اس وقت میرے سامنے شہر قائد میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کی خبریں ہیں ۔ اور اخبار نے اس حوالے سے بڑی سنسنی خیز سرخیاں جمائی ہیں۔ میں آپ کے سامنے یہ سرخیاں رکھتا ہوں۔ان سرخیوں کو دیکھیں ان کے اعداد و شمار انتہائی ہولناک ہیں۔ایک ہفتے میں 56افراد یعنی اوسطاً آٹھ افراد روزانہ قتل ہوررہے ہیں۔ واضح رہے کہ ان اعداد و شمار میں گھریلو جھگڑوں، خاندانی دشمنی وغیرہ کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے،اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہو نا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے درد ناک سزاہے۔عقل و خرد رکھنے والو!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔(سورہ البقرہ ،آیات 178.179)
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے جب میں ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز دیکھتا ہوں یا جب کسی اینکر پرسن کو مائیک سنبھالے شہر کی سڑکوں پر اس حالت میں دیکھتا ہوں کہ وہ شہریوں کو روک روک کر کراچی کی بد امنی کا سبب اور اس بدامنی کے خاتمے کا سبب پوچھ رہے ہوتے / ہوتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اینکر پرسن جو لوگوں سے سوالات کررہے ہوتے ہیں کیا یہ لوگ کراچی سے تعلق نہیں رکھتے ہیں؟ کیا ان کو پتا نہیں ہے کہ شہر قائد میں کون کون سی پارٹیاں قتل و غارت گری میں ملوث ہیں؟ کیا ان کو نہیں پتا کہ اپنے ایک کارکن کے بدلے دس دس بیس بیس شہریوں کو قتل کرنے والی پارٹیاں کون سی ہیں؟ یقیناً ان کو سب پتا ہے کیوں کہ اینکر پرسنز کا تعلق بھی کراچی سے ہی ہے (اور یہی وجہ ہے کہ وہ اصل با ت نہیں بتاتے ہیں کیوں کہ ان کا دفتر بھی کراچی میں ہے اور ان کی فیملی بھی کراچی میں ہے۔ )
کراچی کے مسئلے کا سبب ہی یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ کراچی کے واقعات کو دوسرا رخ دیتا ہے ، کبھی طالبان کو ان واقعات کا مجرم قرار دیا جاےا ہے اور کبھی نامعلوم تیسری قوت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں اور بالخصوص کراچی میں مجرموں کو سیاسی پارٹیوں، با اثر افراد اور مافیاز کی سرپرستی حاصل ہے۔جب بھی شہر کراچی میں بد امنی ہوتی ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے ، تو وفاقی وزیر داخلہ صاحب کراچی تشریف لاتے ہیں اور اتحادی جماعتوں کے مجرم کارکنوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”کراچی کے واقعات میں تیسری قوت ملوث ہے‘ ‘ لیکن چار سال سے زائد عرصہ گرزنے کے باوجود وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر کراچی کی بد امنی کا سبب اتحادی جماعتیں( ایم کیوا یم، اے این پی ، پیپلز پارٹی ) نہیں ہیںتو پھر یہ تیسری قوت کونسی ہے؟ اس تیسری قوت کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟
شہر میں لسانیت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، مختلف علاقوں کو نو گو ایریا بنایا جارہا ہے۔کوئی ایریا پٹھانوں کے لئے نو گو ایریا ہے،کوئی ایریا اردو بولنے والوں کے لئے نوگو ایریا ہے۔کسی ایریا میںبلوچ داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ بے گناہوں کا خون بہہ رہا ہے اور صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میںیہی صورتحال ہے ۔اب ان مسائل کے حل کی جب بات کی جائے تو حل وہی ہے جو اوپر قرآن کریم کی آیت بیان کی گئی ہے۔ یعنی قصاص میں زندگی ہے۔
معاملہ یہی ہے کہ ہم نے قاتلوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔ قاتلوں کو سیاسی پارٹیوں اور با اثر گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد کا قاتل صولت مرزا جیل میں ہے۔ اعلیٰ عدالتیں اس کو پھانسی کی سزا سنا چکی ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔اس کی سزا پر عملد دارآمد نہیں ہوسکتا۔ کامران مادھوری پولیس کی حراست میں ہے۔ اس پر بھی قتل کے کئی مقدمات ہیں لیکن اس کو بھی سزا نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اجمل پہاڑی جو کہ اس وقت پولیس کی حراست میں ہے ۔ سو سے زائد قتل کرچکا ہے اور قتل کا اعتراف بھی کرچکا ہے لیکن اسے بھی سزا نہیں سنائی جاسکتی کیوں کہ ماضی میں اس مخصوص گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے والے پولیس افسران کو چن چن کر مارا جاچکا ہے، اس لئے نہ تو کوئی پولیس آفیسر اب ایسا کوئی رسک لینے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی فرد گواہی کے لئے آگے آئے گا۔ارشد پپو لیاری گینگ وار کا ایک اہم کردار ہے۔ اس پر قتل ،اقدام قتل، ڈکیٹی، اغوا برئے تاوان اور بھتہ خوری کے الزامات ہیں۔ ارشد پپو کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن گذشتہ دنوں حکومت نے اپنے مفادات کئی خاطر اس قاتل کو رہا کردیا تاکہ اس کے ذریعے لیاری میں امن کمیٹی کو لگام دی جاسکے۔جبکہ پیپلز امن کمیٹی کو موجودہ پی پی پی حکومت کی خاموش سرپرستی حاصل ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے کئی وزراءاور پی پی پی کے کئی اہم رہنما امن کمیٹی کے خلاف کارروائیوں کے مخالف ہیں۔بدنام زمانہ دہشت گرد اور اور لیاری گینگ وار کے اہم کردار ”رحمان ڈکیٹ“ کو سرکاری سرپرستی ہی کے باعث خان بھائی اور بعد ازاں سردار عبد الرحمان بلوچ کا نام دیا گیا تھا۔یہ سارے گروہ جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ایک فرد کے قتل کے بدلے میں کئی بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں جبکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کے افراد کے قاتل پھر بھی محفوظ رہتے ہیں.
معروف مفکر، اسکالر اور عالم بے بدل مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”تفھیم القرآن میں اوپر بیان کی گئی آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیںکہ ”قِصَاص، یعنی خون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اس کے ساتھ کیا جائے۔
جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خون اس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔۔۔۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے ، ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اڑائے گئے۔ ایک”مہذّب“ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا۔ (جبکہ موجودہ زمانے میں ہی دنیا میں انتہائی مہذب کہلانے والے امریکہ نے ٹوئن ٹاورز کے واقعے میں دو ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ افغانستان، عراق اور پاکستان کے ہزاروں افراد کو قتل کرکے لیا ہے اور ا س کی آتش انتقام ابھی تک نہیں بجھی ہے۔ راقم) دوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جس طرح اہلِ جاہلیّت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دنیا کے متعدّد ملکوں نے اسے بالکل منسوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہلِ عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کر تا ہے کہ قصاص میں سوسائٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔
جب قاتلوں کو سزا نہی دی جائے گی ، جب مجرموں کو چھوٹ ملے گی تو معاشرہ افراتفری ، انتشار اور بدامنی کا ہی شکار ہوگا نہ کہ یہاں دودھ کی نہریں رواں ہونگی؟قتل و غارت گری اسی طرح ہوتی رہے گی۔ ضروت صرف اس بات کی ہے قرآن کریم کے قصاص کے قانون پر عمل کیا جائے۔
ہمارے محترم دوست پروفیسر مولانا آصف خان علیمی کے ساتھ ایک دفعہ اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ”جب ہم درس نظامی کررہے تھے ،اس دوران قصاص اور دیت کے قانون کے حوالے سے جب درس دیا گیا تو ہمارے استاد نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی، میں نے پوچھا کہ استاد محترم جب کوئی فرد قتل ہوتا ہے تو اس کی تو جان چلی جاتی ہے اس کا گھرانہ بھی متاثر ہوتا ہے لیکن اس کے قصاص میں قاتل کو قتل کرنے میں زندگی کہا ہے؟ یہ تو موت ہے اور ایک دوسرا گھرانہ بھی متاثر ہوگا۔استاد نے ہماری بات توجہ سے سنی اور فرمایا کہ جب کسی قاتل کی کھلے میدان میں مجمع کے سامنے گردن اڑائی جائے گی تو اس عمل سے کتنے ہی ایسے شریروں کو عبرت حاصل ہوگی جن کے دل و دماغ میں بھی ایسا ہی خناس بھرا ہوا ہوگا، اور وہ ان کے اندر سے فاسد خیالات تحلیل ہوجائیں گے اور دوسرا کوئی فرد کسی انسان کو قتل کرتے وقت کئی دفعہ سوچے کہ میرا انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔“
حقیقت تو یہی ہے کہ جب کسی ایک قاتل کو موت کی سزا دی جائے گی تو کئی ممکنہ قاتل راہ راست پر آجائیں گے، جب ایک چور کا ہاتھ سر عام قلم کیا جائے گا اور وہ ٹنڈا ہوکر پھرے گا تو اس عمل سے ہزاروں انسانوں کو عبرت ہوگی۔ دین سے دوری اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ہی آج ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ”عقل و خرد رکھنے والو!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے“
میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں اس سے سادہ اور عام فہم بات ہو نہیں سکتی.
السلام علیکم
الحمدللہ مجھے بھی ہر سوچنے والے ذہن اور قرآن کی حقانیت پر یقین رکھنے والے مسلمان کی طرح آپکی بات سے مکمل اتفاق ہے سلیم اللہ شیخ بھائ –
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں اپنے سے زیادہ کسی دوسرے انسان سے محبت نہیں کرتا- یہ بات اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب انسان ایک سخت مشکل قسم کی زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے- تب اس پر سوائے اپنے آپ کو بچانے کو اور کوئ دھن نہیں سوار ہوتی- اسی کا ثبوت ہے کہ قیامت میں سب رشتے ناطے منقطع ہو جائیں گے اور ہر کوئ نفسی نفسی پکارے گا سوائے ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے-
تو جب انسان کو اپنی موت سامنے دکھائ دے تو اسکی ساری سفاکی اور خون آشامی دھری رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ عموماً فلم اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے کہ جہاں قاتل پر گن تانی گئ اسکے ہاتھ سے اپنی گن چھوٹ جاتی ہے- وہ کیا چیز ہے جو اتنے سفاک قاتل کو بھیگی بلی بنا دیتی ہے- وہ صرف اپنی موت کا خوف ہے- ساری دنیا سے اسکی کی نفرت مل کر بھی اسکی اپنے آپ سے محبت کے برابر نہیں ہوتی- وہ ہزاروں لوگوں کو مار لے گا مگر خود کو انھی میں سے ایک سمجھ کر کبھی مرنے نہیں دے گا-
اور یہی ہے قصاص کی حکمت بھی۔ مجرم ذہنوں کے لئےاپنی جان کا خوف ہی دوسرے کی جان کو محفوظ رکھ سکتا ہے-