’’آہ ‘‘ ناشتہ کے اختتام پر سرد آہ بھر کے مجازی خدا نے اخبار تہہ کیا اور ہماری جانب بڑھاکر حیرت زدہ کردیا۔ جواباََ ہم نے دستی پنکھا ان کو تھمایا۔ لو کے تھپیڑوںمیں ان کی آہ توبلا مبالغہ ایرکنڈیشن کے درجہ چھبیس کا خنک جھونکا معلوم ہوا۔ایسی دو چار آہیں پورے ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں، موسم گرما کو خوشگوار بناسکتی ہیں۔ خدا جانے ایسی کونسی خبر ہے جس کی تاثیر لوڈ شیڈ نگ میں پسینہ بہاتے عوام کو ٹھنڈا کردے! مارے تجسس کے صفحات سیدھے کیے تو ایک انتباہ نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ خطرہ ۱۰۰۰ وولٹ یعنی دو ہڈیوں کے بیچ کھوپڑی والا انتباہ نہیں۔ آنکھیں دونوں ہاتھوں سے مل مل کر دوبارہ بغور دیکھا کہ کہیں اشتباہِ نظر کاکمال تو نہیں ۔وائے افسوس وہ اپنی جگہ جگمگاتا رہا۔
انتباہ !!انتباہ!!کی پکاردل کی دھڑکنوں سے کیا ٹکرائی کہ مختلف چینلوں کے مقبول ترین سوپ میں دی گئی طلاق کی مانند ماحول کی ہر شے میں گونجنے لگی۔ درو دیوارلرز گئے، کوچے محلے ویراں ہوگئے۔عوامی ردعمل سے تنگ آکر پیمرا نے جان لیوا خاموشی توڑ ڈالی۔گویا برقی ذرائع ابلاغ پر ادارہ کی قینچی چلے گی!! کچھ بے یقینی کی کیفیت میں اداس میاں کو دیکھا جو ٹی وی کی سیاہ سکرین کو گھور رہے تھے۔ شاید بجلی آجائے تو بھی یہ سیاہ ہی رہے گی اس ظالم انتباہ کی روشنی میں، وہ رنگینیاں، وہ مستیاں لوٹ کے نہ آ سکیں۔ ذہن میں اس خیال کا آنا تھا کہ آنکھیں چمک اٹھیں۔ فلک شگاف قہقہہ لبوں تک آپہنچا۔ مگر بمشکل چہرے کے تاثرات پر قابو پایا۔ مناسب الفاظ تسلی کے لئے جمع کیے۔
’’ارے بے فکر رہیں ،بھلا عوام جو کچھ دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، یک لخت بند کرناکس طرح ممکن ہے؟‘‘
انھوں نے جاتے جاتے پلٹ کر تیکھی نظروں سے ہمیں دیکھا، فوراََپینترا بدلا۔
’’اجی،مردوں کے پاس وقت کہاں؟؟ غم روزگار سے فرصت کب ملتی ہے؟؟ خواتین کے روز مرہ کے مسائل مثلاََ کیا پکائیں؟؟ کیاکھائیں؟؟ کیا پہنیں؟؟ حد تویہ ہے کہ کیا سوچیں؟؟ کاحل کون دے گا؟؟‘‘۔۔۔ سوچئے ذرا!! ‘‘ انھوں اپنی دانست میں آئندہ بے رنگ ، خشک روزو شب کی ڈرائونی صورت گری کی۔
’’بہت اچھا ہے ،خواتین اپنے دماغ میں لگے زنگ کو دور کر سکیں گی،آخر پہلے بھی تو کرتی تھیں ناں‘‘
برملا جواب کیوں نہ دیتے، بھلا اپنی ماہ و سال کی کو ششیں بے کار واہموں کی نظر کیوں کرتے؟؟ ہم ٹہھرے سدا کے خوش گمان سوہمارے تصور میں تو ایسا گھراور معاشرہ کا نظارہ سج گیا۔ جہاں میڈیا کا عمل دخل باورچی خانہ سے وارڈروب تک اور کمرئہ خواب سے غسل خانہ تک ہماری ارفع تہذیب کے منافی نہ ہو۔سماجی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔ جو نانی اور نواسی کو ایک ہی لباس پہننے پر نہ اکسائے جو دادا پوتے کویکساں غذا کھانے کی ترغیب نہ دے۔
ہماری سماعتوں میں تو وقتاََفوقتاََدرج کرائی جانے والی شکایات باز گشت بن کر گونجنے لگیں ۔گاھے بحث کرنا ، گاھے مذاق اڑانا ۔کبھی نمبر دینے میں ٹال مٹول کر نا کبھی غیر معیاری غیر ملکی پرو گرام نشر ہوجانے بعد شکایت کا اندراج بے کار ثابت کرنا۔خدا جانے پیمرا کی پالیسی ہے یا آپریٹر حضرات کی رضاکار سرگرمی مگر کسی دل جلے نے خوب تبصرہ کیا،شکایت؟؟ اور مفت سہولت! چہ خوب!
دل بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے
چیں بجیں ہو کر پہلو جو بدلاتو پیمرا کونسل کے دعوت نامہ پر نگاہ جا رکی، جس سے پیوستہ انتہائی ذمہ دار افسر کی گفتگوئے ھاتف (ٹیلی فون ) ہمیں خوب یاد آئی۔ واقعی جمہوریت نے افسر شاہی کی کیا درگت بنا ڈالی! گویا ادبــ عالیہ میں معذرت کی صنف کا اضافہ کردیا موصوف نے! نہ موقع تھا نہ دستور مگر ان کی وضاحت نے پہلے ہمیں حیران پھر پریشان کیا۔ چینل مالکان کی اظہار وجوہ نوٹس پر حکم امتناعی کی ترپ چال!! بخدا ان کی آہ وفغاں مرغ بسمل سے مشابہ تھی۔ چکی کے دو پاٹوں میں پسنے کی مثال نے ایک محاورہ یاددلا یا، شاید آپ نے بھی سنا ہو۔ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا! اوپر حکام نیچے عوام کیا کریں بے چارے افسران؟؟ صد شکر کہ وہ اسلام آباد میں تھے ا ور ہم کراچی میں ورنہ اشک شوئی کے لیے ٹشو پیپر ضرور پیش کرتے، شانہ تھپک کر ہمت بندھاتے اے کاش کل ان کے تمام عذرلنگ رب ذوالجلال کی عدالت میں قبولیت کی سند پاسکیں اور مستعد ملائکہ کی گرفت سے بچ سکیں۔
دفعتاََ ہمارے کانوں میں کسی شیطان نے غالباََمحترم شفیق الرحمن کے ڈیزائن کردہ نامناسب باتیں پھونکنا شروع کردیں ، اب آپ سے کیا پردہ ۔۔۔
پیمرا پیمرا ۔۔۔۔۔کمائی کا ڈیرا۔۔۔۔۔چینل کھولے ایرا غیرا۔۔۔۔۔لہرائے ہندی پھریرا۔۔۔۔۔قوم کا ہو غرق بیڑا ۔۔۔۔۔جب عوام نے گھیرا۔۔۔۔۔حالات بدلے پینترا۔۔۔۔۔جو کی چوں چرا۔۔۔۔۔ عدالت میں سیرا۔۔۔۔۔ہائے میں مرا۔۔۔۔۔ہائے میں مرا
گو انتباہی اعلان کے دھماکے کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوا ۔ عوام اسی گو مگو میں کہ اسلام آباد سے گدگداتی خبر کا نزول ہوا۔ لب لباب یہ کہ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات میڈیا کی بے راہروی پر مارے تشویش کے کھڑی ہوگئی اور ذمہ داران کی گو شمالی کی۔ پیمرا والے بے بسی سے ہکلا کے رہ گئے۔مگر سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی نے کندھے اچکا کر اشتہارات کو منبعِ وسائل قرار دیا۔سو کمیٹی نے ان سے ملاقات کا ارادہ عدالت میں رکھاہے۔ چلئے اٹھئے قارئینِ کرام!! چلتے ہیں قائمہ کمیٹی کے پیچھے پیچھے۔۔۔
فیس بک تبصرے