کیا بڑی بات ہوتی جو۔۔۔!

دوپہر ساڑھے گیارہ یا پونے بارہ کا وقت تھا کسی سے ملاقات کر کے فلیٹ کی سیڑھیاں اترے تو کئی چھوٹی بڑی بچیاں اسکول بیگ مع لوازمات اٹھائے کھڑی نظر آ ئیں۔ گمان ہوا کہ سیکنڈ شفٹ کی بچیاں ہیں! یقینا!! یہ جون کا پہلاہفتہ تھا  لہذا اسکولوں کی گر میوں کی تعطیلات شروع ہو جاتی ہیں مگر جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، اس سال ماہ رمضان کی اس دوران آمد کے پیش نظر حکومت نے اس دورانیہ کو آگے بڑ ھانے کا فیصلہ کیا مگر نجی اسکولوں کی ہٹ دھرمی کے باعث چھٹیوں کا اختیار اسکولوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا لہذا اب یہ ایشو ایک مختلف رنگ میں نظر آرہا ہے۔

اس بات کے پیش نظر جب ان بچیوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وین صبح بھائی کو لے کر گئی تھی مگر واپس نہیں آئی تو اب ایسا لگ رہا ہے کہ اسکول کھلے ہیں! ہمارا منہ ہکا بکا رہ گیا۔ یعنی معا ملے کے اس پہلو کی طرف تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ایک اسکول کی انتظا میہ بھی اس ایشو پر یکسو نہیں ہے گرمیوں کی چھٹیاں جو بہت سی سماجی سرگرمیوں کا منبع اور مرکز ہوتی ہیں اور جن کے لحاظ سے بہت سے پروگرامز بنتے ہیں اس قدر ہنگامی اور اتفاقی ہوجائیں کہ اسکول جا کر پتہ چلے کہ بند ہیں کہ نہیں؟؟ اور پھر ایک مسلمان ملک میں رمضان کا اہتمام بھی سمجھ میں آتا ہے وہ بھی کوئی اچانک نہیں آرہا بلکہ ایک طے شدہ وقت پر ہی ان شاءاﷲ شروع ہوگا تو پھر اتنی بدنظمی کیوں؟ ہم تو اپنے گھر کے اس منظر نامے سے ہی پر یشان تھے کہ ایک بچہ اسکول جارہا ہے جبکہ دوسرے کے اسکول میں چھٹیاں ہوگئیں! ان بچیوں کو وین کے منتظر چھوڑ کر ہم آ گے بڑھے مگر ذہن اسی الجھن میں تھا۔

پھر اسی لمحے قلم کارواں پر اس مو ضوع پر لکھا ہوا مضمون یادآیا! اس پر کئی تبصرے پڑ ھنے کو ملے۔مصنفہ نے تواپنے دل کی بھڑاس نکالی تھی تعلیمی نظام و شیڈول کی رنگارنگی پر مگر ایک تبصرہ نگار نے تو گویا دل کے پھپھولے پھو ڑے ہیں!  جی ہاں!مضمون میں ضمنا ایک مثال مدارس کی یکسانیت کی دی گئی اس پر طنزیہ’’ ذہنی حکمران‘‘ اور ’’ خیالی پلائو ‘‘کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے مبصر نے باقاعدہ مذاق اڑایا ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارا شاندار ماضی ہی تھا جہاں سے حکمران نکلتے  تھے! اور واقعی یہ اسکولوں کا نظام تومحض دو، تین سو سال پرا نا ہی ہے۔ یہ طبقاتی نظام ہم پر ٹھونسا گیاہے۔ ہمارا تو وہ نظام تھا کہ بادشاہ اور گدا دونوں کے بچے ایک ہی استاد اور نصاب کے تحت تعلیم حاصل کر تے تھے! آہ مبصرہ نے ہمارا شاندار ماضی یاد دلا دیا !

ویسے تبصرہ نگار کے قلم کے جوہر کے ساتھ ساتھ تاریخ پر ان کے عبور نے بھی بڑا متا ثر کیا۔خاص طور پر یہ بات کہ آ پ ہر ایشو کو براہ راست قرآن و حدیث میں دھونڈتی ہیں لہذا چھٹیوں کا شیڈول بھی وہیں تلاش کررہی تھیں! عام مسلمان تو نماز کا لفظ، تر کیب اور اعداد بھی نہیں ڈھونڈ پاتے! بے چارے مقلدین!

نہ صرف ماضی بلکہ حال پر بھی انہوں نے خوب نظر ڈالی اور مستقبل کی بھی پیش بینی کی ہے! یعنی یہ کہ رمضان اپریل میں آ ئیں گے تو کیا  گرمیوں کی چھٹیاں بھی موسم بہار میں ہو نگی؟  ہاہ! ہاہ ! کتنی دلچسپ اور امید افزا بات ہے! ماہ و سال کی گردش پر نظر ڈا لیں تو معلوم ہو تا ہے کہ محض نو دس سال بعد ہی اپریل میں رمضان آجائے گا تو کچھ بعید نہیں کہ اس وقت تک وہ نظام قائم ہوجائے جس کے لیے مسلمانوں کی آنکھیں ترستی ہیں جی ہاں! مدینہ کی طرز کی ریا ست کے قیام کا خواب شر مندہ تعبیر ہوجائے ان شاء اﷲ! ویسے اس وقت چھٹیاں گرمیوں سے مشروط نہیں بلکہ اپنے مراسم عبو دیت کے لحاظ سے ہونگی!

ویسے مبصرہ سے یہ ضرور پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ آ پ نے مسلمانوں کی سخت کوشی کا ذکر کیا ہے کہ رمضان میں جنگ کرتے تھے۔ بالکل ٹھیک! مگر کیا یہ جنگیں انہوں نے خود چھیڑیں تھیں یا ان پر ٹھونسی گئیں تھیں! آج بھی جہاں جہاں مسلمان کافروں سے برسرپیکار ہیں وہاں دشمن خاص طور پر رمضان کا انتخاب کر تے ہیں کہ مسلمان عبادت میں مصروف ہوں گے!! اس موقعے پر ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جب دشمن نے تہجد کے وقت حملے کیا تو سحری میں مشغول ہر مسلمان گھر سے ایسا منہ توڑ جواب دیا گیا کہ بھاگتے ہی بن پڑی! امیدہے مسلمانوں کی موجودہ سرگرمیوں سے مبصر ہ واقف ہی ہونگی۔

ایک نئے مسلمان کی اصطلاح جو تبصرہ نگار نے استعمال کی ہے  وہ بہت مناسب لگی۔ شعوری مسلمان ہی اسلام نافذ کرسکتے ہیں یہ نسلی اور وراثتی مسلمانوں کے بس کی بات کہاں؟ وہ تو بس مغلوبانہ ذہنیت کے ساتھ احساس کمتری میں مرے جاتے ہیں مغرب اور کفار کی ترقی دیکھ دیکھ کر! جس کا ثبوت محتر مہ کا تبصرہ ہے!

ویسے ایک آ خری بات جو آپ سے پو چھنی ہے کہ مصنفہ کے بچوں کو تو چھوڑیں، آپ کے بچے تو یقینا پوری دنیا کے ساتھ مل کر چھٹیاں اڑا رہے ہوں گے اور ماہ رمضان میں شاید اسکولوں میں بیٹھ کر یوم آ زادی کا جشن منا کر غزوہ بدر کی یاد تازہ کر رہے ہوں گے!

فیس بک تبصرے

کیا بڑی بات ہوتی جو۔۔۔!“ پر 6 تبصرے

  1. One thing is left! for same day eid ( Moon at one time) is emphasized by them but not on other matters! Moon is a geographical matter could vary depending on topography .There must be consensus on administrative issues. KIA BAAT THEE JO HOTAY MUSALMAN BHEE AIK!

  2. جب مسلمان رمضان میں منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ رکغتے ہیں تو ان شاہینوں کے بچوں کو آپ کیوں ممولے کے بچے بنا رہی ہیں۔
    چلیں کوئ خدائ حکم دکھا دیں جس کی رو سے رمضآن میں صرف عبادت میں مصروف رہنا چاہئیے۔ نئے مسلمان ایسا بھی نہ کر پائیں گے البتہ خدا سے یہ توقع رکھیں گے کہ معجزہ فرما دے اور آئیندہ دس سالوں میں وہ نظام آجائے جس میں رمضانوں کی چھٹیاں ملیں۔
    محترمہ اسلام میں چھٹی کا کوئ تصور نہیں ہے۔ حتی کہ جمعہ کی چھٹی کا بھی کوئ تصور نہیں ہے÷ جب جمعے کی اذان ہو تو نماز کے لئے کاروبار چھوڑ دیں یہ نہیں کہ پورے دن چھٹی کر کے بیٹھ جائیں۔ اس لئے آپ جیسے نئے مسلمان دراصل ان وراثتی مسلمانوں سے بھی بے کار ہیں جو کچھ روایات پہ تو عمل پیرا تھے۔ آپکا حساب تو یہی نظر آتا ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
    ہر بات کے جواب میں آپ نے فرما دیا کہ خدا دکھائے گا۔ یقین رکھیں خدا کاہل اور سست مسلمانوں کو کچھ نہیں دکھائے گا۔ جو روزے کے احسان کا بدلہ بھی دنیا میں ہی چاہتے ہیں۔ یعنی چھٹی ملے۔

    • چلو جی اسلام میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے، بولے تو بجلی، گیس کی عیاشی بھی غیر اسلامی ہے، بھی، بھلا بتائو یہ کہاں لکھا ہے کہ حکومت یہ ساری سہولیات عوام کو فراہم کرے ہیں جی؟ خواہ مخواہ مہنگائی مہنگائی کا شور مچاتے ہو ہیں جی، اسلام نے تو پہلے ہی بتایا ہے کہ قناعت پسندی اپنائو جواب نہیں آپا جی آپ کا بھی 😉

      کہتے ہیں کہ حصول رزق بھی حلال عبادت ہے اس کے باوجود آجروں کو حکم دیا گیا کہ رمضان میں اپنے ملازمین سے کم کام لیا کریں، منکرین حدیث اس پر یقین کریں نہ کریں بحرحال ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں، اس بار رمضان بھی انہی چھٹیوں کے آس پاس ہی آرہا ہے، تو اگر چھٹیاں رمضان کے مناسبت سے کردی جائیں تو کیا حرج ہے؟ ہممم حرج تو ہے، اب جنہیں اسلام کا نام سنتے ہی بدہضمی ہونے لگے ان سے اسی قسم کے ردعمل کی توقع کی جاسکتی ہے… 😀

    • there are many kids in my neighbour who study in Madrassah! they do not have any extra leave! no summer vacation,easter or Xmas etc but only one month in ramadan! their all the activities surround our festivals! Hard working since morning till evening!

  3. اصل بات یہ ہے کہ تکلیف ہوتی ہے کہ یہ روزے دار بھوکے پیاسے بھی سیکولر طاقتوں کے سے نہیں دبتے۔شاہین صرف ایک پروں والا پرندہ ہے اور یہ بھوکے پیاسے روزے داراللہ کے دشمنوں کو درندے دکھائی دیتے ہیں بس بھڑ جاتے ہیں مار نا سکیں تو مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ ان کیلئے دنیا ہیچ ہے۔
    روزہ رکھ کر احسان کرنے والا کوئی نام نہاد روشن خیال سیکولر خبطی تو ہو سکتا ہے مسلمان نہیں۔۔
    مسلمان اپنی ذہنی و جسمانی اصلاح کیلئے روزہ رکھتا ہے یعنی تقوے کی پریکٹس کر تا ہے۔
    جنہیں صوم و صلواۃ سے دلچسپی ہی نہیں اور دنیا کا خبط دماغ پر سوار ہے انہیں رمضان اور جمعے کی چھٹی سے کیا دلچسپی؟
    ہفتے میں دو چھٹیا ں منا کر سچر ڈے نائٹ اور سنڈے نائیٹ منا کر یہ نام نہاد مسلمان کاہل اور سست نہیں ہوتے صرف جمعے کی چھٹی کرنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔۔
    یہودیوں کو صرف ہفتے کی چھٹی کرنے سے دنیا کی معشیت کے ساتھ چلنے میں تکلیف نہیں ہوتی ان نام نہاد مسلمان کو جمعے کی چھٹی کرنے سے پریشانی ہوتی ہے کہ ہمارے اسٹاک ایکسچینج کی رقم گھٹ جائے گی۔۔
    یہودی عیسائی ہفتہ اتوار چھٹی کر سکتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں؟
    ہمارے لئے تو جمعہ عید کا دن ہے ہم چھٹی کرنا چاھتے ہیں۔۔ہم اگر کسی کے آقاوں سے ہفتےاتوار کی چھٹی کی مذہبی وضاحت نہیں مانگتے تو ہم سے کیوں پوچھا جاتا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کا شریعی حکم دکھاو؟
    ہمارے لئے جمعے کا دن مبارک ہے ،ہم چھٹی کرنا چاھتے ہیں۔

  4. Plz sister Aniqa do not underestimate spiritual power ! What happened with Abraha who came to demolish Kaa’ba!

    You have commented lazy, while Javed Ch. in his yesterday’s column considered non competent! both having same mentality. Just to degrade practical Muslims! I consider you to read the booklet “BANAO AUR BIGAR” by Syed Abul Aala Maudoodi. It will give you the concept of personal efforts in a perished society.

    More reply is useless ,as my brothers have already replied you!

Leave a Reply