مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انہی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدان سیاست میں لے آیا اور انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعہ سے حکومتوں کے تختے الٹنے اور خود ہی اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ ان کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب ان کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار ان کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنالیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہورہے ہیں اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان مِن سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز ان کے سروں پر الٹ دی جاتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی ابھر کر اوپر آتا ہے وہ اپنے پیشرو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علمبردار ہوتا ہے۔
(سیّدابوالاعلی مودودیؒ، تفہیمات)
مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کسی تحریر پر تبصرہ کرنا چھوٹا منہ بڑی بات کے مترادف ہے۔سالوں سے مختلف ممالک میں فوجی حکمرانی جاری ہے کہیں ظاہری اور کہیں چھپی ہوٰی۔مختلف اسلامی ممالک کا یہی المیہ ہے۔ لیکن سالوں بعد اس تحریر کا مطلب زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ میں آتا ہے۔