فس میں عامر اور ہارون خاموشی سے بیٹھے ڈانٹ ڈپٹ کے منتظر تھے۔ معافی تلافی کے آواز دونوں کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے تھے کہ ایم ڈی نے یہ کہہ کر دونوں کو حیران کردیا ’’۔۔۔تم فکر نہ کرو۔ میں سنبھال لوں گا۔ صرف تم دونوں نہیں جائو گے بلکہ میں بھی تمہارے ساتھ ہی جائوں گا۔ آخر ترقی پسندوں کے تو چاچے مامے نہیں ہوتے۔۔۔۔‘‘
عامر نے اڑ کر گھر جانا چاہا کہ رات کس خلجان میں گزری تھی۔ صائمہ کو ایک مسکراہٹ بکھیرنے والی خبر سنانا چاہتا تھا! غم کے بعد خوشی کا وعدہ تو رب نے خود کیا ہے!
عین اسی وقت دور افتادہ شمالی وزیرستان کی تحصیل سپن دام میں جرگہ ہورہا تھا۔ علاقے کے بچے کھچے زعماء بیٹھے ہوئے تھے۔ محاصرہ آس پاس کے علاقوں پر حملوں کی شدت میں اضافہ زیر بحث تھا۔ فیصلہ طے پایا کہ مردوں کو تحفظ پاکستان کا فریضہ انجام دینا ہے۔ یہ الگ بات تھی کہ دن رات آسمان سے برستی موت سے بچ کر نکل جانا ممکن کہاں تھا؟پاکستان دہشت گردوں کا پشت پناہ ہے جب سے ترقی یافتہ دنیا پر یہ انکشاف ہوا تھا یہاں ہر طرف موت کا ڈیرہ تھا۔ اچانک صاف آسمان پر غیر ملکی طیارے نمودار ہوئے۔ ان سے نکلنے والی آگ نے نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا مذاق اڑایا بلکہ کچے آنگنوں میں کھیلتے بچوں، عورتوں اور مردوں کو جلا کر خاکستر کردیا۔
80دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کی بریکنگ نیوز صبح کے آغاز پر ہی تیار تھی،سو اسلام آباد کے ایوانوں سے ٹکرا کر دنیا کے کونے کونے میں نشر ہوگئی۔کراچی کے مباحثہ سے حسن خیل کے جرگہ تک پھیلی یہ داستان،جس میں مادر وطن کے دفاع کے سوا کچھ بھی قدر مشترک نہیں، ابھی ادھوری ہے !Jigsaw puzzle کی مانند کچھ گمشدہ ٹکڑے جڑنے باقی ہیں۔ نقدجاں اس وطن پر نچھاور کرنے والے ان ٹکڑوں کو بڑی تندہی سے مکمل کرنے اور لہورنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔
درست ترجمانی ہے
excellent article depicting our real picture
نئے جذبوں اور امینگوں کو جگانے والی تحریر ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کے لیے مثبت سوچ دینے والے پہلو رکھتی ہے۔