لیاری ،لیاقت آباد۔ امن کمیٹی اور ایم کیو ایم

کراچی کے علاقے لیاری میں جمعہ 27اپریل سے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے خلاف پولیس نے آپریشن کا آغاز کیا ۔ جرائم پیشہ افراد اور گروہوں( مافیاز ) کے خلاف پولیس کو ایکشن لینا چاہئے اور ان کا قلع قمع کرنا چاہئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی، مذہبی ،لسانی گروہ سے ہو ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہئے لیکن اس میں خیال رکھاجائے کہ عام افراد متاثر نہ ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی بھی کارروائی صرف حکومت اور ریاستی اداروں کو کرنی چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ کسی سیاسی گروپ، جرائم پیشہ گینگ یا مافیا کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی دوسرا گروپ تخلیق کیا جائے یا ایک مافیا کے خلاف اس کی مخالف مافیا کی سرپرستی نہیں کرنی چاہئے۔

ماضی میں کراچی میں مذہبی جماعتوں کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم کو تخلیق کیا گیا، خیبر پختونخواہ میں طالبان کے خلاف مقامی لشکر تشکیل دیئے گئے، کراچی میں جب ایم کیو ایم عفریت بن گئی تو اس کہ لگام دینے کے لئے پیپلز امن کمیٹی قائم کی گئی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اور تاریخ نے یہ بتایا کہ کسی سیاسی گروہ کو کارنر کرنے کے لئے یا کسی جرائم پیشہ گروپ کو ختم کرنے کے لئے مصنوعی طور پر گروپ تخلیق کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ جن گروپس کو تخلیق کیا جاتا ہے بعد میں وہ خود اپنے خالقوں کے لئے مسئلہ بن گئے۔ یہی معاملہ ایم کیو ایم کا ہے، یہی معاملہ پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ ہوا اور یہی معاملہ خیبرپختونخواہ میں مقامی لشکروں کا ہوگا۔ سردست ہمارا موضوع امن کمیٹی، لیاری آپریشن اور کراچی کی صورتحال ہے تو ہم اس پر ہی بات کریں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق لیاری آپریشن میں پولیس کی معاونت کے لئے ایم کیو ایم اور ارشد پپو گروپ کے کارندوں کو استعمال کیا جارہا ہے یعنی وہی بات ہوئی کہ اب پیپلزامن کمیٹی جب قابو سے باہر ہورہی ہے تو اس کو لگام دینے کے لئے ایک بار پھر ایم کیو ایم اور کراچی گینگ وار کے اہم کردار ارشد پپو کو استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ارشد پپو گروپ ہمیشہ پولیس اور حکومت کے ساتھ رہے گا، یہ گروپ صرف اپنے مخالف کو ختم کرنے کے لئے اس وقت تو حکومت کا اور پولیس کا ساتھ دیں گے لیکن وقت نکلنے کے بعد یہی گروپ عوام کے لئے اذیت کا باعث بنیں گے۔ (یہ بات واضح رہے کہ ہم نے پہلے ہی یہ بات کہی تھی کہ لیاری اور قرب و جوار کے علاقوں میں فسادات اور بد امنی کی وجہ یہی ہے کہ ایم کیو ایم نے لیاری میں داخل ہونے کے لئے ارشد پپو گروپ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جس کے باعث ہی پیپلز پارٹی نے ارشد پپو گروپ کے مخالف رحمان ڈکیت گروپ کو سپورٹ کرکے پیپلز امن کمیٹی قائم کی تھی اور اب لیاری آپریشن میں ارشد پپو اور ایم کیو ایم کے لوگوں کی شمولیت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے)۔

ایک ہفتہ گذرنے کے باوجود پولیس اور ایف سی کا لیاری میں چیل چوک سے آگے نہ بڑھنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پہلی بات کہ لیاری میں جب اسقدر اسلحہ آرہا تھا تو اس وقت کیوں نہ روکا گیا؟ لیاری گذشتہ بیس پچیس سالوں سے منشیات فروشوں کی جنت بنا ہوا تھا۔ اس کو پہلے ہی مرحلے پر ختم کیوں نہ کیا گیا؟ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہماری پولیس مٹھی بھر دہشت گردوں کے مقابلے میں چند گلیوں پر کنٹرول نہیں حاصل کرسکتی تو یہ پولیس دہشت گردی کے واقعات کو کیسے روک سکتی ہے۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس آپریشن میں جرائم پیشہ افراد کے بجائے عام افراد زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ایک ہفتے سے علاقے کے محاصرے کے باعث وہاں اشیائے خورد ونوش کی شدید قلت ہوگئی ہے، جبکہ فائرنگ کے باعث بجلی کے ٹرانسفارمرز بھی تباہ ہوگئے ہیں اور علاقہ مکین اس گرمی کے موسم میں کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ بجلی سے بھی محروم ہیں اور اپنے گھروں میں محصور ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس آپریشن میں اپنی ناکامی کے باعث پولیس فورس شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہے اور اب ان کا نشانہ جرائم پیشہ افراد کے بجائے عام افراد ہیں۔ رواں ہفتے جماعت اسلامی نے لیاری کے متاثرین کے لئے ایک امدادی قافلہ تشکیل دیا تاکہ لیاری کے محصور عوام تک خوراک، ادویات اور امدادی سامان پہنچایا جاسکے۔ اس قافلے میں امیرجماعتِ اسلامی کراچی محمد حسین محنتی، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، سابق ممبر صوبائی اسمبلی یونس بارائی، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی کراچی نسیم صدیقی شامل تھے۔ یہ قافلہ جب لیاری کے لئے روانہ ہوا اور لیاری کی حدود میں پہنچا تو لوگ گھروں سے نکل کر اس قافلے کا حصہ بنتے گئے اور چیل چوک تک پہنچتے پہنچتے سیکڑوں لوگ قافلے میں شامل ہوچکے تھے۔ پولیس نے قافلے کو دیکھ کر اس پر براہ راست فائرنگ کی اور ذمہ داران کو وہاں جانے سے روکا، اس سے اگلے روز پولیس نے ایدھی فائنڈیشن کے ان رضا کاروں کو حراست میں لیا جو کہ متاثرہ علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے گئے جبکہ گذشتہ روز الخدمت فاؤنڈیشن کی ایمولینس اورنجی ٹی چینل کی گاڑیوں پر بھی براہ راست فائرنگ کی گئی جو کہ متاثرہ علاقے میں لوگوں کی امداد اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے گئے تھے۔ اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ پولیس عوام اور میڈیا سے حقائق چھپانے کی کوشش کررہی۔ اس طرح کے اقدامات اس آپریشن کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پولیس میڈیا کو اس ایریا میں جانے نہیں دے رہی ہے؟ میڈیا، عوامی نمائندوں، اور سماجی کارکنوں کو وہاں جانے سے روکنا اور ان کو ہراساں کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا واقعی لیاری کے اندر دہشت گرد مزاحمت کررہے ہیں یا پھر ایک ہفتے سے کوئی اور ہی گیم کھیلا جارہا ہے جس کو چھپانے کے لئے یہ سارے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

دوسری جانب ایک بار پھر ایم کیو ایم کی منافقت اور دہرا معیار سامنے آیا ہے۔ ایک جانب تو ایم کیو ایم لیاری آپریشن پر بہت خوش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ لیاری کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہونا چاہئے، دہشت گردوں کا قلع قمع ہونا چاہئے اور غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا جانا چاہئے جبکہ ہمارے ذرائع کے مطابق دوسری جانب لیاقت آباد سی ایریا قبرستان اور تین ہٹی سے ملحق حاجی الیاس گوٹھ میں ایم کیو ایم کے شرپسند جدید اسلحے سے لیس موجود ہیں اور انہوں نے وہاں پولیس کی مدد سے متعد بارآپریشن اور خود حملے کرکے پیپلز امن کمیٹی کو وہاں سے پسپا کردیا ہے اور وہاں مقتول منشیات فروش ماجد بلوچ کے بھائی کی سرپرستی شروع کردی ہے اور اب وہاں ایم کیو ایم کے شرپسند اور ماجد بلوچ کے کارندوں نے قبضہ کرلیا اور جدید اسلحے کے ساتھ وہاں موجود ہیں اور ایم کیو ایم کی سرپرستی ہی میں وہاں منشیات فروشی کا کاروبار شروع کردیا گیا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ لیاقت آباد سی ایریا قبرستان اس وقت ایک میدان جنگ بنا ہوا ہے اور گذشتہ ماہ سے اب تک وہاں کئی دفعہ ایم کیو ایم اور امن کمیٹی کے مابین مسلح تصادم ہوچکا ہے جبکہ منشیات فروشوں کے کارندے بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قبرستان اور تین ہٹی سے ملحق حاجی الیاس گوٹھ میں تو ایم کیو ایم کا قبضہ ہے جبکہ قبرستان کی دوسری جانب موجود حاجی مرید گوٹھ میں امن کمیٹی کے کارندے موجود ہیں ۔ امن کمیٹی کے کارندے حاجی مرید گوٹھ سے نکل کر قبرستان کے اندر اندر سے حاجی الیاس گوٹھ ( المعروف بلوچ پاڑا) کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سی ون ایریا کی جانب سے ایم کیو ایم کے مسلح کارکنان کئی دفعہ حاجی مرید گوٹھ میں داخل ہونے کی کوشش کرچکے ہیں تاہم تاحال انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پولیس اور سی آئی ڈی نے گذشتہ ہفتے ایک چھاپہ مار کارروائی میں حاجی مرید گوٹھ میں امن کمیٹی کے ذمہ دار شاہد بکک عرف شاہد چنگاری کو گرفتار کرلیا ہے اور وہ اس وقت پولیس کی حراست میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ اس ساری صورتحال کے باعث وہاں کے مکین خوفزدہ اورذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ قبرستان کے دوسری جانب موجود محمدی کالونی کے مکین اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہیں کیوں کہ انہیں اپنی ملازمتوں ، اسکول کالجز جانے اور خریداری وغیرہ کرنے کے لئے حاجی الیاس گوٹھ یا پھر قبرستان سے ہوتے ہوئے سی ون ایریا آنا پڑتا ہے لیکن اس کشیدہ صورتحال کے باعث لوگوں نے گھروں سے نکلنا کم کردیا ہے اور ان وہاں کے لوگ کافی لمبا چکر کاٹ کر سابقہ فلمستان سینما (نشتر روڈ) کی جانب سے ہوتے ہوئے تین ہٹی پر پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنے کاروبار زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ لیاری آپریشن ایک سے دو دن کے اندر ختم کردیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آپریشن کے مقاصد حاصل کئے جاسکے ہیں؟؟
کیا وہاں سے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کا خاتمہ کیا جاسکا ہے؟ْ؟
کیا ادھورا اور ناکام آپریشن دہشت گردوں کے حوصلے مزید بلند کرنے کا باعث نہیں بنے گا؟؟
کیا اس طرح ایک گروپ کے خلاف دوسرے گروپ کی سرپرستی کرنا درست اقدام ہے؟؟
لیاری میں تو امن کمیٹی کے خلاف اس قدر سخت آپریشن کرلیا گیا لیکن کیا شہر میں موجود دیگر مسلح گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی؟

ایم کیو ایم جو اس آپریشن پر بہت خوش ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومت سے اس آپریشن پر اظہار اطمینان کررہی ہے، کل اگر ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے خلاف بھی ایسا ہی آپریشن کیا جائے تو کیا وہ اس کی بھی اسی طرح حمایت کرے گی۔
ہمار امؤقف صرف یہ ہے کہ کسی خاص گروپ یا علاقے کے بجائے غیر جانبدارانہ طور پر پورے شہر میں آپریشن کیا جائے اور تمام ہی مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور شہر میں بھتہ خوری، قبضہ مافیا، منشیات فروشوں کو ختم کیا جائے۔

ایم کیوایم کوچاہئے کہ وہ منافقت ختم کرکے کوئی ایک اصولی موقف اختیار کرے۔ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن پر خوشی اور لیاقت آباد میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی سے اس کی منافقت سامنے آگئی ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف بھی آپریشن کیا گیا تھااور ایم کیو ایم آج تک اس آپریشن پر واویلا مچاتی ہے لیکن ایک مخصوص گروپ کے خلاف جانبدارنہ اور یکطرفہ آپریشن کی حمایت کرکے اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف کیا جانے والا آپریشن بھی درست تھا۔

فیس بک تبصرے

لیاری ،لیاقت آباد۔ امن کمیٹی اور ایم کیو ایم“ پر 3 تبصرے

  1. MQM is the biggest terrorist organization. They are just hypocrite. So it is useless to ask them to say truth.

  2. now operation is over without any success towards prosperity, just to to worry the innocents of the area. holding the culprits needs other tactic without any problem for citizens

  3. کچھ بھی ہو ۔۔ امن کمیٹی ہو یا متحدہ قومی مومنٹ سب کو شے دینے میں ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسی اور حکومت کا ہاتھ ہے۔
    گذشتہ30 سالوں سے کراچی کے بڑے ٹاون میں سے ایک ٹاون لیاری کو پسماندہ رکھا گیا۔کسی نے پیرس بنانے کا دعوئ کیا تو کسی نے دبئی بنانے کا۔لیاری کے ساتھ اور بعد والے علاقے “کورنگی، لانڈھی،لیاقت آباد،عائشہ منزل،ناظم آباد،بلدیہ ٹاون،نیوکراچی اور ملیر جیسے تمام علاقوں میں کسی نہ کسی طرح ترقی دی گئ لیکن لیاری کو ہمیشہ کی طرح نذرانداز کیا گیا۔
    آج 14 اکتوبر 2012 کو بھی آپ لیاری کا دورہ کریں ویسے ہی خستہ حالات میں ملے گا جیسے آج سے 30 سال پہلے تھا۔اداروںسے پوچھیں تو کہتے ہیں کہ امن کمیٹی یا گینگ وار والے ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔اور اس میں حقیقت بھی ہےلیکن ان گینگ وار والوں کے خلاف حکومتی ادارے ایکشن کیوں نہیں لیتے اسلیے ناکہ لیاری سے اگلے الیکشن میں PPPکو ٹکٹ مل جائے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ لیاری میں امن کمیٹی اور MQM کیوں لڑرہے ہیں صرف بھتہ خوری اور کچھ نہیں ۔

Leave a Reply