پاکستان میں اس وقت نئے صوبوں کا ایک معاملہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلے یہ معاملہ خیبرپختونخواہ کے نام کی تبدیلی کے بعد ہزارہ برادری کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، ان کا موقف تھا کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخواہ میں صرف پشتو بولنے والا یا پٹھان ہی نہیں رہتے بلکہ دیگر قومیں بھی وہاں بستی ہیں اس لئے نام کی تبدیلی میں ان کا خیال بھی رکھا جاتا، اور پھر ہزارہ ڈویژن میں بابا حیدر زمان نے تحریک صوبہ ہزارہ کا آغاز کیا۔ حکومت مخالف جماعتوں نے حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ اٹھتے دیکھا تو فوراً اس کی پذیرائی کی اور جبکہ اے این پی کی صوبائی حکومت نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔ جبکہ ایم کیو ایم نے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی تحریک صوبہ ہزارہ کی حمایت کی۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک حدیث مبارکہ یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔
نبی اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
یہ انتہائی اہم حدیث مبارکہ ہے۔ اس حدیث میں مسلمانوں کو عصبیت سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے اور عصبیت کی خاطر بلانے والوں، لڑنے والوں، جان دینے والوں کے بارے میں یہ تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اب اس حدیث کی مزید تشریح و تفھیم وعلماءکرام ہی کرسکتے ہیں۔ ہم نہ تو کوئی مفتی ہیں اور نہ ہی کسی کو جنت و دوزخ کا پروانہ راہداری دینے کے مجاز ہیں اور نہ ہی کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کررہے ہیں بلکہ ہر فرد اس حدیث مبارکہ کے آئینے میں اپنا عکس دیکھ لے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
یہاں یہ حدیث بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئے صوبے بننے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر وہ انتظامی ضرورت کے بنائے جاتے ہیں لیکن کسی خاص قومیت یا فرقے کے نام پر کوئی صوبہ یا ضلع بننے کا مقصد یہ ہوا کہ قوم کو متحد کرنے کے بجائے منتشر کردیا جائے، ان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی خاطر عصبیت کو ابھارنے کی شعوری کوشش کی،مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے ہزارہ صوبے کی حمایت کی، پی پی پی نے مسلم لیگ کو کمزور کرنے کے لئے سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑ دیا تاکہ مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو توڑ ا جاسکے۔ ادھر ایم کیو ایم نے فوری طور پر اس کی بھی حمایت کی اور نہ صرف حمایت کی بلکہ پنجاب کی صوبائی حکومت کو اس صوبے کی حمایت نہ کرنے کی صورت میں لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے ڈالی، خیر مسلم لیگ ن نے اس بار ایک اچھا کام یہ کیا کہ سرائیکی صوبے کے بجائے صوبہ بہاولپور کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کی قرار داد پیش کردی۔ اگر چہ یہ پنجاب میں ایک کے بجائے دو صوبوں کی قرار داد تھی لیکن بنیادی طور پر یہ کسی خاص قومیت کے نام پر نہیں بلکہ انتظامی لحاظ سے مطالبہ پیش کیا گیا ہے یعنی ان مجوزہ صوبوں میں سرائیکی بولنے والوں کے علاوہ جو دیگر زبانیں بولنے والے بستے ہیں ان کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رکھی اور نہ ہی اس میں کہیں عصبیت کی بو محسوس ہوتی ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم نے مہاجروں کے نام پر اپنی سیاست کا آغاز کیا، اس کے ساتھ ساتھ متحدہ نے جناح پور کے قیام کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ نوّے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران الاعظم اسکوائر میں قائم ان کے مرکز پر چھاپے کے دوران جناح پور کے نقشے برآمد کئے گئے۔ آپریشن کے دوران اور بعد میں ایم کیو ایم نے جناح پور کے معاملے سے وقتی طور پر ہاتھ کھینچ لیا بلکہ مہاجر حقوق اور مہاجر نام سے ہی دستبردار ہوگئی ۔انیس سو پچانوے میں ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوگئی اور پورے ملک میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ یہ ایک بڑی خوش آئند بات تھی اور ہے کیوںکہ لسانی سیاست سے لڑائی ، جھگڑے اور تعصبات کو فروغ ملتا ہے۔
ایم کیو ایم نے جب صوبہ ہزارہ اور پنجاب میں نئے صوبوں کی ہوا چلتی دیکھی تو فوراً اس کی حمایت کی اور اس حمایت کی ایک بہت بڑی وجہ جناح پور یا مہاجر صوبے کے لئے سازگار ماحول تیار کرنا تھا۔ پی پی پی جس نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کے لئے نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑا تھا اور پنجاب میں نئے صوبوں کی کھل کر حمایت کی تھی ، اس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اب وقت کی لگام ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔کیوں کہ پی پی پی اگر چہ ایک قومی جماعت ہے اور پورے ملک میں اس کا ووٹ بینک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے اندر پی پی پی سے بڑی کوئی قوم پرست جماعت بھی نہیں ہے۔ سندھ کے اندر پی پی پی کو ہمیشہ سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سندھی قوم پرستی کا ووٹ ملا ہے، اب پی پی پی کے لئے یہ انتہائی مشکل مرحلہ تھا کہ پنجاب میں تو سرائیکی صوبے کی بات کی جائے، پنجاب کی تقسیم کی بات تو کی جائے لیکن سندھ کی تقسیم کا مطلب ہے کہ اپنے سب سے مضبوط قلعے اور سب سے بڑے ووٹ بینک کو منتشر کردینا ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر پی پی پی نے ہمیشہ سندھی قوم پرستوں کو آگے کیا ہے اور اس بار میں سندھ کی تقسیم اور مہاجر صوبے کے خلاف سندھ کے قوم پرست اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اب ایم کیو ایم کا معاملہ یہ ہے وہ چونکہ اپنے آپ کو قومی جماعت کہتی ہے، پورے ملک میں اپنے یونٹ اور سیکٹر آفسز قائم کررہی ہے اور پورے ملک سے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایم کیو ایم نے بڑی مشکل سے ایک قومی جماعت کا امیج بنایا ہے ( اگر چہ اس کی دہشت گردی کے معاملات جاری ہیں ) ۔ اب وہ کھل کر جناح پور یا مہاجر صوبے کی حمایت نہیں کرسکتی ، اس لئے مہاجر صوبہ تحریک کے نام سے غیر معروف لوگوں کو آگے کیا گیا ہے جو کہ پورے ملک میں نئے صوبوں کے لئے ساز گار ماحول میں مہاجر صوبے کی تحریک چلا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے چند ماہ سے کراچی میں مظاہرے ، اور ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ اس کا مہاجر صوبہ تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مہاجر صوبہ تحریک کے مظاہروں اور ریلیوں کو منظم کرنے اور کنٹرول کرنے میں ایم کیو ایم کے یونٹ اور سیکٹر کے کارکنان آگے آگے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تنظیمی سیٹ سے واقفت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم کا کارکن قائدین کی مرضی اور حکم کے بغیر کسی دوسری جماعت یا تحریک کی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس لئے یہ بالکل واضح ہے کہ مہاجر صوبے کے پیچھے درحقیقت ایم کیو ایم ہی ہے۔ لیکن چونکہ وہ کھل کر اس کی حمایت نہیں کرتی اس لئے ہم یہا ں ”جناح پور کا سرکٹا جن “ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ( یہ اصطلاح دراصل جسارت میگرین کے لکھاری علی خان صاحب کی وضع کردہ ہے) سرکٹا اس لئے کہ بظاہر اس کا کوئی چہر ہ نہیں ہے کہ کون اس کو چلا رہاہے۔ آج ہی اخبار کی خبر ہے کہ ”سندھ محبت ریلی“ پر فائرنگ کے سلسلے میں اہم شواہد ملنے کے بعد رینجرز نے ایم کیو ایم کے کئی دفاتر پر چھاہے مارے ہیں اور وہاں سے اٹھائیس دہشت گردوں کو حراست میں لیا ہے جبکہ دفاتر سے مہاجر صوبہ تحریک کا لٹریچر میں بڑی تعداد میں برآمد ہوا ہے۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مہاجر صوبے کے پیچھے دراصل ایم کیوا یم ہی ہے۔
مہاجر صوبہ تحریک کے مظاہروں اور ریلیوں کے رد عمل میں سندھ کے قوم پرست میں میدان میں آگئے اور انہوں نے اس کی مخالفت کا اعلان کردیا۔ گذشتہ روز اسی سلسلے میں سندھ محبت ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس ریلی کا اہتمام عوامی تحریک کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس میں مسلم لیگ ن ، اے این پی، اور پیپلز امن کمیٹی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ریلی کا روٹ لیاری تا پریس کلب تھا لیکن جب یہ ریلی لی مارکیٹ نگار سینما کے قریب پہنچی تو ریلی اطراف کی عمارتوں میں مورچہ بند دہشت گردوں نے ریلی کے شرکاءپر براہ راست فائرنگ کردی ، دہشت گردوں کا نشانہ ریلی کی قیادت تھی بالخصوص پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ تھے۔ فائرنگ کے بعد عذیر جان بلوچ اور دیگر قائدین واپس چلے گئے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی اور اس کے رد عمل کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق 14افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ ابھی عوامی تحریک نے اس کے خلاف بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
اس ریلی پر فائرنگ کا مطلب یہ ہے کہ سندھ میں ایک بار پھر نوّے کی دہائی کے لسانی فسادات شروع ہونے والے ہیں، ان فسادات میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوگا۔ اور ان فسادات سے علیحدگی پسندوں کے عزائم کی تکیمل ہوسکے گی۔ جبکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر قسم کے اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے دفاع اور استحکام کے لئے متحد ہوا جائے۔ یہ انتشار، تعصبات، لسانیت کانام پر جھگڑے ملک کے مفاد میں نہیں ہیں.
اے کاش کہ ہمارے یہ حکمران اور سیاست دان اپنے وقتی مفادات کے بجائے ایسے فیصلے اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو کہ ملک کے مفاد میں ہوں اور جن سے عوام کو ریلیف ملے۔ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد نے اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں اور ایک بار پھر تمام مکتبہ فکر کے علماءکو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے۔ یادش بخیر ملی یکجہتی کونسل بھی نوّے ہی کی دہائی میں تشکیل دی گئی تھی جب ملک میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے اور مساجد و امام بارگاہوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت قائد اہل سنت اور ہر دلعزیز مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی محنت اور قاضی حسین احمد کی کاوشوں سے ملی یکجہتی کونسل تشکیل دی گئی تھی۔ اور اس کی تشکیل کے بعد فرقہ وارانہ فسادات میں نمایاں کمی آئی تھی۔ اے کاش کہ عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں بھی صرف عوام کو لڑانے کے بجائے عوام کو متحد کرنے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش کریں۔
فیس بک تبصرے