ایمن تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو لائونج میں تخت پر امی کو پایا. اس نے چہرے پر بشاشت لانے کی کوشش کی اور ماں کے نزدیک بیٹھ گئی. انہوں نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور گائو تکیہ کے سہارے اٹھ بیٹھیں۔ ’’آپ تھک گئیں تھیں تو کمرے میں لیٹ جاتیں۔ آدھی نیند سے سر میں درد ہوگا‘‘ اس نے جھک کر بے آواز جوتے اتارے اور تخت کے نیچے کھسکائے۔ ’’تمہارا انتظار کررہی تھی. اس لئے یہاں ٹیک لگالی. کب آنکھ لگی؟ شاید گھنٹے سے زیادہ ہوا… رات کی نیند بھی پوری ہوگئی…‘‘ انہوں نے پائوں زمین پر رکھے ’’…چلو میں کھا نا گرم کرتی ہوں تم کپڑے بدل آئو…‘‘ ایمن نے گھڑی کی طرف اشارہ کرکے ماں کا ہاتھ پکڑلیا ’’…امی پانچ بج رہے ہیں۔ اس وقت کھانا نہیں۔ چائے میں بناتی ہوں۔ آپ بیٹھیں…‘‘
’’تم پھر ہسپتال گئیں تھیں! میرے سمجھانے کے باوجود‘‘ ان کے لہجے میں خفگی تھی ’’اور کھانا کیا کھایا؟ کہاں کھایا؟ میں بھی تو سنوں‘‘ وہ خاموش نظریں جھکائے پائوں کے انگوٹھے سے فرش کریدتی رہی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اسے جھٹلانا ایمن کے بس میں کہاں تھا سو کچھ بھی جواب نہ دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کی آنکھوں میں خاص قسم کے detector نصب ہیں جو جھوٹ اور سچ کو فورآ الگ کرلیتے ہیں یا پھر ایمن کا چہرہ آئینہ کی مانند شفاف تھا سو بجز ہتھیار ڈالنے کو کوئی چارہ نہ تھا، اس لئے پیچھے ہو کر تخت پر لیٹ گئی اور لینن کا دوپٹہ نما چادر اپنے اوپر ڈال لیا۔ امی کا غصہ فورا کا فور ہوگیا۔ دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔ ایمن کی آنکھیں خود بخود بند ہوتی گئیں۔ انہوں نے اس کا بیگ اور فائل اٹھائے تو اس میں سے کاغذات اور اخباری تراشے زمین پر آرہے۔ جھک کر سمیٹے اور کمرے میں رکھے۔
محلے کی مسجد سے بلند ہونے والی عصر کی اذان سن کر وضو کرکے جاءنماز بچھالی۔ ’’یا الٰہی! سب کی خیر ہو…‘‘ دعا کے لیے اٹھے ہا تھ چہرہ
پرپھیرے۔ چائے بنا کر دم پر رکھی اور دروازہ کھول دیا کہ ٹیوشن کے بچوں کی دستک سے ایمن کی آ نکھ نہ کھل جائے! مگر ننھی بچیوں کی آمد دبی دبی آوازیں سن کر اس نے کروٹ بدل لی۔ امی نے ہاتھ سے اندر جا کر لیٹنے کا اشارہ کیا ’’نہیں پہلے چائے بسکٹ!‘‘ وہ لاڈ اٹھوانے کے انداز میں بولی۔ بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
زینب، فا طمہ، عائشہ فورتھ میں، ثناء، زہرہ آمنہ تھری میں تھیں اور اسماء، مریم، نمرہ ٹو میں! ایمن بچوں سے ہاتھ ملا کر قالین پر بیٹھ گئی۔ نمرہ اور زہرہ دونوں بہنیں شروع ہوگئیں۔ گھر کی باتیں، اسکول کے قصے! آگے سے ٹوٹے ہوئے دانتوں کے باوجود خوب بولتی تھیں اور کسی کو بولنے کا موقع ہی نہ دیتی تھیں لیکن فاطمہ نے دونوں کو آنکھیں دکھا کر پوچھا ’’ایمن باجی آپ یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں نا!‘‘ ایمن کا منہ کھلا مگر زینب جو حسب معمول بغیر بازوئوں کے مختصر سے جھبلے اور اور گھسی ہوئی اونچی جینز میں تھی، نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ لقمہ دیا تو سب کی نگاہیں اس کی ناف اور بغلوں میں الجھ کر رہ گئیں ’’اف‘‘ ایمن نے جھرجھری لی اور آنکھیں جھکالیں۔ بچے کچھ نہ سمجھے مگر خاموش ہوگئے۔
امی نے بسکٹ کی پلیٹ درمیان میں رکھی اور چائے کا کپ اس کے آگے رکھا. چند لمحے ہنستے بولتے ماحول کی خاموشی کو نوٹ کیا۔ سب کو بغور دیکھا۔ ایمن نے بسکٹ اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ ’’ہوں کوکونٹ‘‘ اور چائے کا گرم کپ لبوں سے لگا لیا ’’آ ہ گرم!!‘‘ زبان کی نوک بری طرح سرخ ہوچکی تھی ’’سی سی ‘‘ بچے پھر کھلکھلائے ’’یہ جو ایمن باجی ہیں انہیں تمہارے اسکول میں داخلہ مل جائے گا؟‘‘ امی نے بچوں کے آگے ملامت کی۔ سب کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ امی نے ڈائری، ہوم ورک کاپیاں کھلوادیں۔ وہ خا موشی سے بچوں کو کام کرتا دیکھتی رہی۔ سب ہی نے ٹاپ اور جینز پہنے ہوئے تھے اورکسی پر ھنامونٹانا، کسی پر پاورپف گرلز، تو کسی پر باربی ڈول!!!
فون کی گھنٹی بجنے پر اس کا انہماک ختم ہوا اور سہیل کی آواز سن کر جیسے ذہن جاگا ’’اچھا تو آپ نے شکایتیں لگائیں؟‘‘ بالکل غلط!! تمہاری سرگرمیوں کی رپورٹ دی تھی۔‘‘ برجستگی سے جواب آیا۔ بحث کو طول دینے کا کوئی فائدہ تھا نہ ایمن کا موڈ!! برسرروزگار سہیل کے ساتھ اس کا نام بی اے کے بعد ہی جڑچکا تھا مگر میل جول نفیسہ بیگم نے محدود کر رکھا تھا۔ تعلیم کے باوجود وضع داری ان کے مدنظر تھی اور دور کی سسرالی رشتہ داری قربت میں بدل ڈالی تھی۔ ایمن نے فون ماں کی طرف بڑھا دیا۔ مختصر سی بات ہوئی۔
مغرب کی آذان بلند ہونے پر امی نے کا پیاں بند کروا دیں۔ کام بھی ختم تھا کہ زینب کی مما صبا لینے آگئیں۔ ٹسٹ کے نمبر پر بات ہو نے لگی۔ ایمن نے سرتاپا ڈھکی چھپی عبایا میں ماں اور ادھورے لباس میں دس سالہ بیٹی کو غور سے دیکھا۔ کیا درمیان میں کوئی کڑی ٹوٹ گئی ہے؟؟ مگر بظاہر تو ایسا نہیں لگتا!! اگر وہ نقاب پوش دادی یا پھوپھی کے ساتھ ہوتی تو انحراف کا مارجن تھا، ایمن کا ذہن مسلسل تجزیہ کررہا تھا۔ دونوں کے مطمئن چہرے الجھن میں ڈال رہے تھے۔ اسے وہ دو مختلف دائروں میں سفر کرتے مسافروں کی مانند لگیں جو کسی نقطے پر ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ فاطمہ، ثناء اور عزہ کی امی بھی آہی گئیں۔ ’’ڈا ئری دیکھی؟؟ دو دن بعد سیرت النبیﷺ ہے۔ بچوں کو سفید دوپٹے، شلواریں اور رنگین قمیضیں پہننی ہیں‘‘ نفیسہ بیگم نے مائوں کو جتایا۔ ’’اف!! اب یہ نمونے کہاں سے لائیں؟؟ زینب کی مما ناگواری سے بولیں۔ ’’جہاں سے یہ دھجیاں آئی ہیں اور کہاں سے؟ انہوں نے سرد لہجے میں بات کاٹی۔ گفتگو میں ڈیڈلاک آگیا تھا۔ فاطمہ کی ماما نے گلا صاف کیا ’’اصل میں بازار میں یہ ہی کپڑے ملتے ہیں…‘‘ تو ثناء کی امی نے مصالحتی بیان داغا ’’بچے ان کپڑوں کو پہننا پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ کچھ پہننا نہیں چاہتے…‘‘ نفیسہ بیگم نے مائوں کو غور سے دیکھا۔ ’’بازار میں تو نہ جا نے کیا کچھ ملتا ہے اوران معصوم بچوں کوبے لباسی کی عادت ہم ڈال رہے ہیں سو پسند بن ہی جائے گی… کتنی ہی بار بچوں نے میرے ساتھ نماز پڑھنے کا سوچا مگر اپنے کپڑوں پر نظر پڑتی ہے تو شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ یہاں بیٹھے سارا وقت جمپر کو نیچے اور جینز کو اوپر کھینچتے رہتے ہیں…‘‘ ان کی آ واز بتدریج مدھم ہوتی چلی گئی۔ اردگرد سناٹا دبیز ہوگیا۔ وہ نماز کا وقت تنگ ہونے پر معذرت کرکے اندر چلی گئیں۔
مائوں نے اس تلخ سچ کو یوں برداشت کیا تو اس کا سبب نفیسہ بیگم کا ماڈل اسکول میں بطور پرائمری سیکشن کی انچارج اور اتھارٹی تھی۔ ایمن نے بمشکل ضبط کیا۔ بچے اپنی مائوں کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں اترنے لگے۔ دروازہ بند کرکے اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔ چائے کے برتن کچن میں رکھے، ماں کے پاس جائے نماز پر بیٹھ گئی۔ امی نے طویل دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے تو ایمن نے اپنا گریبان آگے کردیا۔ شفقت بھری نگاہوں نے اس کے سارے وجود کا احاطہ کرلیا۔ ’’تم بھی پڑھ لو…‘‘ ’’ابھی وقت ہے؟ قضا تو نہیں ہوئی؟‘‘ ایمن نے گلے
میں بانہیں ڈالیں۔ ’’ارے وہ کوئی انسان تھوڑی ہے جو ایک بار روٹھ جائے، وہ تو مہلت دیتا ہے۔ ہر وقت منتظر رہتا ہے‘‘ ’’مگر امی! رضیہ کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے۔ اس پر مجرموں کو ہرگز مہلت نہیں ملنی چاہئے۔‘‘ ایمن زلزلے کے آ ثار چہرے پر لیے جاء نماز پر کھڑی تھی.
’’بدکردار اتنے طا قت ور کیوں ہیں…؟‘‘ ’’کھانے کے بعد اس موضوع پر بات کرنا۔ خالی پیٹ ہو تو دماغ سائیں سائیں کرتا ہے‘‘ کچن کی طرف وہ چل دیں۔ کھانا کھا کر دونوں لائونج کے تخت پر آٹکیں. ’’یونیورسٹی سے سیدھے گھر آنا! میں نے صاف الفاظ میں کہا تھا‘‘ ان کی نارا ضگی برقرارتھی۔ ایمن نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’پورا سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ، ویمن اسٹڈیز سنٹر، میڈم عقیلہ، میڈم صبیحہ، سرکاشان، سر زبیری سب گئے تھے۔ میں اکیلی تھوڑی تھی؟ اب فائنل ایئر میں اسائنٹمنٹ ہے۔ ’’ معاشرے میں تبدیلی۔ اسباب و اثرات‘‘! کیا گھر بیٹھے کرلوں؟‘‘ وہ ماں کی حکم عدولی کا جواز دے رہی تھی۔ پانچ سال قبل انصار صاحب کی اچانک موت کے بعد ماں بیٹی ایک دوسرے کے مزید قریب آگئیں۔ گوئیاں تو وہ پہلے ہی تھیں۔ آہستہ سے ھنسیں ’’ہاں، تمہیں زینب بمقابلہ صبا مواد مل توگیا۔‘‘ اس کی معذرت گویا قبول ہوگئی۔ ’’آپ تو اندر آگئیں اور میری جان پر بنی‘‘ ماں کے ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیے.
’’تم نے غور نہیں کیا بچو ں پر مسلط کردہ غیر معیاری لباس کس کا ایجنڈا ہے؟ آنکھوں میں الجھن لیے وہ کمرے سے فائل لے کر پلٹی انہوں نے ہاتھ میں لے کر بند کردی ’’میں شام میں دیکھ چکی ہوں… بیٹا معاشرے تو صرف انصاف کی حکمرانی سے پنپتے ہیں‘‘ انہوں نے بات آگے بڑھائی اور ریمورٹ سے ٹی وی چلا دیا ۔ اسکرین کا منظر پارلر سے براہ راست repeat telecast پروگرام! ایمن کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں۔ ایک نیم دراز خاتون کے پپوٹوں پر شیر کی شبیہہ ابھر رہی تھی۔ اس نے کئی پہلو بدلے مگر ماں نے اشارے سے خاموش کرایا ۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد یہ فضول کام مکمل ہوا۔ اس دوران کیمرہ مین دونوں خواتین کے بیچ میں گھسا انہیں جن زاویوں سے فلمبند کرتا رہا اس کا تصور بھی انہوں نے نہ کیا ہوگا۔ شیر کی تصویر سجائے خاتون آ نکھیں موندے رہیں شاید جنگل میں شیر کی کچھار کی تلاش میں۔ ٹٹولتے ہاتھوں سے کرسی پر بیٹھیں۔ کروڑوں ناظرین ان کی درگت بنتے دیکھ کر محظوظ ہوئے ہوں گے؟ ’’شاید گھر بیٹھی خواتین کو آرائش و زیبائش سکھانا پروگرام کا مقصد تھا۔ امی نے لقمہ دیا۔ تو ایمن کچکچا کر رہ گئی۔ چینل بدلنے پر بوس و کنار کے مناظر سے لے کر دھمکیا ں دیتے مباحثوں تک نگاہوں نے پلک جھپکتے جذب کرلیے۔ ایمن کو ابکائی آگئی۔ آخ تھو! ریمورٹ پر ان کا ہاتھ رکا تو علا قائی تنظیم یعنی سارک سیمینار کی عکس بندی… مشترک تہذیب کے علم بردار چمک چمک کر فرمارہے تھے ’’اجنتا اور ایلورا کے غا روں میں مد فن انسانی تہذیب و تمدن نہ صرف قابل فخرماضی اور سرمایہ ہے بلکہ آ ج بھی…‘‘ انہوں نے mute کر دیا۔ ’’وقت تو ہمیشہ آ گے کا سفر کرتا ہے مگر یہ دانشور عوام کو لچھے دار باتوں سے فریب دیتے ہیں۔ اگر تو وہ صحیح ہے جو یہ حضرت کہہ رہے ہیں تو ان پر موبائیل اور ہائی ٹیک انٹرنیٹ، جہاز کا سفر اور آ سمان کی بلندیوں تک چھوتی عمارتیں سمیت دنیا کی لا کھو ں چیزوں کی ایجا د اور استعمال از خود غلط ثابت ہوتا ہے کیا یہ اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ بے لباسی کے علاوہ کوئی اور فکر قابل پیروی نہیں ان کے لیے!‘‘ امی نے تبصرہ کیا۔ ایمن سوچوں میں ڈوب گئی مگر اگلے منظر نے دونوں کو الر ٹ کردیا۔
مشہور میزبان سایہ خان حسب معمول تین حضرات کو دائیں اور تین خواتین کو بائیں جانب لے کر بیٹھی تھیں۔ درندہ صفت انسانوں کی سفلی خواہشات کی بھینٹ چڑھنے والی دس سالہ رضیہ زیر بحث تھی۔ کیمرہ کبھی اسپتال میں موجود لواحقین پر جاتا اور کبھی طبی ماہرین کی رائے کے لیے اسٹوڈیوکا رخ کرتا۔ ’اف! اس نے جھنجھلا کر ریمورٹ پٹخ دیا۔ بوجھل سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ’’بنت حوا کی عزت تار تار کرنے پر خبر نہیں المیہ جنم لیتا ہے اور اس غیر انسانی عمل کی تشہیر اذیت ناک تجربے کو بار بار دہرانا ہے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم کی آواز میں بھنور پڑرہے تھے۔ ’’کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص سو کر مطمئن اٹھے اور جرم کا ار تکاب کر ڈا لے! برسوں کی ترغیب اور غصہ انسا ن کو مجرم بنا دیتا ہے‘‘ انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
’’تشنہ آرزوئوں، ناآسودگیوں، اور محرومیوں کو جرم میں بدلنے والے عوامل کچھ اور بھی ہیں۔ بلاشبہ ان شیاطین کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے جو معصوم بچوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں! تم کیسی سوشیالوجسٹ ہو؟ ہمت ہارنے کے بجائے کوئی حل سوچو! کیا ہم رضیہ کے لیے کچھ کرسکتے ہیں؟‘‘ ایمن بڑبڑائی۔ انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ ہم معاشرے کی رضیائوں کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں… مگر کیسے؟ وہ گہری سوچوں میں ڈوب گئی۔ نفیسہ بیگم نے پاس ہی رکھا لیپ ٹا پ اس کے آ گے کردیا تو کسی خیال سے اس کی آنکھیں چمکیں۔ کی بورڈ پر اس کے ہاتھ تیزی سے چل پڑے۔ اپنی تمام دوستوں ،جاننے والوں کے نام پیغام تیار کیا۔
ادھر ملک بھر کے نیٹ استعمال کرنے والے حیران تھے کہ آ خر کون ہے جو ہر خبر کا بخیہ ادھیڑ رہا ہے۔ بالآخر پندرہ دن بعد یونیورسٹی کے سبزہ زار
پر ہونے والے پروگرام کی اطلاع اور دعوت معاشرے کے ہر ذمہ دار فرد کو دی گئی۔ بریکنگ نیوز کی طلب میں پہنچنے پر حیرت کے نئے در وا ہوئے۔ پس پردہ سماج دشمن طالبان کے بجائے باشعور طلبہ و طالبات کو دیکھ کر ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ جابجا لگے پوسٹر پر چیدہ چیدہ حقائق، خبریں اور پالیسی کا پوسٹ مارٹم تجزیہ نمایاں درج تھا۔ باقاعدہ تقریب میں تاخیر پر سوالیہ نظریں منتظمین کی تلاش میں اٹھنے لگیں کہ شریر لڑکوں کا ایک گروپ سٹیج پر چڑھ گیا۔ نعرے بلند ہونے لگے
میڈیا کو لگام دو! … امن کا نظام دو!
تعصب کو اختتام دو … کسی کو نہ الزام دو!
صبح دو شام دو … صلح عام دو!
بازار عام ہوں … عزتیں نیلام ہوں
مصیبتیں آلام ہوں … گھر گھر کہرام ہو
میڈیا کو لگا م دو
فلاح کا پیام دو … خلق کو سلا م دو
ابلیس کو آرام دو … حیا کا جام دو
اس میں نہیں کلام دو … عورت کو احترام دو!
ماں کو اکرام دو … امید کا انعا م دو!
میڈیا کو لگا م دو !
اور جلوس کی شکل اختیار کرکے مرکزی شاہراہ کی جانب گامزن ہوگیا۔
a motivational article giving hope and plan of action