آٹھ اپریل کو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب نے انڈیا کا ایک نجی دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد ایک منت پوری کرنے کے لئے حضرت خواجہ غیرب نواز رح کے مزار پر حاضری دینا بتایا گیا تھا۔ زراری صاحب نے جو بقول ان کے ”نجی دورہ “ تھا اس دورے میں ان کے ہمراہ ان کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری بھی تھے جبکہ ان کی کابینہ کے کئی افراد بھی ان اس موقع پر موجود تھے۔ اس دورے میں انہوں نے خواجہ صاحب کے مزار پر حاضری کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ایک مختصر ون ٹو ون ملاقات بھی کی تھی۔
خیر جناب تو اس نجی دورے “ میں انہوں نے خواجہ صاحب کے مزار پر حاضری کے موقع پر مزار کے لئے دس لاکھ ڈالر چندے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ یہ اعلان بھی غیر متوقع تھا اور اس میں صدر صاحب نے بہت ہی زیادہ کشادہ دلی اور سخاوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی چی میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ہمیں بھی بڑی حیرت ہوئی کہ ایک ایسی قوم جو قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے، جہاں غربت ہے، بے روزگاری ہے، لوگ خود کشیاں کررہے ہیں۔ وہاں کے صدر صاحب نے اتنی خطیر رقم کا اعلان کردیا۔
خیر صاحب صدر صاحب تو وہاں اپنی واہ واہ کروائی اور اسی دن شام کو واپس پاکستان پہنچ گئے۔ گذشتہ دنوں ایک بھارتی شہری نے انڈین ایکٹ” رائٹ تو انفارمیشن “ کے تحت مزار شریف کی انتظامیہ سے اس چندے اور اس کے اخراجات کی بابت دریافت کیا، اس کے جواب میں مزار کی انتظامیہ نے جو خط لکھا اس میں واضح طور پر کہا کہ آٹھ اپریل کو صدر زرداری صاحب نے دس لاکھ ڈالر چندے کا اعلان کیا تھا لیکن آج آٹھ مئی ( جب خط لکھا جارہا تھا) تک کوئی رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔
ادھر پاکستان میں بھی دس لاکھ ڈالر کے چندے کی بابت کئی سوالات کئے گئے سب سے بنیادی سوال جو اپوزیشن کی جانب سے اٹھایا گیا تھا وہ یہ کہ چونکہ صدر زرداری صاحب کا یہ نجی دورہ تھا اور یہ اعلان بھی انہوں نے سرکاری نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں کیا تھا تو کیا یہ دس لاکھ ڈالر صدر صاحب اپنی جیب سے ادا کریں گے یا سرکاری خزانے سے یہ رقم ادا کی جائے گی؟ ایک ماہ تک اس حوالے سے گومگو کی کیفیت کے بعد آخر کار صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بالآخر یہ تسلیم کیا کہ یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کی جائے گی۔صدرِ مملکت یہ رقم اپنی جیب سے ادا نہیں کریں گے۔
واہ زرداری صاحب! دنیا والوں کے ساتھ تو آپ فراڈ کرتے ہی تھے، دنیا والوں کو تو اپنی سیاست سے گھما ہی رہے تھے لیکن یہ کیا کہ بزرگان دین کے ساتھ اور ان کے نام پر بھی اپنے مکروہ عزائم کی تکیمل سے باز نہیں آئے۔کہتے ہیں کہ نانی نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور بھی برا کیا۔محترم ذرداری صاحب اول بات تو یہ کہ بزرگان دین آپ کے میرے، یا کسی کے بھی روپے ، پیسے ، نذر نیاز کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ تو عقیدت مند اپنیجانب سے عقیدت،محبت کے اظہار اور بزرگان دین سے وابستگی کے باعث ان کے مزاروں پر چندے، نذر نیاز چڑھاتے ہیں ورنہ تمام ہی بزرگان دین کی ذات بابرکت ان چیزوں کی محتاج نہیں ہے۔خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی ذات شریف کو بھی نہ تو آپ کے اس جھوٹی شان و شوکت سے کوئی واسطہ ہے اورنہ ہی آپ کے اس جھوٹے اعلان سے ان کو کوئی فرق پڑے گا، ارے زردار ی صاحب یہ اولیاءکرام تووہ ہیں کہ بادشاہ وقت بھی ان سے ملنے ک لئے ترستے تھے، ان کے لئے اشرفیوں، درہم و دیناروں کی ہر وقت بارشیں ہوتی رہتی تھیں لیکن اللہ کے یہ برگزیدہ بندے اس مال دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے، بادشاہ وقت بھی جب ان اولیاءکرام سے ملنا چاہتا تھا تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی کسی ولی اللہ نے کبھی بادشاہ کے دربار میں اس غرض سے قدم نہیں رکھا کہ بادشاہ وقت نے بلایا ہے بلکہ بادشاہ وقت خود چل کر ان کے پاس حاضری دینے آتے تھے ( ہاں تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ جب کبھی بادشاہوں کو نصیحت کرنی ہوتی تھی ، ان کو اللہ کی نافرمانی سے روکنا ہوتا تھا تو اس وقت یہی ولی اللہ خود بادشاہ کے دربار میں جاکر بے خوفی کے ساتھ کلمہ حق بلند کرتے تھے )اصل معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی نظروں میں اب پاکستان کا ایک امیج یہ بھی بنے گا کہ ان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لوگ مقدس ہستیوں تک کے نام پر سیاست چمکاتے ہیں۔
جب آپ نے اعلان کرہی دیا تو فوری طور پر اس پر عمل درآمد کراتے اور یہ رقم مزار کی انتظامیہ کے حوالے کرتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ۔دوسری بات کہ یہ ساری رقم آپ کو اپنی جیب سے ادا کرنی چاہئے سرکاری خزانے سے نہیں۔میرا محدود مطالعہ اور میرا ناقص علم یہ بتاتا ہے کہ کبھی بھی اولیاءکرام نے خلق خدا کو تکلیف دے کر کوئی راحت حاصل نہیں کی بلکہ خود تکلیفیں اٹھا کر خلق خدا کو راحتیں فراہم کی ہیں ۔ یہاں ایک ایمان افراز واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بات کو سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہوجائے۔
بغداد میں ایک مشہور صوفی بزرگ ابن ساباط رح ہوا کرتے تھے۔ درویشی اور فقر اختیار کرنے سے پہلے آپ بغداد کے مشہور چور تھے، اور اسی باعث ان کا ایک ہاتھ بھی قلم کردیا گیا تھا۔ ان کی توبہ کا واقعہ بھی ہی ایمان افروز ہے۔ مختصراً اس کا بیان یہ ہے کہ ایک دن ابن ساباط ایک گھر میں چوری کے لئے گئے، ابھی مکان کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ ایک اور فرد کمرے میں داخل ہوا، یہ گھبرا گئے لیکن نو ارد نے کہا کہ گھبراﺅ نہیں ایسا کرو پہلے کچھ کھا پی لیتے ہیں ، یہ کہہ کر نوارد نے مکان کے باورچی خانے سے دودھ کا ایک پیالہ بھر کر ان کو دیا، اب یہ سمجھ گئے کہ یہ بھی کوئی میرا ہم پیشہ چور ہے اور ہم غلطی سے ایک ہی مکان میں چوری کے لئے داخل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے نوارد کو سختی سے کہا کہ دیکھو اس مکان میں پہلے میں داخل ہوا ہوں اس لئے زیادہ حصہ میرا ہوگا، نوارد نے کہا کہ کوئی بات نہیں تم سارا سامان لے جانا۔ اس کے بعد سامان سمیٹنے کا مرحلہ آیا تو ابن ساباط کو ایک ہاتھ کی وجہ سے مشکل پیش آئی، تو نوارد نے وہ سامان بھی اکٹھا کرکے اس کے ساتھ گٹھری باندھی، گھٹری بہت وزنی تھی ابن ساباط سے اٹھائی گئی تو انہوں نے نوارد کو کڑک کر کہا کہ یہ گھٹری میرے ساتھ لیکر چلو، نو وارد نے بلا چوں چراں وہ گھٹری اٹھائی ، گھٹری بہت بھاری تھی اور نوارد بہت کمزور اور ضیعف تھا۔ بہرحال گرتے پڑتے ابن ساباط کے ٹھکانے تک پہنچے۔ وہاں پہچن کر نوارد نے کہا کہ بھائی مجھے اس سامان میں سے کوئی حصہ نہیں چاہئے وہ مکان بھی میرا ہی تھا۔ یہ سامان میری طرف سے تم رکھ لو۔ابن ساباط کہتے کہ میں حیران رہ گیا، جبکہ نوارد اندھرے میں غائب ہوگیا۔ صبح ابن ساباط دوبارہ اسی محلے میں اسی مکان پر پر پہنچے کہ دیکھوں تو سہی یہ کس سیٹھ، تاجر یا مالدار کا مکان ہے جس نے اپنا سامان خود ہی مجھے دیدیا ۔ لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ کسی دنیا دا رکا مکان نہیں بلکہ حضرت خواجہ جنید بغدادی رح کا مکان ہے اور رات آپ نے خود ہی ابن ساباط کو سارا سامان دیدیا تھا۔ ابن ساباط کے دل پر اس واقعے نے اتنا اثر کیا کہ اسی وقت خواجہ جنید بغدادی رح کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور سچے دل سے توبہ کرلی۔ ابن ساباط رح فرماتے ہیں کہ سزا کی سختیاں ، قید و بند اور ہاتھ قلم کرنے کے باوجود میں نے کبھی توبہ نہیں کی تھی لیکن ایک سچے مرد مومن اور ولی اللہ کے حسن سلوک نے مجھ سے توبہ کروائی۔
تو زراری صاحب اولیاءکرام آپ کی اس جھوٹی شون و شوکت کے طلب گار نہیں ہیں انہوں نے تکلیفیں اٹھا کر خلق خدا کو آسانیاں فراہم کی ہیں۔ اپنی گندی اور مکروہ سیاست میں اولیاءکرام کو شامل نہ کریں، ساڑھے چار سال تک تو آپ نے ساری اپوزیشن اور ساری اتحادی جماعتوں کو بے وقوف بنا کر گزار لئے لیکن ایسا نہ ہو کہ بزرگان دین کے ساتھ یہ چھچورا مذاق کرنے کی پاداش میں کہیں آپ کا برا وقت نہ شروع ہوجائے۔ اس لئے توبہ کریں اور جس رقم کا آپ نے اعلان کیا ہے اس کو اپنی جیب سے ادا کریں سرکاری خزانے سے نہیں اور آئندہ بزرگان دین کے نام پر سیاست کرکے ان کے متعقدین کے جذبات سے نہیں کھیلیں۔
دعا کرو سب مل کے پاکستان کے لیے اللہ بچائے پاکستان کو۔