گہرے بادلوں سے ڈھکے ا ٓسمان نے کرئہ ارض کو دھندلا رکھا تھا۔ گنجان انسانی آبادی کے علاقوں پر رات کے پچھلے پہر کا سناٹاطاری تھا ۔ اچانک کائنات کے گوشے گوشے سے نغمہ سرمدی پھوٹ پڑا۔ رب ذوالجلال اپنے پسندیدہ بندوں کی مناجات ،آہ وزاری سننے کے لیے متوجہ تھے ۔ ’’ہے کوئی نجات ،مغفرت اوررحمت مانگنے والا ‘‘ منادی کی گونج نے تمام مخلوقات کو حیرت زدہ کر دیا،رب ِرحمان کے حمدیہ ترا نے فضا میں تیرنے لگے۔ انسانی خدمات پر مامور ملائکہ اپنے رب کی رحمتوں ، مغفرتوں کے تحائف لیے زمین پر جوق در جوق اتر رہے تھے۔ صحت، درازی عمر، رزق،علم ،توفیق اور توبہ کے بھرے طباق لیے آسمانوں سے محوپرواز تھے۔
مگرایسے میں اہلِ زمین کی کارکردگی پیش کرنے والے فرشتے دل گرفتہ اور ملول تھے۔انسان شیطانوں کا روپ دھار چکا تھا۔ برمامیں بودھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں کلمہ گو مسلمانوں کے سفاکانہ قتلِ عام پر آسمانوں تک سوگواری پھیل گئی، دمشق اور اسکے گرد ونواح میں امتِ مسلمہ جس ابتلاء سے گذر رہی تھی اسکا تصور بھی محال تھا۔ تا حدِنگاہ غارت گری کے سوا کچھ نہ تھا۔اسلام کے قلعہ پاکستان میں امن اور انصاف سے محروم معاشر ہ ا نتشار کی راہ پر گامزن تھا۔ جلیل القدرپیغمبر یوسف ؑکی سرزمین مصر انتہائی خونریزی کے بعدقدرے پرسکون تھی۔ طلوعِ انقلاب کی خوشخبری کے سوا ہر سمت سے فسق وفجور کی اطلاعات ربِ کائنات کے حضورپیش کرنے میں خوف اور ادب مانع تھا۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنے والی مبارک ساعتوں میں ،جشنِ نزولِ قرآن کی خوشی جو سات آسمانوں تک منائی جاتی ہے، اہلِ زمین پر طلوعِ ہلال کے ساتھ عذاب کا فیصلہ صادر نہ ہوجائے، امن اور خوشحالی کے بجائے فساد اور تنگی نہ مسلط ہوجائے۔۔۔۔۔۔سبوح ُ قدوس ایسا کبھی نہ ہو ‘‘ملائکہ گڑگڑارہے تھے۔
زمین میں ہر جگہ فسادبرپا دیکھ کر کون خوش ہوتا؟؟ سوائے گروہِ ابلیس کے، سو ایسا ہی تھا۔ کائنات کے سیاہ گڑھوں میں ابلیس کے شاگردوں کا اجتما ع برپاتھا، چھوٹے، منجھلے اور بڑے ہر شیطان کی باچھیں کھلیں جارہی تھیں، مگر چبوترہِ صدارت کی نشست پر براجمان شیطانِ بزرگ سر پکڑے بیٹھا تھا۔ پھر انتہائی کریہہ آواز فضا میں پھیل گئی۔ ’’یقیناََ تم سب کی کارکردگی شاندار ہے مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ پچھلی نشستوں سے ایک جلد باز ابلیس تن کر کھڑا ہوگیا ۔ ’ ’آپ کی فکر مندی بلا جواز ہے، میں گذشتہ دنوں استقبالِ رمضان کی تیاریوں کا جائزہ لے کر آرہا ہوں ۔’’ایک مہینے کے لیے معمولات کون بدلے!‘‘ نوجوان لڑکی نے تذکیر پر ہاتھ ہلاکرجواب کیا دیا ہمیں فراغت کے لمحات بخش دیے۔ اسکے بعد تو سب کاخیال یہی بن گیا۔
اسٹیج سے چیخ بلند ہوئی ۔’’ کوئی ہے جو اس ۔۔۔۔۔۔۔۔ کو خاموش کرائے ؟؟‘‘شیطانی مجلس میں گالی گفتارکے علاوہ زبان کیا پیش کرتی! ماحول مزید پرا گندہ ہوگیا۔ پھر مجمع چبوترے کے پیچھے اسکرین پر ابھرنے والی متحرک شبیہہ میں گم ہوگیا۔ منظر میں بیچ سڑک پر اوندھے منہ گری فقیرن کو اٹھانے تیزی سے گذرتی گاڑیوں کے درمیان سے لڑکی آگے آئی،کچھ سواریوں کے بریک چرچرائے، کچھ تیز ہارن بجے، پھر مددگار لڑکی نقاہت کی ماری بھیک منگی کو کنارے لگا کرپیچھے سے آنے والی بس میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
’’اللہ تیری حفاظت کرے‘‘دعا کے الفاظ ضعیفہ کے سوکھے لبوں سے ادا ہوئے اور دھواں اڑاتی بس نا دیدہ فرشتوں کے پروں تلے آگئی۔ بے صلہ نیکی کا بدلہ اس سے بڑھ کے اور کیا ہوتا۔
’’ارے یہ تووہی لڑکی ہے !اف!!‘‘جلد باز شیطان کی مایوس سرگوشی بلند ہوئی۔’’ مگر کوئی بات نہیں اپنے اوقات ضائع کرنے میں طاق ہے۔‘‘ الفاظ کے ساتھ منظر بدل گیا ۔
لڑکی بستر پر بیٹھی آہستگی سے لیپ ٹاپ پر انگلیاں مار رہی تھی جیسے اس کا دل نہ چاہ رہا ہو ،آج سڑک پر اانسانی وجود کی کمزوری، بے وقعتی نے اسے الجھن میں مبتلا کردیاتھا کہ ایک اشتہار پر نظریں جم گئیں۔ اسلامی ریلیف کی طرف سے تباہ حال مسلمانوں کے لئے امدادی کاموں کی تفصیلات کے بعدمالی امدادکا مطالبہ تھا۔ ساتھ ہی رمضان کی مقبول ساعتوں میں رجوع ِقرآن کے ساتھ دعائوں کی ستدعا۔ ’’آخر دنیا بھر میں صرف مسلمان ہی کیوں برباد ورسوا ہیں؟؟‘‘ اسکے ذہن میں نامور محقّق کاتضحیک آمیز مباحثہ گونجا۔ مگر اسکرین پر موجود تصاویر کہانی کا دوسرا رخ بھی دکھا رہی تھیں۔ بے گور و کفن جھلسے لاشے، فضا میں منڈلاتے گدھ، بلکتے ہوئے بچّے ، جلی ہوئی جھونپڑیاں، گھُٹے ہوئے سروں والے عدم تشدّد کے پرچارک بھکشووں کی فاتحانہ مسکراہٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمرانوں کی عیش پرستی اور ملّتِ کفر کے منصوبے۔
’ ’ کیوں نہ اپنی اصل کی طرف لوٹ کے دیکھوں؟؟‘‘ اسکے دل نے بے دھڑک فیصلہ دیا ۔
’’نہیں نہیں، پابندیوں کا سامنا کون برداشت کرے؟؟ ا س و قت جاگو، اس وقت سوئو، یہ لباس نہ پہنو، فلمیں، کارٹون نہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی کوئی مرضی نہیں چلتی‘‘ وسوسہ نے سر اٹھایا۔ ا ندرونی کشمکش کے آثار چہرے پر جھلکنے لگے۔ پھرنہ جانے وہ کیا سوچ کرجھٹکے سے ا ٹھی اور ماں کے پاس چلی گئی،جھجھکتے ہوئے رمضان کے چاند کی بابت پوچھا، روزہ رکھنے کا عندیہ دیا۔ حیرت زدہ ماں نے اسے غور سے دیکھا اور لپٹالیا۔’’میری بچّی‘‘
ادھر ظلمات کدہ سے ہولناک گریہ و زاری بلندہوئی، جلد باز ابلیس بالوں کو نوچتا، سر میں خاک ڈالتا بالاخر زمین میں لوٹنے لگا۔
’’ہماری کوششیں یوں رائیگاںکب تک؟؟‘‘ شیطانِ اعظم دہائی ہے‘‘ایک دوسرا ابلیس احتجاجاََ کھڑا ہوگیا۔
’’کم عقلوں تمہارا خیال ہے کہ انسان ہمارے لئے آسان شکار ہے؟؟ سو جتن کرو، خوشنما جال بچھائو پھر بھی وہ بچ نکلتا ہے۔ بیشک جلد بازی اس کی سرشت میں داخل ہے مگر درِ توبہ کا کھلا ہونا اس کے حق میں ہے۔‘‘
’’ جائ ، چاروں طرف پھیل جائو۔ انسان کے گرد گھیرا تنگ کردو اور رحمت و نجات سے کوسوں دور کردو، ذرّہ ذرّہ سے موسیقی پھوٹے تاکہ وہ قرآن کی تلاوت کرنے اور سننے سے محروم رہے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے شاید اگلے چوبیس گھنٹے بھی نہیں۔ ویراں مسجدوں میں نمازیوں کی صفیں کھڑی ہو جائیں گی۔ نزولِ فرقان کی خوشی میں بندشیں ہمارا مقدر ہیں۔‘‘ محفلِ ابلیس منتشر ہوگئی مگر کرب و یاسیت کے ساتھ۔
ادھر ملائکہ بنی نوع ِ انسان کے کرتوت رب کے آگے پیش کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے روبرو ہاتھ باندھے نگاہیں جھکائے خاموش کھڑے تھے کہ ندا ئے الٰہی نے حاضر و غائب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
’’ خوف نہ کھائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بندوں کے احوال بیان کرو‘‘ قدوّسی رکوع اور سجود میں چلے گئے۔
’’ کیا میں تمہارے دفتر (ریکارڈ)کے بغیر نہیں جان سکتا۔ مجھے اپنے بندوں کی آہ وزاری، گداز کتنا پسند ہے‘‘ ملائکہ لرزگئے۔
’’بارِالہٰ، علیم وخبیر آپ کے بندے متفرق حالتوں میں ہیں۔ معاف کردیں توآپ غفورالرحیم ہیں۔ جو حساب لیں تو قدیر ہیں۔ مزاروں، درگاہوں،تکیوں پرسجدہ ریز مخلوق شرک کی مرتکب ہورہی ہے۔ دنیا کی امامت سیاہ کار انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انتہائی قلیل نوعِ بشر تیرے دین کی سر بلندی کے لئے سرگرداں ہے، امتِّ مسلمہ کی بے توقیری پر تڑپ رہی ہے،ظلم و جبر کے خلاف طاغوت کے آگے سینہ سپر ہے، اس پہر سر بسجود آپ کی رحمت کی طلب گار ہے۔نجات کی خواہش مند ہے۔‘‘
’’ تمہیں علم نہیں کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے، سب کی مہلتِ عمل درازہو، شاید کہ وہ میری طرف پلٹ آئیں۔‘‘
’’ بے شک ایسا ہی ہے ۔‘‘فضا مناجات سے معمورہوگئی
’’ اور جو میری رضا کے لیے جھولیاں پھیلائے ہیں۔ ان کی مناجات کو قبولیت کی سند ہے، ان کی کوششیں بار آور ہیں۔‘‘ غفلت پر ماتم کناں عالمِ ملکوت ربِّ رحیم کے اعلان پر مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھے۔آسمان بھی قدرت کی فیّاضی پر پھوار برسانے لگا۔ الوہی ترانے گونجنے لگے۔ڈوبتے ستارے مسکرائے۔
روئے زمین پر اہل ِدل ابرکرمِ کو رحمت ِ ایزدی کا اشارہ جان کر آنسو بہاتے تسبیح وتقدیس میں مشغول ہوگئے۔
شیطانی قوتوں کے ساتھ رحمانی قوتوں کا مقابلہ ازل جاری ہےاور ابد تک رہے گا.ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری زہنی اور جسمانی صلاحیتیں کن قوتوں کے ساتھ ہیں اللہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرماے۔آمین
السلام علیکم
جزاک اللہ خیر نگہت بہن، دل کو گداز کر دینے والا مضمون لکھا آپ نے- اللہ ہم سب کے دلوں کو حق اور صداقت پر قائم رکھے آمین- اور یہ رمضان مسلم امت کے لئے رحمتیں برکتیں اور آسانیاں لے کر آئے آمین-
کبھی کبھی لگتا ہے کہ کہیں ہم واقعی میں میٹھے میٹھے اسلامی بھائی تو نہیں ہیں۔۔ ساری دینا کو مسلمان کا خون بے حد مزیدار لگتا ہے۔
خون مسلم جتنا ارزاں اب ہے اسکی مثال شاید اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائیں۔