42 افراد کی جان لینے کے بعد لیاری آپریشن ختم کردیاگیا۔ پیپلزپارٹی کا گڑھ لیاری سات دن تک جلتا رہا۔ محصور عوام شدید گرمی میں بجلی اور پانی سے محروم کردیئے گئے ۔گولیاں چلتی رہیںراکٹ برستے رہے لاشیں گرتی رہیں اور عوام کی منتخب اسمبلیاں کہیں کوئی شور کوئی اضطراب کوئی احتجاج نہیں؟ہر ایک اپنے مفاد ات کے لئے گورکھ دہندوں میں الجھاہوا۔کچھ جرائم پیشہ لوگوں پر قابو پانے میں حکومت اتنی بے بس کہ 10 لاکھ سے ذیادہ لوگوں کو اسکی سزا دی گئی! کوئی کہتا ہے کہ اصل مسئلہ بہتہ کا ہے کوئی کہتا ہے کہ لیاری امن کمیٹی والے لیاری سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیے ٹکٹ مانگ رہے تھے جس پر سمجھوتہ نہ ہوسکا۔
مسئلہ جو بھی ہو گینگ وار کو جس نے بھی راکٹ لانچر اور طیارہ شکن توپیں فراہم کی ہوں، نعمان کی بین کرتی ماں کواسکا کچھ علم نہیں۔ 20 برس کا نعمان جو صبح سویرے اپنا رکشہ لیکر نکل کھڑا ہوتا تھا بیوہ ماں اور گھر کے تین افراد کا وہ واحد کفیل تھااس دن کیسے جاتا کہ گولیوں کی گھن گرج نے تو میدان جنگ کا سماں باندہا ہوا تھا۔اسکے ایک کمرے کا گھر جسکے باہر نسبتاًاونچا سا چبوترہ تھا اس پر ایک چولھا رکھا تھا اور کچھ چھوٹے برتن وہ اس گھر کا باروچی خانہ تھا جسکی سمت اشارہ کرتے ہوئے نعمان کی ماں بولی میں یہاں بیٹھ کر چائے پیالی میں ڈال کر اسکو آوازدے رہی تھی کہ ناشتہ کرلے اس نے چائے پاپے پر اک نظر ڈالی اور بولا ’’بہت تیز فائرنگ ہے بس گلی کے کونے تک جائونگا دیکھ کر آتا ہوں اور بھی بہت لوگ گلی کے کونے سے دیکھ رہے تھے جیسے ہی اس نے ذرا باہر سر نکالا اک گولی اس کے سر سے آرپار ہوگئی۔ وہیں دم توڑ گیا اس ماں کا لاڈلا جس نے چند روز پیشتر اس اکلوتے کمرے کو خود پینٹ لا کر وائٹ واش کیا تھا۔ نعمان کی ماں بولی’’ محلے کی عورتیں اس سے پوچھنے لگیں کیا شادی کا ارادہ ہے جو گھر کو سفیدی کررہے ہو اس پر وہ جھینپ گیا‘‘ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اسکے ہاتھوں سے پینٹ کئے ہوئے صاف ستھرے کمرے میں سینکڑوں عورتیں اسکی بیوہ ماں کے پاس اسکے دلاسے کے لئے جمع ہونگیں۔ نعمان کی ماں نے لہجے میں ڈھیروں حسرتیں سمیٹے ہوئے ہم سے سوال کیا ’’گینگ وار کہاں ہیں؟‘‘میری تو ساری عمر اس لیاری میں گزری کوئی ماں کہتا ہے کوئی خالہ محلے کی ہر لڑکی سب کے لئے بہنوں جیسی ہے۔ میں اپنی جوان بیٹی کو تنہا چھوڑ کر رنچھوڑ لائن اپنی بہن کے پاس دو تین راتیں گزار آتی مجھے کبھی کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا کہ میں نہ سہی پورا محلہ اسکی حفاظت کریگا۔ ’’خدا کی قسم ہم نے کبھی اپنے گھر کے دروازے بند نہیں کئے! ہمیں کسی کا کوئی خوف نہیں تھا کبھی!‘‘ نعمان کی ماں کی باتیں سن کر قریب بیٹھی سب عورتیں چہ میگوئیوں میں ایکدوسرے سے لیاری کے امن و آتشی کے دنوں کی باتیں کرنے لگیں جہاں اب بکتر بند گاڑیوں کی گھن گرج ہیں اور فضائیں ایک طرف فائرنگ کے شور اور دوسری جانب ان آہوں اور سسکیوں سے بوجھل ہیں اور سسکیوں کے درمیان مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
غلام دستگیر کی ماں کے۔ اسکا شکن آلود ڈوپٹہ بھگ چکا تھا ان آنسوئوں کو جذب کرتے کرتے اسکے دکھوں کی المناک داستان کے سامنے لغت ہاتھ جوڑ ے کھڑی تھی کہ تسلی کا کوئی لفظ دستیاب نہیں تھا وہاں جو اس ماں کے زخموں کا پھایہ بن سکے۔ دونوں ہاتھ سینے کی جانب لے جاتے ہوئے وہ بولی ’’جیسی میں ہوں نہ کالی کلوٹی وہ میرا بیٹا بھی نہ لگتا تھا وہ تو کھلتے گلاب جیسا تھا۔ ایسا رنگ روپ تھا اسکا کہ محلے کی عورتیں مجھے چھیڑتیں کہ’’کہاں سے چرا کر لائی ہے اسے؟‘‘ اﷲ نے اسے شکل و صورت ہی نہ دی تھی من کا بھی ویسا ہی اجلا تھا وہ۔ بس آٹھ برس کا تھا وہ جب اس کے باپ نے مجھے چھوڑ کر دوسری شادی کرلی کیسے پالتی میں 4 بچوں کو؟ سارا سارا دن اپنی بد نصیبی پر روتی رہتی اک دن وہ بولا’’ ماں میں ہوں اس گھر کا باپ بس اب تو نہیں روئے گی کبھی نہیں روئے گی‘‘ پھر اس نے ریڑھی لگائی محنت مزدوری کی میں نے بھی اسکا ہاتھ بٹا یا اسکو پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ پڑھتا بھی رہا اسکول پاس کر لیا۔ایک سیکورٹی ادارے میں اچھی ملازمت مل گئی بس بیس برس کا تھا وہ میں نے شادی کردی اس سے قبل اس نے اپنی دو بہنوں کی بھی شادی کی وہ کہتا تھا ’’ماں میں بھٹی میں پک پک کر کندن ہوگیا‘‘غلام دستگیر کی ماں یادوں میں کھوئی کہ اب یہی یادیں تو بچی ہیں بس اس کے پاس کہ یکدم اسکی بیٹی ایک فریم والی بڑی تصویر کو کرسینے سے لگا کر شاید سینے سے اٹھنے والے درد کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر آستین سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی فائرنگ بہت ذیادہ تھی اُس روز۔ مگر ابّوکو چھٹی نہیں مل سکتی تھی دادی نے کہا آج نہ جائو تو ابّو بولے ’’ جس دن ماں کی دعائیں لیکرنہیں جائونگا پلٹ کر نہیں آئونگا‘‘ میں تو ماں کی دعا لیکر جاتا ہوں وہ گھن گرج میں بھی ڈیوٹی پر چلے گئے بیٹا بولا ابّو کو وردی میں دیکھ کر شک کرتے ہوئے کوئی گولی نہ مار دے وہ گھر کے کپڑے لیکر قریب محلے سے باہر اک دکان میں چلا گیا ابّو کو کپڑے تبدیل کروا کر گھر لایا کچھ بھی نہ ہوا۔ کہ اتنے میں عصر کی اذان ہوگئی دادی نے کہا نماز کو مت جائو بہت فائرنگ ہے ابّا بولے’’ اماّں سلامتی تو اﷲ کے گھر میں ہے مسجد جانے سے نہ روک‘‘ پھر نماز پڑھ کر مسجد کے باہر چبوترے پر نکل کر بیٹھے ہی تھے کہ فوراً سامنے سے گولی آئی میرے ابو ّ کے دماغ کے آر پار ہوگئی ہمیں بتایا ابوّ کے ٹانگ میں گولی لگی ہے ہم دعائیں کرنے لگے کہ اتنے میں کچھ لوگ روتے دھوتے ہمارے گھر میں داخل ہو گئے تب ہم سمجھے کہ ہمارے ابوّ کو ظالموں نے مار ڈالا ہے۔ ہم نے ابوّ کا آخری دیدار بھی نہ کیا انکو ایدھی سے کفنانے کے بعد سیدھا قبرستان لے گئے کیونکہ خون بہت بہہ رہا تھا بند نہیں ہو رہا تھا۔ شہید ہے نا باجی۔ میرے ابوّ شہید ہیں! اسکی بیٹی جس نے تصویر دونوں ہاتھوں میں مظبوطی سے پکڑ کر سینے سے لگائی ہوئی تھی اسکی سسکیاں چینخوں میں بدلنے لگیں کہ غلام دستگیر کی ماں گویا ہوئی۔ میں لمبی عمر کی دعا دیتی تھی اسے تو کہتا تھا ’’ماں لمبی عمر اچھی نہیں ہوتی مجھے یہ دعا نہ دیا کر مجھے شہادت کی دعا دیا کر‘‘ہاں ٹھیک کہتا تھا وہ لمبی عمر اسے اچھی نہیں لگتی تھی اسی لئے تو 47 برس کی عمر میں بوڑھی ماں کو تنہا چھوڑ گیا۔ میں مر جاتی وہ میری بخشش کی دعا کرتا آہ میں بڑھاپے میں جیو نگی اپنے جوان بیٹے کی بخشش کی دعا کے لئے۔‘‘اور اب لگتا تھا کہ اس ماں کا سینہ غم سے پھٹ جائیگا۔وہ ماں جسکا بیٹا کسی گینگ وار کا حصہ نہیں تھا جسکی کسی سے کوئی سیاسی وابستگی نہیں تھی جو کسی اسمبلی کی سیٹ کا طالب نہیں تھا۔ اندہیرے کمرے میں بس سسکیاں تو بجنے لگی تھی کہ اسکی باشعور بیٹی پھر گویا ہوئی۔ ’’باجی میرے اباّ جیسے بہت سے بے گناہ ان ظالموں نے مار ڈالے ہیں یہ کس کو فتح کرنے آئے ہیں یہ بکتر بند گاڑیاں، توپیں اور ٹینک کی گھن گرج سے ہمارے گھر لرز رہے ہیں۔ ہمیں تو دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے بعد مسجدوں میں تالے ڈال دیئے گئے۔ جب مغرب کی نماز کو لوگ گئے تو مسجد میں موٹے موٹے تالے لگے ہوئے تھے یہودی یہ کام کرتے تو صبر آجاتا۔ اچھا ہوا میرے ابّو یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی اﷲ کے پاس چلے گئے وہ تو ہمیشہ اسی مسجد میں جاتے تھے شاید مسجد میں تالے کا دکھ وہ برداشت نہ کر پاتے!!
جب گھر سے باہر نکل کر ہم گلی کے آخری کونے پر بنی مسجد کے سامنے سے گزرے تو علاقہ میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ جہاں سے ’’مفتوح‘‘ فوجیں ابھی ابھی رخصت ہوئی تھیں گویا۔ پورے روڈ پر دائیں جانب کھڑے رکشوں کے ٹوٹے ہوئے شیشے۔ جگہ جگہ گولیوں کے نشان۔ بائیں جانب کھڑی سوزوکیاں جو اب بار برداری کے قابل نہیں رہیں۔ وہ یوں دبی اور پچکی ہوئی تھیں جیسے ان پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئی ہوں۔ جگہ جگہ چھلنی کئے ہوئے پان کے کیبن۔ اسلحے کا بے دریغ استعمال۔ اور الخدمت کا وہ ہسپتال جسکی دیواروں میں نہ صرف گولیوں کے نشان بلکہ جابجا گولیاں بھی پیوست ہیں۔ چکنا چور کئے ہوئے شیشے۔ایک جگہ سے سوراخ زدہ شیشے سے ہم باہر کی جانب دیکھنے لگے تواطراف کی عمارتوں پرسینکڑوں گولیوں کے نشان ٹوٹے ہوئے شیشے۔ بالکل کھڑکی کے سامنے والی تین منزلہ عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک نوجوان نے بتایا کہ اس منزل کی دوسری فلور پراک اسکول ہیڈ مسٹریس رہتی ہیں وہ کھڑکی سے دیکھنے لگی تو سامنے سے آتی گولی انکو لگی اور وہ وہی گر گئیں۔ وہ گھر پر تنہا تھیں اسوقت علاقے میں اتنی فائرنگ کہ گھر سے باہر کے لوگ گھر میں واپس نہ آسکے نہ پڑوسی ایکدوسرے کے گھر جاسکتے تھے انکی لاش دو دن گھر میں پڑی رہی۔ تیسرے دن محلے کا کوئی بچہ انکے گھر گیا تو علم ہوا جس پر گھانچی پاڑہ میں ٹھرے ہوئے انکے عزیز و اقارب کو اطلاع دی گئی اور تدفین عمل میں آئی۔
لفظ ’’صفائی ستھرائی‘‘سے ناآشنا لیاری جو بیشتر غریبوں کی آبادی سے ’’پسماندگی‘‘جہاں کے گلی کوچوں کا عنوان ہے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی خبروں کا موضوع لیاری اسوقت کسی کرب سے گزر رہاہے لاکھوں کی آبادی جس خوف اور دھشت میں مبتلا ہے اسکا اندازہ ان لوگون سے ملے بن نہیں ہو سکتا۔ ’’بھول بھلیاں ‘‘کے نقشے پر بنے یہ قدیم گلی محلے جہاں ہر چند گزپر کھلی ہوئی کچرا کنڈیاں اسوقت جگہ جگہ خندق نما، کھدے ہوئے گھڑے اور گلی محلوں کے باہر ٹائر پنکچرکی ہوئی بڑی بڑی گاڑیاں اور ٹرک۔ جب ہم ان مشکل راستوں سے گزرتے تو ٹرکوں اور بڑ ے لوڈر گاڑیوں کے پیچھے سے نوجوں متجسس نظروں سے ہمیں دیکھنے لگتے اک خوف اور دھشت اور آنے والے وقت کا خوف ان سب کے چہروں پر دیکھ کر میرے تصورمیں فلسطین کے مقبوضہ علاقے آگئے۔ جب اسرائیل کے ٹینک ان راستوں سے گزرتے ہونگے تو یہی خوف، ھیجان اور بے یقینی وہاں کی فضائوں کو مکدر کرتی ہوگی۔ اور یہاں بھی؟؟ اور یہ بھی تو ایک تاریخ ہے کون رقم کریگا اس تاریخ کو جب بلوچی لب ولہجے میں اردو بولتی ہوئی ادھیڑ عمر خاتون نے بتایا کہ اس محلّے میں اک تین برس کی بچی بکتر بند گاڑی کی خوفناک آوازکی وجہ سے ہلاک ہوگئی۔ بکتر بند گاڑی کی گھن گرج اور چار طرف سے فائرنگ کی آوازیں بچی یکدم سوتے سوتے بیدار ہوگئی۔ کسی طرح چھپ نہ ہوئی اور حرکتِ قلب بند ہوگئی۔
وہ تقریباً اندھیرا کمرہ جو عورتوں سے کھچا کھچ بھر ا ہوا تھا۔ پورے لیاری میں پچھلے 7 دن سے لائٹ نہیں تھی۔ مارے حبس کہ اس کمرے میں سانس لینا دو بھر لیکن 11 سالہ حافظ فواد کی ماں کی نہ صرف سانسیں بحال تھیں بلکہ ہر سانس میں نوحے تھے اور احتجاج تھا۔اپنے دو بیٹوں کو گنوا کر آنکھیں بند کئے وہ نیم غنودگی کے عالم میں دیوار سے سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ پچھلے چار دنوں سے اس طرح اس کے گرد عورتوں کا ہجوم ہے جو اسکو دلاسے دے رہی ہیں۔ اسے صبر کی تلقین کر رہی ہیں۔ صبر کا مفہوم اسوقت کوئی اس سے پوچھ سکتا ہے جسکا 18 برس کا بیٹا 4 سال قبل رکشہ چلاتے ہوئے ایک حادثے کا شکار ہوگیا اور 11 سالہ حافظ بیٹا بکتر بند گاڑی کے نیچھے آکراسے داغِ مفارقت دے گیا۔ ’’بکتر بند کے نیچے 11سالہ بچہ کیسے آگیا؟‘‘میں نے فواد کی ماں کے برابر بیٹھی انکی ماموں زاد بہن سے سوال کیا۔ فواد کی ماں کے آنسو لگتا تھا خشک ہوچکے تھیں بس سسکیاں تھیں جو سینے سے لبوں تک آکر دم توڑ رہی تھیں ہاں ماموں زاد بہن کے آنسو ایک لمحے کو خشک نہ ہوئے تھے ہ بولی’’بچے بکتر بند گاڑی دیکھنے کے لئے گاڑی کے قریب جمع ہوگئے۔ بچے ہی تو تھے کوئی نئی چیز دیکھ کر بچے یوں ہی تجسّ میں پڑ جاتے ہیں اک دم بکتر بند اسٹارٹ کردی اور تین بچے لمحوں میں اسکے نیچے آکر ہلاک ہوگئے اُف چند لمحوں کو تصور میں مقبوضہ کشمیر آگیا او ر بھارتی فوج کے مظالم جنکی خبریں سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ مقدمے کس کی عدالت میں جائیں گے۔ کون کس پر فردِ جرم عائد کریگا؟ کھویا ہوا فواد کہاں سے واپس آئیگا جسکی ماں کا خواب تھا کہ فواد عالم بنے۔ وہ آنکھیں بند کئے غنودگی کے عالم میں بڑبڑاتی رہی ’’میرا حافظ فود۔ عالم فوادــ‘‘نا معلوم یہ آپریشن کس کے خلاف ہیں اور جن کے خلاف ہوا انکا تو کوئی بال بیکا نہ کرسکا البتہ اس سعی رائیگاں میں کتنے حافظ فواد، نعمان، غلام دستگیر جیسے بے گناہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ کراچی کی قدیم تہذیب و تمدن کے رکھوالے سچے پاکستا نی ہیں جو کسی ’’پراکسی وار‘‘ کا حصہ بنادئیے گئے کون نہیں جانتا کہ کراچی کی بدامنی اور اسے مسلح گروہوں کے حوالے کرنے کی پشت پر عالمی سازش ہے جو پاکستان کو توڑنے کی عزائم رکھتی ہیں۔ اور حکومت کے اقدامات پراسرار بھی ہیں اور حکمت عملی سے دہشتگردتو قابومیں نہ آسکے التبہ لاکھوں اھلیانِ لیاری ضرور دہشت زدہ ہیں اور اس بربریت پر نوحہ کناں بھی۔ اور حشر سے پہلے وہاں کو حشر بپا ہے اس خون کا حساب کون دیگا؟
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تواب حشر اٹھا کیون نہیں دیتے
فیس بک تبصرے