بارہ مئی 2004ء اور بارہ مئی 2007ء پاکستان بالخصوص کراچی کی تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں ۔ وہ دن جب اقتدار اور طاقت کے نشے میں چور ایک دہشت گرد گروپ نے سر عام بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ بارہ مئی 2007ء تو سب لوگوں کو یاد ہے مگر بارہ مئی 2004ء بہت کم لوگوں کو یاد ہے۔ بارہ مئی 2004ء کو کراچی میں قومی اسمبلی کے تین اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخابات ہورہے تھے۔لیکن اصل معرکہ حلقہ این اے 246ء عزیز آباد کی نشست پر تھا کیوں کہ جنرل الیکشن 2002ء میں ایم ایم اے کے امیدوار راشد نسیم نے یہاں سے 32 ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ عزیز آباد کے حلقے سے ایم ایم اے کے امیدوار کو بتیس ہزار سے زائد ووٹ ملنا ایم کیو ایم کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اس لئے انہوں نے پوری کوشش کی کہ یہاں اپنا مکمل کنٹرول کرکے جعلی ووٹ بھگتائے جائیں تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ یہاں ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی دوسری قوت موجود نہیں ہے۔ لیکن ایم ایم اے نے بھی اس بار مکمل تیاری کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا تھا اور جعلی ووٹنگ کو ناکام بنانے کا عزم کررکھا تھا۔ اور ایک بجے تک جب ایم کیو ایم کی پوری کوشش کے باجود جعلی ووٹنگ نہ ہوسکی تو پھر انہوں نے کھلم کھلا دہشت گردی شروع کردی اور سب سے پہلے غریب آباد کے علاقے میں ایم ایم اے کے پولنگ کیمپ پر حملہ کرکے براہ راست فائرنگ شروع کردی۔ اس کے بعد سراج الدولہ کالج، پھر شاہ ولایت اسکول اور سب سے آخر میں لیاقت آباد چار نمبر کے پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرکے جعلی ووٹ بھگتائے گئے اور پھر ایک سیٹ حاصل کرنے کے لئے جماعت اسلامی کے نو افراد کو قتل کیا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آٹھ افراد کو تو پولنگ اسٹیشن اور پولنگ کیمپ پر حملہ کرکے قتل کیا گیا لیکن لائنز ایریا میں الخدمت کے کونسلر عشرت عرف پُتن بھائی کو گھر سے باہر بلا کر گولی ماری گئی تھی۔
تین سال کے بعد 2007ء میں ٹھیک بارہ مئی والے ہی دن ایک بار یہی ایم کیو ایم تھی اور بیگناہوں کے تڑپتے لاشے تھے، لیکن 2004ء اور 2007ء میں ایک بہت بڑا فرق تھا۔ 2004ء میں مرنے والوں کا تعلق صرف جماعت اسلامی سے تھا، تین سال پہلے تک میڈیا اتنا ایڈوانس نہیں تھا اور تین سال پہلے تک جنرل مشرف اپنی مقبولیت کی انتہاؤں پر تھے۔ اس وقت انہوں نے مذہبی و جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس کے باعث وہ مغربی لابی اور سیکولر ازم کے حامی تنظیموں اور پریس کی آنکھ کا تارا تھے اس لئے جماعت اسلامی کے ان نو افراد کی شہادت کے دکھ کو صرف جماعت اسلامی نے ہی محسوس کیا ، نہ پریس نے اس کو ہائی لائٹ کیا، نہ کسی تنظیم نے اس بارے میں زیادہ بات کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کسی اینکر پرسن نے اس سانحے کو موضوع گفتگو بنانے کی زحمت کی۔
لیکن 2007ء میں معاملہ کچھ اور تھا۔ نمبر ایک جنرل مشرف اپنی مقبولیت کھوتے جارہے تھے۔ نمبر دو یہ کہ میڈیا بہت حد تک آزاد اور ایڈوانس ہوچکا تھا۔ تیسری بات یہ کہ مقتولین و مجروعین کا تعلق صرف جماعت اسلامی سے نہیں تھا بلکہ اس دفعہ سیکولرازم کی حامی جماعتیں( اے این پی،پی پی پی ) بھی ایم کیو ایم کی دہشت گردی کا نشانہ بنی تھیں اس لئے بھی یہ معاملہ بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوا، میڈیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے جذبے کے تحت قتل و غارت گری کے سارے مناظر براہ راست نشر کردیئے اور اس طرح پورے ملک نے ایم کیو ایم کا وہ اصلی چہر ہ دیکھ لیا جو پوری دنیا سے چھپا ہوا تھا۔اس سانحے کے فوری بعد جب میڈیا نے اس حوالے سے اپنے پروگرامات میں عوام کی براہ راست ٹیلفون کالز کا سلسلہ شروع کیا توایم کیو ایم کے مینڈیٹ کی قلعی بھی کھل گئی، ٹی وی چینلز، ایف ایم چینلز، اخبارات میں مراسلوں کے ذریعے جس طرح ایم کیو ایم کی دہشت گردی ،غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھائی گئی اس چیز نے ایم کیو ایم کو خوفزدہ کردیا اور پھر یہ ہوا کہ ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز اور مذاکروں میں براہ راست کالز کا سلسلہ بند کردیا گیا جو کہ آج تک بند ہے ( آپ سمجھ تو گئے ہونگے )۔
بارہ مئی کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کا گورنر تھا ( گورنر یعنی وفاق )، مشیر داخلہ بھی ایم کیو ایم کا تھا( وزیر یا مشیر داخلہ یعنی رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے ماتحت تھے )،سٹی گورنمنٹ بھی ان کے قبضے میں تھی ( یعنی شہر میں اگر کہیں کنٹینر لگائے جارہے تھے تو سٹی گونمنٹ کو پتا کیوں نہ چل سکا)، وزیر اعلیٰ بھی ایم کیو ایم کا حمایت یافتہ تھا اور پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت بھی انکے پاس تھی ( سارے کنٹینر کے پی ٹی سے نکلوائے گئے )۔جبکہ بارہ مئی کو پورے دن کی قتل و غارت گری کے بعد جنرل مشرف نے لاہور میں جلسۂ عام میں اس دہشت گردی کی مذمت کے بجائے ایم کیو ایم کو شاباش دی اور اس ساری قتل و غارت گری کو ’’عوام کی طاقت ‘‘ قرار دیا۔
اس سانحے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے اس پورے معاملے کا از خود نوٹس لیکر سارے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیدیا لیکن جب کورٹ کی کارروائی شروع ہوئی تو ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے ایک بار پھر عدالتوں کا گھیراؤ کرلیا، وکلاء کو زدوکوب کیا گیا اور اس واقعے کی تحقیقات ، تفتیش،عدالتی کارروائی نہیں ہونے دی اور پھر ایک اور سانحہ ہوا جب دہشت گردوں نے 9 اپریل2008ء کو وکلاء کے چیمبر میں آگ لگا کر وکلاء کو زندہ جلا دیا گیا، جس کے بعد اس معاملے کی تحقیقات سرد خانے کاشکار ہوگئیں اور آج بھی اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
بارہ مئی 2004ء اور بارہ مئی 2007ء پاکستان بالخصوص کراچی کی تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں ۔ وہ دن جب اقتدار اور طاقت کے نشے میں چور ایک دہشت گرد گروپ نے سر عام بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔
بارہ مئی 2004ء اور بارہ مئی 2007ء کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
بارہ مئی کے واقعات اعلیٰ عدالتوں کی کارکردگی کے لئے بھی ایک سوالیہ نشان ہیں ؟؟
کیا بارہ مئی کے متاثرین کو انصاف ملے گا؟؟
سانحۂ بارہ مئی کے ذمہ داران اس دنیا میں تو شائد بچ جائیں، یہاں تو شائد چرب زبانی، جھوٹ، اور پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرلیں،یہاں تو شائد ان کے خلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہ ہو، یہاں تو شائد وہ سزا سے بچ جائیں لیکن وہ یاد رکھیں ایک عدالت اوپربھی ہے جہاں کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہوگی۔وہاں کسی گواہی کی ضرورت نہ ہوگی۔
حالانکہ کے تم پر نگہبان مقرر ہیں،عالی قدر ( تمہاری باتوں کے ) لکھنے والے، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں ۔( سورہ انفطار آیت نمبر 10,11,12)
اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔( سورہ الزلزال آیت نمبر 6,7,8)
مگر مچھ کے آنسو تو میں نے دیکھے نہیں لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ 12 مئی 2012ء کو ایم کیو ایم والوں نے 12 مئی کو ہلاک ہونے والوں کا نام لے کر قرآن خوانی کی محفل سجائی