پھولوں کے پیراہن

کئی دن سے متواتر بازار جانا پڑرہا تھا۔ وہ بھی بھری دوپہر میں۔ سبب کزن کی شادی کی تیاری میں خالہ جان کا ہاتھ بٹانا تھا۔ دوپہر میں جانے کا انتخاب یوں کیا کہ اس وقت دکان دار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور توجہ سے بات کو سن لیتے ہیں۔ یوں خریداری بھی اطمینان بخش طریقے سے ہوجاتی ہے۔ سو ہم خالہ بھانجی چار بجے کے قریب نکلتے۔ راستے میں فالسے والے ملتے، ٹن ٹن کرتے قلفی اور گولے گنڈے والے ملتے۔ باقی تو سب گھر بند کیے یو پی ایس اور جنریٹر کی چنگھاڑوں میں “آرام” کررہے ہوتے۔ بس ایک ہی ننھی مخلوق دیکھی جو بھری دوپہر میں وزنی بستے پیٹھ پر لادے، دو دو چار چار کی ٹولی میں اس گلی سے اُس گلی میں ہنستی بولتی چلی جارہی ہوتی۔

 

یہ منظر روزانہ ہی دیکھنے میں آتا کہ نرسری سے لے کر مڈل کلاسوں تک کے بچے جھکی کمر کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے گھروں سے نکلے ہوئے یا کچھ بچے بچیاں سپارے ہاتھ میں لیے مدرسوں کی طرف چلے جارہے ہوتے۔ ہم بچوں کے بارے میں باتیں کرتے جاتے اور رحم بھی کھاتے جاتے۔

 

ایک چیز جو مشاہدے میں آئی، وہ ایسی تھی کہ جس نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کردیا۔ وہ تھے ان کے لباس! اکشر بچیاں موٹی موٹی جینز کی پتلونوں میں پھنسی ہوئی اور بغیر آستین کی بنیان جیسی چھوٹی سی قمیض یا صرف کندھوں کے اسٹیپ پر مشتمل نیٹ کے فراک اور مدرسے کی ضرورت پورا کرنے کے لئے اسی پر ایک دھجی نما دوپٹہ بھی گردن پر پڑا ہوتا۔ وزنی بیگ اُٹھانے میں بچے جھکے پڑتے اور پیچھے سے قمیض اُٹھ جاتی۔ یہ ہمارا پہناوا تو نہیں اور اس قدر کھلا لباس موسم سے مطابقت بھی تو نہیں رکھتا۔ اب ذرا اُس جگہ جا کر دیکھیے، جہاں یہ ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں فرشی نشست ہوتی ہے۔ جہاں محلے کے کئی گھروں کے بچے اکھٹے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ اس پھنسی ہوئی جینز میں زمین پر جھک کر بیٹھنا کس قدر مشکل کام ہے! وہ مائیں جو محض اپنی آسانی کے لئے یہ لباس پہنا کر بھیجتی ہیں، وہ ان تکلیفوں کو محسوس نہیں کرتیں، کیوں کہ انہوں نے اپنے بچپن میں اس قسم کے لباس نہیں پہنے تھے۔ یہ لباس تو اسی زمانے کا تحفہ ہیں۔ یہ بچیاں اس حلیے میں کیوں نظر آتی ہیں؟ اگر ان مائوں سے پوچھا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ بازار میں یہی کچھ بک رہا ہے تو ہم خرید لیتے ہیں۔ حالانکہ جتنے پیسوں میں ایک ایسا عریاں لباس ملتا ہے، اتنے ہی پیسوں میں کاٹن یا لان کے چھوٹے چھوٹے پرنٹس والے کپڑے خرید کر شلوار قمیض، ٹرائوزر، فراکس بڑے آرام سے بنائے جاسکتے ہیں۔ یقین کیجئے، ایک کے بجائے دو جوڑے بڑے آرام سے بن جائیں گے جو آرام دہ ہونگے، پسینہ جذب کرسکتے ہوں گے۔ اب بچے زمین پر بیٹھیں یا پارک میں جھولا جھولیں، انہیں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔

 

یہ تو بچوں کے جسمانی آرام کا ذکر تھا۔ اب ذرا دیکھیں کہ جو پہناوے بچیوں کو آج کل پہنائے جارہے ہیں، ان کے کتنے دور رس اثرات ہیں جس پر مائیں غور کرنے کی زحمت بھی محسوس نہیں کرتیں۔ جب ایک چھوٹی سی بچی ننگے بازوئوں والی فراک اور نیکر پہن کر گھر سے نکلتی ہے، گڑیا سی لگتی ہے۔ دس روپے ہاتھ میں دبائے “چیز” لینے محلے کی دکان پر آتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ دکانوں پر کھڑے فالتو اور آوارہ افراد اور محلے کے ہی لڑکے، میڈیا کی دی ہوئی گندگی اور آلودہ ذہنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ ان پھول سی بچیوں پر گندی نظر ڈالتے ہیں، زبردستی ان کے بازوئوں پر مذاقاً چٹکیاں لیتے ہیں۔ شام کے وقت جب محلے کے بچے کرکٹ کھیلنے گلی محلے میں جمع ہوتے ہیں، ان ہی کے درمیان یہ بچیاں اپنے معصومانہ کھیل، پہل دوج اور دوڑ بھاگ کے کھیل کھیل رہی ہوتی ہیں۔ وقت سے پہلے ہی بڑے ہوجانے والے یہ چھوٹی عمروں کے لڑکے اشتہارات کی بولی بولتے ہیں، رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے اور آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو نازیبا اشارے کرتے ہیں۔ آخر کس نے کہا تھا کہ اپنی معصوم بچی کو “باربی ڈول” بنا کر گلی میں کھیلنے بھیج دو؟؟

 

سب سے ذیادہ گِلہ مجھے ان والدین سے ہے، جن کی بچیاں آٹھ سے تیرہ سال کی اسٹیج میں ہوتی ہیں۔ ماں باپ بہت بے خبر، روشن خیال اور لبرل بن کر ان کو نامناسب لباسوں میں لیے سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں جہاں یہ اَس حلیے میں جاتی ہیں، دکان دارحضرات، آئسکریم پارلرز کے افراد اور ویٹرز، گلی محلے والے، سبزی والے، ان پر جو نگاہ ڈالتے ہیں، حیرت ہے کہ والدین کو تیر بھالے بن کر کیوں نہیں لگتیں!

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

آئے دن تو ہم معصوم جانوں کے ساتھ ہونے والے روح فرسا واقعات تواتر سے اخبارات میں پڑھ رہے ہیں۔ ان المناک داستانوں کے پس منظر میں جائیں، تو آپ کو ایک طویل قطار بے حیائی کے بیج کاشت کرنے والوں کی نظر آئے گی۔ ان میں ماڈلز، اداکارائیں، فلمی اور اشتہاری صنعتوں سے وابستہ افراد، نیٹ اور موبائل کی ایک کلک پر سب کچھ حاضر کردینے والی گلیمرس دنیا اور بہت کچھ ملے گا۔ انسان کو بھیڑیا اور درندا بنانے کی اتنی ساری فیکٹریاں لگی ہوں تو آپ اپنے دفاع سے اتنے غافل کیسے ہیں؟

 

کسی بھی نجی محفل میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کا ذکر کر بیٹھیں، تو ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ان نکات سے متفق اور بے حد دل گرفتہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر کیا اسکا علاج محض ماتم اور سینہ کوبی ہے؟ اس بے حیائی کے فروغ میں کس کا کتنا حصہ جارہاہے اور اس پر غور کرنا، اور اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرنا۔۔۔ ان نکات پر دھیان دینے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ خواتین جو مختلف چینلز کی پُر کشش نشریات کے زیرِ اثر رہتی ہیں، وہ تصور میں اپنے آپ کو انہی ماڈلز اور اداکارائوں کے لباس پہنے محسوس کرتی ہیں۔ اور وہ یہ جانتی ہیں کہ مخصوص خاندانی اور معاشرتی دبائو کے تحت وہ یہ نہیں کرسکتیں، تو وہ یہ شوق اپنی معصوم پھول جیسی بچیوں کے ساتھ پورا کرکے تسکین حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ان کی تسکین ان بچیوں کے لیے کیسی وبالِ جان ہوسکتی ہیں، اس کا احساس ہے؟؟ اس کا ایک پہلو اور بھی تو ہے۔۔۔ ابھی تو آپ انہیں یہ تکلیف دہ اور واہیات لباس پہنا کر خوش ہوجاتی ہیں، لیکن چندسال بعد جب وہ بڑی ہوجاتی ہیں اور ان پر معاشرتی اور مذہبی حدود کا اطلاق ہونے لگتا ہے، اب آپ ان پر پابندیاں لگانی شروع کرتی ہیں۔ انہیں آستین والے لباس، اسکارف اور عبایا پہنانا چاہتی ہیں تو ایک تصادم پیدا ہوتا ہے۔ حیا کا وہ بیج جو ابتداء میں مار دیا گیا، اس میں پتے اور پھول لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سے بغاوت جنم لیتی ہے اور ہماری سماجی اقدار کہیں بہت دور کھڑی نظر آتی ہیں۔

 

ہمارے دین نے جو ثقافت اور سماجی اقدار ہمیں دی ہیں، وہ ہیرا ہیں۔ ان کے سوا جتنے بھی لائف اسٹائل ہیں وہ کنکر ہیں، پتھر ہیں اور آگ ہیں۔ ہیرا مسترد کردینے کا مطلب باقی تین ممکنات کا انتخاب ہے۔ اس لیے اپنی پھول پری جیسی بچی سے پیار کا حق ادا کیجیے، اسے وہ پیراہن دیجیے جو اسکی حفاظت کا ضامن ہو، اور مستقبل کے معاشرے میں وہ ایک خود اعتماد اور باوقار خاتون ثابت ہو۔

فیس بک تبصرے

پھولوں کے پیراہن“ پر 4 تبصرے

  1. دل کو چھوتی ہوئی تحریر ہے، معصوم بچوں کا قصور نہیں، والدین خصوصاً مائوں کو سوچنا ہوگا۔

  2. مائیں اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ معاشرے کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی بہترین تحریر ہے۔

  3. تحلیل ہوتی اسلامی اقدار کی بہت عمدہ نشاندہی کی گئی ہے.

  4. السلام علیکم
    بالکل ٹھیک تجزیہ کیا آُ پ نے توقیر عائشہ بہن-اللہ ہم سب کو اپنے آپ اور اپنے بچوں کے حوالے سے لباس،کردار اور اخلاق کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی توفیق دے آمین-

    اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
    سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے

Leave a Reply