اوربالآخر انتظار کے بعد شاہکار فیصلہ آگیا۔
تعلیمی اداروںمیں موسم گرماکی چھٹیاں ٹال مٹول کے بعدسکولوں کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا!!
قوم کی شیرازہ بندی! تاریک مستقبل! یہی تو عنوان ہوسکتا ہے وزارت تعلیم کی اجازت کا! تعلیم جو کسی بھی حکومت کی ترجیح نہ تھی۔ مگر یہ جمہوری حکومت آدھا تیتر آدھا بٹیر کی پالیسی پر گامزن ہے سو قوم کو، والدین کو، اور نسل نو کو ایک بار پھر تذبذب میں مبتلا کردیا۔ قومی سلامتی کے حساس موضوع کو چٹکیوں میں اڑا کر تعلیم جیسے بنیادی اور نظریاتی ستوں میں شگاف مزید گہرے کیے گئے۔
سال گذشتہ اس فیصلہ کا اعلان واپس لینے کی خفت اٹھائی مگر اس سال بھی وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق پہلے تو کوئی بات طے نہ ہوئی اور پھر سمری پر دستخط کی سیاہی سوکھی بھی نہ تھی کہ معلوم ہوا کہ بہت سے اسکول پہلے ہی بند ہوچکے ہیں گویا بروقت فیصلہ نہ کرکے اسکول انتظامیہ کی من مانی کی راہ ہموار کی گئی۔ کہاں ہے حکومت کی رٹ؟ اور وزارت تعلیم کے لال بھجکڑ دانشور؟؟ ذریعہ تعلیم، طریقہ تدریس کے انتخاب کی اجازت نے ہمارے معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزارا اور اب چھٹیوں کے معاملے کو انتہائی بھونڈے پن سے نمٹا کر انتشار کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم دھام سے نکلے
دینی مدارس کے نصاب کوکڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے اھل علم حضرات اس کے نظام پر غور وفکر کریں کہ ملک بھر کے مختلف مسالک کے مدارس میں یکساں نصاب کے علاوہ تعطیلات بھی متعین ہیں۔ جبکہ دیگر نام نہاد غیرملکی نظام کے تحت چلنے والے اداروں میں ذہنی غلاموں کی تیاری انہی کے شیڈول اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی جاتی ہے۔
98% مسلمان آبادی والی مملکت جمہوریہ میں کس کی مجال ہے کہ ماہ رمضان کے تقدس سے انکار کرے اس کی برکتوں کو سمیٹنے کے بجائے انتشار کا ارادہ باندھے؟ مگر حکومت کے نااہل مشیران کے پیش نظر تاخیری حربوں سے مملکت پاکستان کو تمسخر کا نشانہ بنانا ہے۔ بے یقینی کو فروغ دینا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزارت تعلیم اس پر سنجیدگی سے غور کرتی اور موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان 15 جون سے کردیتی۔ یوں تعلیمی اداروں میں چھٹی کا شیڈول اس معاملے میں یکساں رہتا اور مسلمانان پا کستان ماہ رمضان اور عید الفطر کے باعث تعلیمی تعطل سے دوچار نہ ہوتے مگر ان منصو بہ سازوں کی اولادیں جن تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ان کا ایجنڈا تو کچھ اور ہی ہے!
اے کاش ہمارے ذمہ داران اپنے قول و فعل سے اس قوم کی یکجائی اور یکسوئی کا بلند فریضہ انجام دے سکیں.
اسکولوں میں تو ذہنی غلام تیار ہو رہے ہیں اور مدارس میں ذہنی حکمران شاید. جو خیالی پلائو پکاتے ہوئے ساری دنیا کو فتھ کر چلیں گے.
اب اصل بات کی طرف آئیے. اسلام ڈیڑح ہزار سالہ پرانا مذہب ہے. ڈیڑح ہزار سال پہلے جب عرب مسلمان ہوءے تو مسلمانوں نے رمضانوں میں جنگیں بھی لڑی ہیں. اور عرب کے ریگستان میں ہر کام کیا جاتا تھا رمضان میں. لیکن آج کے پاکستان میں جب مسلمان دوبارہ سے مسلمان ہوئے ہیں آپکی کوششوں سے تو رمضآن میں چھٹی چاہتے ہیں. کیا یہی آپکے پرکھوں کی تہذیب تھی.
گرمیوں کی چھٹیاں بھی کوئ تین سو سال پرانی تہذیب کا ھصہ ہیں. اس دوران ہمارے آباءو اجداد سے لیکر ہم تک کسی کو خیال نہیں آیا کہ چھٹیاں دراصل رمضان میں ہونی چاہئیں.ہمارے آباء تو یہ سمجھتے رہے کہ زندگی دراصل سختیوں سے گذرنے ہی کا نام ہے.
اب نءے مسلمانوں کو رمضان میں چھٹیاں چاہیں کیونکہ انکے یہاں انسانی پلاننگ کوئ چیز نہیں ہوتی بلکہ خدا کی پلاننگ ہی اول آخر ہوتی ہے. کیا گرمیوں کی چھٹیوں کا شیڈول قرآن اور احادیث سے ثابت ہے.
جب رمضان اپریل میں ہونگے تو کیا گرمیوں کی چھٹیاں اپریل میں ہوا کریں گی.
اگر مدارس ذہنی غلام نہیں حکمران تیار کر رہے ہیں تو آپ کو تو موجودہ طرقیہ ء تعلیم کی چھٹی کرانے کی کوشش کرنی چاہئیے. ویسے کیا آپکے بچے مدرسے میں پڑھتے ہیں یا غلام بنانے والے اسکولوں میں.
آپکی گذارشات سے مکمل اتفاق ہے۔
رمضان اگر اس بار گرمیوں میں آرہا ہے تو ایسا شیڈول ترتیب دیا جاسکتا تھا کہ رمضان کے روزے اور عید کی چھٹیاں گرمیوں کی چھٹیوں میں آجاتے۔
ہمارے ارباب اختیار کو تعلیم کی پرواہ نہیں ہے رمضان کی تو ہر گز نہیں۔
یہ ہمارے پیارے نبیْ کی سنت رہی ہے کہ دو راستوں میں سے آسان اور مناسب راستے کا انتخاب کیا کرتے تھے تاکہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین پر چلنے میں اور زندگی کے مسائل سے نپٹنے میں کم سے کم دشواری ہو.. اس سال اگر گرمیوں کی چھٹیاں اور ماہ رمضان کا با برکت مہینہ نزدیک ہیں تو بہترین فہم کا تقاضہ یہی ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کے راستے میں سہولت فراہم کی جائے.. اگر مناسب انداز میں چھٹیوں کا شیڈول مرتب کیا جائے گا تو والدین اور بچے دونوں مکمل خشوع و دل جمعئی کے ساتھ رب کی رضا کے حصول میں مشغول ہوسکیں گے اور حکومت بھی اس سہولت کو فراہم کرنے کا اجر سمیٹے گی…!!
میری بھی یہ ہی رائے ہے کہ اس بار گرمیوں کی تعطیلات جولائی+اگست کی ہونی چاہیئے تھیں تاکہ اساتذہ ، والدین اور طلبہ کے لئے رمضان کا ماہ مبارک سکون اور عبادات میں خشوع و خضوع سے گذرتا لیکن افسوس کچھ اسکولز میں جون سے تعطیلات ہوگئیں اور کچھ میں جولائی سے ہونگی . ایک ہی گھر کا ایک بچہ اسکول جارہا ہے باقی تین کی چھٹیاں ہیں . عجیب متضاد فیصلہ ہے .
اصل مسئلہ چھٹیوں کا رمضان میں ہونے سے زیادہ اس بات کا ہے کہ ہم فیصلے کرنے میں دیر کردیتے ہیں اور ہمارے قومی معاملات میں یکسانیت نظر نہیں آتی ۔جو بحیثیت قوم کہ ہمیں مطلوب ہے۔