سیونگ ڈالرز

عورت نوع انسانی کی تعمیر کا پہلا مکتب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت تقریباً ہر زمانے میں ہر دور میں سازشوں کا شکار رہی اور اکثر مذاہب و معاشرے میں مظلوم بھی رہی۔ حقوق انسانی سے تہی دامن ، شرف انسانی سے فارغ بلکہ زندگی سے محروم جس کی گواہی خود قرآن نے دی: واذا المئودۃ سئلت ، بایّ زنب قتلت [التکویر] ” اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی”۔

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے نجات دہندہ بن کر بھی آئے اور ان کو سربلندی بھی عطا فرمائی۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے کے بجائے اسے اپنے جسم کا حصہ اور جگر کا ٹکڑا قرار دیا۔ ماں کے قدموں میں جنت قراردی اور نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا۔ باپ ، شوہر ، بھائی ، بیٹا ہر رشتے میں مرد کو اس کا محرم اور محافظ قرار دیا۔ خطبہ حجۃ الوداع کے منشور انسانیت میں عورت کے حقوق کا خیال رکھنے کی خاص تاکیدفرمائی۔ لیکن صد افسوس، آج کفار و مغرب کو تو چھوڑیے خود مسلمان عورت ایک مرتبہ پھر ایک دوراہے پر کھڑی کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی دین سے دوری، کم علمی، غریب و افلاس نے ایسے المیوں کو جنم دیا ہے کہ جسے دیکھ سن کر دل دہل جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکا ہے۔ گو کہ ایسے واقعات کروڑوں کی آبادی میں شاید چند سو بھی نہ ہوں لیکن اس سے انکار ممکن نہیں۔

 

ہونا تو یہ چاہیے کہ اس حوالے میں معاشرے میں شعور و آگاہی پیدا کی جائے، ارباب اقتدار اس حوالے سے صحیح قانون سازی کریں ۔ اس قبیح فعل کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اس ظلم کا شکار خواتین کی دادرسی کی جائےلیکن کیا کیجیے کہ ایک جانب مغرب زدہ میڈیا اور الحاد پرست طبقہ ہے جو معاشرے کی ہر برائی کو اسلام اور اسلام پسندوں کے کھاتے میں ڈالتا ہے اور دوسری جانب مخصوص ایجنڈے پر عامل این جی اوز جو اپنے غیرملکی آقائوں کے ایک اشارے پر حد سے گذر جانے پر ہر آن تیار رہتے ہیں اور کوئی ایسا لمحہ یا موقع ضایع نہیں کرتے کہ جس کی مدد سے مملکت پاکستان کے اسلامی تشخص پر وار کیا جاسکے، اقوام عالم میں اسے شرمندہ و ذلیل کیا جاسکے۔

 

کچھ عرصے قبل قومی و بین الاقوامی میڈیا میں بڑی ہاہاکار مچی کہ تاریخ میں پہلی بار کسی پاکستانی خاتون کو جو کہ درحقیقت پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ہیں کوانکی ایک دستاویزی فلم”سیونگ فیس Saving Face” پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ فلم ایسڈ سروائیور فائونڈیشن Acid survivor foundation کے تعاون سے بنائی گئی۔ فلم کی مرکزی کردار دو خواتین تھیں جو تیزابی حملے کا شکار ہوئی تھیں اور ایک برطانوی ڈاکٹر جو اس ظلم کا شکار خواتین کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کررہے تھے۔ شرمین عبید کا کہنا تھا کہ انہیں یہ فلم بنانے کا خیال اس لیے آیا کہ اس کے ذریعے معاشرے میں شعور و آگاہی پھیلائی جاسکے لیکن ہر طرف مبارک سلامت کے شور میں کسی کو یہ سوچنے کی فرصت نہ مل سکی کہ ایک ایسا معاشرہ جس کی اکثریت اس زبان سے نابلد ہے جس میں یہ فلم بنائی گئی ہے کیونکر شعور و آگہی پھیلانے میں معاون ہوگا؟ ہاں جن کے شعور و آگہی کے لیے بنایا تھا وہ ضرور جان گئے اور انہیں سب سے بڑے فلمی ایورڈ سے نواز دیا۔ یقناً اس کے ساتھ کچھ فنڈنگ بھی ہوئی ہوگی۔

 

ذرائع کے مطابق شرمین عبید چنائے کے پروڈکشن ہائوس کو اب تک کئی ملین ڈالرز کے فنڈ مل چکے ہیں، فنڈ کے استعمال پر تھوڑی تحقیق کریں تو نئی نئی جہتیں آشکار ہونے لگتی ہے۔ رفیع پیر تھیٹر ہی کو لے لیجیے، یونائیٹڈاسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (یوایس ایڈ) کی طرف سے 20 ملین ڈالر کی فنڈنگ مشہور امریکی پروگرام سیسم اسٹریٹ کا پاکستانی ورژن “سم سم ہمارا” کو بنانے کے لیے کی جارہی تھی، لیکن ابھی حال ہی کی ایک خبر ہے کہ یو ایس ایڈ نے رفیع پیر تھیٹر کی فنڈنگ روک کر انکے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ رفیع پیر تھیٹر کے کرتا دھرتا، عثمان پیرزادہ اینڈ کمپنی فنڈ کو اپنے قرضوں کی ادائیگی اور رشتے داروں کو نوازنے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ خیر بات ہورہی تھی شرمین عبید کو ملنے والے فنڈز کی تو محترمہ شرمین عبید چنوئے کی فلم سیونگ فیس اس وقت دوبارہ موضوع بحث بن گئی جب فلم کو بنانے میں تعاون کرنے والی این جی او “دی ایسڈ سروائیور فائونڈیشن” نے فلم کی پاکستان میں نمائش رکوانے کے لیے قانونی نوٹس بھجوایا۔ فائونڈیشن کا موقف تھا کہ فلم کی پاکستان میں نمائش سے اس کے کرداروں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جسے فلم کے پروڈیوسرز نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فلم کی پاکستان میں نمائش کا حق حاصل ہے۔

 

27 جون 2012 کو روزنامہ جنگ نے دستاویزی فلم “سیونگ فیس” کے ایک مرکزی کردار “رخسانہ بی بی” کے حوالے سے ایک خبر شایع کی ہے جو مظلوم پاکستانیوں کے غم میں تڑپنے والے ان نام نہاد سوشل ایکٹوسٹوں کے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ خبر کے مطابق رخسانہ بی بی نے کہا ہے کہ فلم کے ذریعے کروڑوں کی آمدن عالمی ایوارڈز اور عالمی پذیرائی کے باوجود وہ خودگمنامی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے اور اسے بدنامی اور غربت کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ بچوں کو دو وقت کی روٹی اور ایک چھت مہیا کرنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے رخسانہ بی بی نے الزام لگایا ہے کہ فلم بنانے والوں نے مقصد کے حصول اور نام و دولت حاصل کرنے کے فوراً بعد اسے دربدر پھرنے پر مجبور کردیا کیونکہ فلم بنوانے کی پاداش  میں شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا جبکہ والدین نے بھی غیرت کا مسئلہ بنا کر سہارا دینے سے انکار کردیا ہے اور اب وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ رخسانہ بی بی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے رائلٹی کی مد ميں 3 ملين روپے اور ملتان شہر ميں 5 مرلہ کا تعمير شدہ مکان فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پلاسٹک سرجری کے تمام اخراجات بھي برداشت کئے جائيں گے لیکن نہ تو اس کی پلاسٹک سرجری کروائی گئی اور نہ ہی دوسرے وعدے پورے کیے گئے۔ مکمل خبر یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

 

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیرملکی امداد پہ پلنے والی این جی اوز اور الحاد پرست اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مظلوم خواتین کو استعمال کرنے سےبھی نہیں چوکتے۔ سوات میں کوڑے مارنے کے جھوٹے ڈرامے کا ڈراپ سین ہو یا پاکستان کو بدنام کرنے بنائی جانے والی دستاویزی فلمیں، اللہ نے انکی چالوں کو ان پر ہی الٹ دیا ہے، بے شک اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔ اس سارے قضیے میں پاکستانی میڈیا کا کردار ایک بار پھر بے نقاب ہوا چاہتا ہے کہ اب تک روزنامہ جنگ کے علاوہ کسی چینل یا اخبار نے اس خبر کو نشر کرنے یا اشاعت کے قابل نہیں سمجھا۔ وہ سول سوسائٹی جو “میں ناچوں گی، میں گائوں گی” کے حق کے حصول کے لیے ریلیاں نکالتی ہیں، جو کوہستان میں لڑکیوں کے رقص کرنے کی وجہ سے قتل کیے جانے کی جھوٹی خبر پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں، کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر ملکی امداد کے بل پر پلنے والے اس طبقے کی ہمدردیاں کیا واقعی اہل پاکستان کے ساتھ ہیں؟ کیا شرمین عبید چنوئے کی دستاویزی فلم “سیونگ فیس” واقعی سیونگ فیس کے لیے تھی یا اس کا مقصد کچھ اور “سیو” کرنا تھا؟؟؟؟

فیس بک تبصرے

سیونگ ڈالرز“ پر 8 تبصرے

  1. بڑا ہی افسوس ہوا ہے داستان غم سن کر ۔ عورتوں کو حقوق تو اپنے نظریاتی موافقین کی مدد سے بھی نا دلوا سکے پر دل کی خوشی کیلئے ایک نظریاتی مخالف عورت کو بدنام ہی کر چلے ۔
    بھئی آپ لوگوں کے حصے کے ڈالر آپ کے نظریاتی موافق محترم مرصی صاحب صدارت سمیت لے گئے اور محترم حسنی مبارک صاحب کے حصے کے ڈالر آپ کے نظریاتی مخالفین کے حصے میں آگئے ہیں ۔ امریکی بیچاروں کی خلاصی نا ہوئی اب ۔ بھلے ہی آپ کے نظریاتی موافقین کوشش کرلیں یا آپ کے نظریاتی مخالفین ۔

  2. کس بات کا افسوس ہے یہ کہ جو ڈالر آپکو ملنے چاہئیے تھے وہ شرمین عبید لے اڑیں۔ خود آپکی جماعت نے اس ملک کی عورت کو کیا دیا ہے حالانکہ انہوں نے بھی امریکہ سے کچھ کم ڈالر نہیں لئے۔
    ویسے جاہل سنکی کی طرح مجھے بھی آپ سے ہمدردی ہے۔

    • آپا جی ہمیں تو ہر ظلم و استحصال پر افسوس ہوتا ہے جی، وہ مینائی صاحب نے بھی کیا خوب کہا ہے “خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے” تو محترمہ ہماری جماعت کی اگر بات کریں تو اس نے کم از کم عورتوں کا استحصال نہیں کیا، ان کی مظلومیت کو تماشہ نہیں بنایا بلکہ ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں آپ کے قبیلے کی حرکتیں تو اظہر من الشمس ہیں، سارے چور اچکوں، لٹیروں، قبضہ مافیا، ڈرگ مافیا، بھائی مافیا، کرپشن مافیا، سب کا تعلق اسی سے ہے 😉

      ہم فرض کرلیں کہ آپ کے موجودہ آقائوں سے ہم نے بھی پیسے لیے ہیں تو جی وہ پیسے خرچ بھی وہیں ہوئے ہیں، اپنے ممدوح سوویت یونین کا حشر دیکھ لیں، پلیز آنسو نہ بہائیے گا اب، ہمیں بھی آپ سے ہمدردی ہے۔۔۔

      • آپ کی جماعت نے یہ ظلم کم کیا کہ ۔۔۔اپنی قیمتی ترین شے کو پردے میں چھپا نےکی ترغیب دی اور ان بیچاروں کی عورتیں۔۔ددر در دھکے کھا رہی ہیں۔۔اور شکوے کرتی ہیں۔۔۔مرد گھورتے ہیں۔
        بیچاروں کو دنیا بھی نہیں ملی اور ۔۔۔عزت و عصمت کاتصور بھی گم ہو گیا۔

    • حیرت اس پر ہے کہ آپ نے شرمین عبید چنائے کے طرز عمل پر کوئی کلام نہیں کیا . اور اس ساری پوسٹ میں آپ کو ایک ایسی بات نظر آئی جو شاید ہی کسی دیدہ بینا کو دکھائی دے . آپ کسی کو ، کسی کی جماعت کو ،کسی کے طرز عمل کو خوب کوس لیں لیکن پہلے چنائے صاحبہ کے طرز عمل پر تبصرہ تو کریں .

  3. وقار شاباش، یہ شرمین عبید کے قبیلے کی خواتین کے اوچھے الزامات کی پرواہ مت کرو. اس قبیلے کے لوگوں نے نے کبھی خود ڈھنگ کا کام کیا ہے نہ کسی اور کرنے دیا ہے، ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف مذہبی طبقے کو ٹکا کے جواب دینا ہے اور مغرب کی واہ واہ حاصل کرنا ہے اسکے علاوہ ان لوگوں نے نہ کچھ کیا، نہ کررہے ہیں اور نہ کریں گے۔ چاہے یہ کیمیاء میں پی ایچ ڈی کریں یا دھنیا میں، انہوں نے عہد کیا ہے کہ کبھی کوئی تعمیری نہیں کرنا.

  4. Debate is interesting! There must be data that how much ladies are killed, beaten, burnt, exploited by by their boy friends! Then we will highlight their stories to compare with dignity and pride a muslim woman gets in her home. exceptional are everywhere.

    I mean in west how the women are exploited ,especially acid burns case are more common there.and the said doctor was actually working in West.

  5. Concerning JAHIL SANKI , admitting his qualification, and seconded by the lady!

Leave a Reply