دہشت گرد کون؟

امریکی ریاست کولوراڈو کے سینیما گھر میں فائرنگ کرکے 12 افراد کو ہلاک اور 60 کے قریب افراد کو زخمی کرنے والے مسلح شخص کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس کا کسی دہشت گرد گروہ سے تعلق نہیں اور یہ اس کا انفرادی فعل تھا۔

 

بالکل ٹھیک، 24 سالہ امریکی نوجوان جیمز ہومزنہ تو مسلمان ہے اور نہ اس کے چہرے پر داڑھی ہے چناچہ وہ قطعا دہشت گرد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کا تعلق کسی دہشت گرد گروہ سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مکان سے نہ تو جہادی لٹریچر برآمد ہوا اور نہ ہی ملنے والے کاغذات سے یہ ثابت ہوسکا کہ اس نے زندگی میں کبھی پاکستان یا افغانستان کا سفر کیا ہو۔ چناچہ وہ قطعی طور پر دہشت گرد نہیں۔

 

اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ سال ناروے میں بھی پیش آیا جہاں ناروے کے شہری انرش بریوک نے اوسلو کے قریب واقع جزیرے میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کرکے 70 سے زائد افراد کو قتل کر دیا تھا اور گرفتاری کے بعد اپنے اس عمل کو صلیبی جنگ کا نقطہ آغاز کہا تھا، لیکن شومئی قسمت آج تک اس شخس کا کوئی تعلق نہ تو کسی عیسائی شدت پسند تنظیم سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی اس عمل کو عالمی دہشت گرد گروہوں سے جوڑا گیا۔ جیمز کی طرح انرش کے عمل کو بھی ایک شخص کا انفرادی عمل قرار دیا گیا۔

 

قارئین خود اندازہ کریں اگر ان دونوں واقعات میں ملوث افراد کا ذرہ برابر تعلق بھی اسلام سے ثابت ہوجاتا یا ان کے خاندانی مراسم مسلمانوں سے رہے ہوتے تو بین الاقوامی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیسے کیسے راگ گارہا ہوتا۔ لیکن چونکہ معاملہ مختلف ہے لہذا میڈیا پر ہونے والی بحثوں میں بھی ہمیں یہ سننے کو نہیں ملتا کہ ان افراد کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم یا گروہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ گویا دہشت گردی اور انتہا پسندی صرف مسلمانوں ہی سے منسوب رہ گئی ہے۔

 

امریکی حکام کے مطابق کولوراڈو کے سینما گھر میں ہونے والے فائرنگ کا یہ واقعہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہے جس کی بنیاد ہر اس کو دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس منطق کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو 12 افراد کی ہلاکت کو کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ اطلاعات کے مطابق جیمزکاحال ہی میں میڈیکل کالج سے اخراج کر دیا گیا تھا اور ممکن ہے اس نے اپنی ذہنی بےسکونی کی وجہ سے ایسی حرکت کی ہو۔ اس بنیاد پر جیمز کو امریکی قوانین کی روشنی میں دہشت گرد نہیں گردانا جاسکتا۔ اب اس مفروضے سے جڑی ایک اور حقیقت دیکھئے۔ امریکی فوج کے ہاتھوں افغانستان، عراق اور پاکستانی سرحدی علاقے شمالی وزیرستان میں آئے روز حملوں کے نتیجے میں امریکہ کو مطلوب افراد کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد میں بےگناہ اور نہتے لوگ بھی ہلاک کر دئے جاتے ہیں۔ اگر ان کے لواحقین میں سے کوئی شخص اٹھ کر بدلہ لینے کا اعلان کرے اوراپنی سرزمین پر جو امریکی نظر آئے اسے نیست و نابوت کردے تو کیا کہیں گے امریکی قوانین؟ اور کیا ان کے اس عمل کو بھی انفرادی واقعہ ہی گردانا جائے گا اور اس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جائے گا؟ حقائق اور تاریخ آپ کے سامنے ہے اور آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔

 

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ ہالی وڈ کی چکاچوند روشنیوں کے پیچھے امریکی تہذیب کا کھوکھلا پن سو فیصد عیاں ہو چکا ہے۔ ہالی وڈ کی ایکشن اور رومانس سے بھرپور فلموں کے ذریعے پوری دنیا پر اپنی جعلی تہذیب کا جھنڈا گاڑنے کے خواہشمند نیوکونز آج اپنی نوجوان نسل کے شدت پسندانہ رویوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ کے دوہرے رویے بھی اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ پوری دینا میں کسی بھی منفی سرگرمی کو فوری طور پر مسلمانوں کے سر تھوپنے کی وجہ سے وقتی طور پر تو امریکہ اور مغرب کی جھوٹی انا کی تسکین ہوسکتی ہے لیکن اس کے نتائج خوفناک حد تک بھیانک ہو سکتے ہیں جس کی ایک جھلک ناروے اور امریکہ دیکھ چکے ہیں۔

فیس بک تبصرے

دہشت گرد کون؟“ پر 6 تبصرے

  1. احمد بھائی! آپ نے بجا تبصرہ کیا ہے۔ جب تک یہ دوغلی پالیسی ترک نہیں کی جاتی تو دنیا کا امن ایک خواب ہی رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کا واقعہ میں چاہے مسلمان ملوث ہوں یا غیر مسلم ، ان کی باقاعدہ عدالتی تحقیق ہونی چاہے اور ہر دہشت گردی کے اسباب کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہی۔

  2. مثل مشہور ہے ” چاہ کُن را چاہ درپیش”
    امریکا کی صیہونیت کا شیرازہ امریکی ہی بکھیریں گے

  3. السلام علیکم-آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ یہ سب مغرب کی دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔لیکن اس سارے عمل میں مسلمان ممالک کے حکمران مغرب کے ساتھ شریک ہیں۔مسلم عوام ہر جگہ تنگ ہیں۔اللہ کرے کہ مصر کی طرح ہر ملک میں عوامی بیداری کی تحریک شروع ہو اور ان مغرب ذدہ حکمرانوں سے نجات ملے آمین

  4. براہ مہربانی یہ سمجھیں کہ کسی پر “دہشت گرد” ہونے کا لیبل چسپاں کرنے کے لۓ ان کے اعمال کے پیچھے ایک سیاسی مقصد ہونا چاہۓ. لغت میں لفظ “دہشت گردی” کا معنی ہے:

    “دہشت گردی: “، تشدد اور دھمکانا یا مجبور کرنا خاص طور پر سیاسی مقاصد کے لۓ.”

    ظاہر ہے، ہومز کو ایک دہشت گرد قرار نہیں ديا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی کوئی تنظیمی یا معروف مذہبی وابستگی نہیں ہے، اور نہ ہی اس نے حکومت کی پالیسی کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے- حقيقتا̋ ، وہ ایک غیر حقیقی کردار کے طور پر “جوکر” کا لباس پہنے ہوئے قاتلانہ سرگرمی پر روانہ ہوا.

    ہومز کے مقابلے میں، اوسلو کا اینڈرس بریویک ایک “دہشت گرد” تھا کیونکہ اس کے ایک 1,518صفحوں پر مشتمل منشور میں اس کا مقصد یہ لکھا تھا کہ “مغربی اور یورپی ممالک کی سیاسی اور فوجی کنٹرول پر قبضہ کرنے کے لئے ایک ثقافتی اور قدامت پسند سیاسی ایجنڈے پر عملدرآمد کرنا تھا۔”

    مندرجہ ذیل ایک ویڈیو لنک ہے جس میں امریکی صدر اور سکریٹری کلنٹن نے سختی سے اس “دھشت گرد حملے” کی مذمت کی ہے:

    http://www.youtube.com/watch?v=BDhF5OPlDG4&feature=plcp

    افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
    https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu

    • لغت کے الفاظ میں ہیر پھیر سے ایک دہشت گرد نہ تو معصوم گردانا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے اس فعل سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ عجب بات ہے ، عافیہ صدیقی کے متعلق امریکی جو افسانہ سناتے ہیں اس میں اس کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے ایک امریکی اہلکار سے بندوق چھین کر اس پر حملہ آور ہوئی، یہ تو دہشت گردانہ کاروائی تھی لیکن ایک گوری چمڑی والا اپنی بندوق سے درجن بھر افراد کو موت کی نیند سلا دے تو وہ دہشت گرد نہیں؟؟؟

      بریوک کو دہشت گرد تسلیم کرنے پر شکریہ لیکن ہومز کو دہشت گرد قرار دینے سے ہالی وڈ کی صنعت پر زد آتی ہے شائد؟؟؟؟

Leave a Reply