ان لوگوں کی بہتات نہیں ہوگئی ہے ابّو ‘‘فیصل نے ایک خاص فرقے کا ذکر کرتے ہو ئے کہا۔ ملک کے شمالی علا قوں سے تعلق رکھنے والا یہ انسانی گروہ اپنے کم اجرت رکھنے کی شہرت کی وجہ سے ہر شعبے میں غیر معمولی تعداد میں نظر آنے لگا تھا۔اپنے اس احساس کو فیصل نے اپنے گھر والوں سے شیئر کیا۔ وہ سب اس وقت رات کے کھانے میں مصروف تھے۔ زندگی کی بے تحاشہ مصروفیت بھی اس فیملی سرگرمی کو ختم نہ کر سکی ہے!
ہاں جب یہاں کے لوگ چھوڑ کر جائیں گے تو کسی نہ کسی کو تو ان کی جگہ لینی ہی ہے خلا تو نہیں رہے گا نا! سلیم احمد نے ٹی وی لائونج میں لگے واش بیسن میں ہاتھ دھو کر تولیہ سے پونچھتے ہوئے کہا اور اپنی بات کے ردّعمل میں پھیلتی افسوس کی جھلک اپنے بیٹے کے چہرے پر دیکھ کر شرمندہ سے ہوگئے۔ اب ان باتوں کا وقت کہاں رہا تھا؟ محض دو ہفتے بعد تو اس کی کینیڈا روانگی تھی۔ گو خود ساختہ بے وطنی کا حصول ایک متنازعہ فیصلہ تھا مگر تین سال کی بے روزگاری اور ٹیوشنز کرنے سے جو فرسٹریشن پیدا ہوا تھا اسکے بعد تو یہ محفوظ اور مناسب ترین ہی راستہ تھا ورنہ تو اس کے نتیجے میں بے راہ روی سے لے کر تخریب کاری اور نشے سے لے کر خودکشی بے حد آسان اور سہل بنادی گئی ہے۔
فیصل اپنے والدین کے ارمانوں کا واحد مرکز تین بہنو ں کا اکلوتا بھائی! جو ’ایک مگر نیک ہو‘ کے فارمولے پر پورا اترتا تھا۔ بچپن سے ہی ذہین اور فرمانبردار! حافظ قرآن، جوجماعت میں ہمیشہ اوّل رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھی نمایاں اور ممتاز رہتا تھا شاندار نمبروں سے انٹرمیڈیٹ کر کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا تو ماں باپ نے مٹھائی تقسیم کی اور پھر اس نے حوصلہ بھری امیدوں کے ساتھ یہ امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا۔ شان دار تعلیمی کیرئیر کے باوجود ادنٰی درجے کی ملازمتیں ملیں تو فیصل کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہوئے۔ امیدیں مایوسی اور شیریں زبانی، تلخ کلامی میں بدلنا شروع ہوئی۔ اور اس وقت تو اس کو اپنے اوپر قابو پانا بے حد مشکل محسوس ہوتا جب وہ اپنے کسی ناکارہ سے کلاس فیلو کو زبردست گاڑی اور بدلے ہوئے گیٹ اپ میں دیکھتا۔
ریسرچ کے مطابق انسان کو اپنے حال سے زیادہ افسوس یا رنجیدگی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنے ساتھی کو اپنے سے خوشحال دیکھتا ہے۔ شاید اسی انسانی کمزوری کے سبب ربّ کائنات نے مالی لحاظ سے اپنے سے کمتر کی طرف دیکھنے کی ترغیب دی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال خوشی یا ناخوشی امریکہ جا کر قسمت آزمائی ہی مقدّر ٹہری!
نقل مکانی تو اب عام سی بات ہے! جسے دیکھو باہر جانے کو پر تولے کھڑا ہے۔ کنبے تو ایک طرف پوری پوری برادریاں اس تجربے سے گزر رہی ہیں جس کی ہر ایک کے پاس اپنی اپنی و جوہات ہیں! مگر سلیم احمد کے لیے یہ بڑی آزمائش تھی! صرف اس لیے نہیں کہ ان کا اکلوتا سہارا آنکھو ں سے دور ہورہا ہے بلکہ ان کی اصل پریشانی اپنے فلسفے کی ناکامی تھی! انہوں نے ایک نوعمر بچّے کی حیثیت سے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تھی اور اپنے اس اعزاز پر نازاں تھے، وہ اس درد اور امید کے سا تھ بڑے ہوئے جو نظر یہ پاکستان سے وابستہ تھا۔ ان کے اندر یہ فخر ان کے والد نور احمد نے پیدا کیا تھا جنھو ں نے بقائمی ہوش و حواس اپنے پورے شرح صدر کے ساتھ پاکستان کا رخ کیا تھا۔ اس ہجرت سے جڑے وسوسے بھی تھے، اندیشے بھی اور خدشات بھی! مگر ان سب پر امید کا رنگ حاوی ہوگیا تھا۔
’’وہاں جا کر ریت پھانکوگے!!!‘‘ کا استہزا ھندو کولیگز اور دوستوں کی طرف سے ملا تو اپنوں میں سے کچھ نے آبائی قبروں کو لاوارث چھوڑ کر جانے پر ملامت کی اور کچھ نے ممکنہ تنہائی اور بے ٹھکانہ ہونے کا خوف دلایا۔ مگر ان کے ارا دے کو کچھ بھی متزلزل نہ کرسکا۔ اپنی سرزمین حاصل کرنے کا نشہ ہی کچھ اور تھا! ان آنکھوں میں اپنا نظام قائم کرنے کا خواب بس گیا تھا جس کی تعبیر کچھ بھی رہی ہو مگر پھر بھی ایک باعزّت زندگی میّسر آگئی تھی۔ اور اپنے بیٹے سلیم احمد کو کالج کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے دیکھ کر وہ اپنا اور اس کا مورال اونچا کرتے رھتے تھے کہ بیٹا! گر پاکستان نہ بنتا تو تمہیں کبھی اتنا باعزّت ذریعہ معاش نہ ملتا! یہ تو انعام ہے اﷲ کی طرف سے! جو اس کے لیے کچھ چھوڑتا ہے وہ اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔۔۔
ان احساسات کے ساتھ نشوونما پانے والے سلیم احمد کے لیے پاکستان ہی سب کچھ تھا! اب بیٹے کی نقل مکانی ان کے لیے اپنے فلسفے سے گویا دست برداری تھی جس نے ان کو مجروح کردیا تھا۔ انہیں وہ سارے چہرے اپنی نظروں میں گھومتے ہوئے محسوس ہورہے تھے جو اس فیصلے پر ہنس رہے تھے ان کا مذاق اڑارہے تھے! وہ سوچ رہے تھے فیصل کی تربیّت میں کیا کسر رہ گئی؟ نظریہ منتقل کیوں نہ ہوسکا؟ ہزاروں لڑکوں کو متائثر کرنے والا استاد اپنے بیٹے کو کیون متاثر نہ کرسکا؟ پھر انہیں اندازہ ہوا کہ ماحول اور فضا کس طرح انسانی رویّوں پر اثر انداز ہوتی ہے؟ اس کا ادراک ہوتے ہی انہوں نے فیصل اور اس کے فیصلے کو وقت کے بہائو پر چھوڑ دیا مگر اس کے نتیجے میں افسوس ان کی زبان سے کبھی نہ کبھی نکل ہی آتا تھا! جیسا اس وقت ہوا۔۔
جہاں تک فیصل کا تعلق ہے وہ تو رگ رگ سے اپنے والد اور دادا کی فلاسفی میں ڈوبا ہوا تھا مگر برا ہو احباب کا جو مستقل اکسارہے تھے، سنہرے خواب دکھا رہے تھے الفاظ کی جادوگری تھی اور مواقع حاصل کرنے کا سحر! فیصل تو مسحور ہوگیا۔ یار سوچو ذرا! وہاں اپرچونٹیز کتنی ہیں!! دین کا کام بھی کتنا اچھا ہوسکتاہے؟ وہاں بہت پیاس ہے اسلام کی۔۔
ان ہی ملاقاتوں میں فیصل کی نظر ایک مقولے پر پڑی ’’یہ پاکستان ہے! اس سے محبّت کرو یا پھر اسے چھوڑ دو مگر اسے تباہ نہ کرو‘‘
لوگ تو قتل تک کا جواز پیدا کرلیتے ہیں یہاں تو محبوب کو بچانے کا سوال تھا لہذا اس نے نقل مکانی کا فیصلہ کرلیا یہ سوچے بغیر کہ محبّت کرنے والے کا چھوڑ جانا محبوب کوتباہ کرنا ہی تو ہے! پاکستان کو کرپٹ لوگوں کے حوالے کرکے باہر نکل جانا! کتنے نادان ہیں اس کی محبّت کے دعویدار!! اسے کمزور کرکے اسکی محبّت کے چراغ جلانا حماقت کے سوا کچھ نہیں!!
اور اگر بات خواتین کی ہو تو ان کے سامنے تہذیب و ثقافت اور دنیا کی تاریخ و جغرافیہ ثانوی ہوجاتا ہے جب ضرب ان کے گھر پر ہو یا نقصان ذاتی ہو! فیصل کی روانگی کی راہ میں رکاوٹ ماں کے آنسو اس وقت خوشی میں بدل گئے جب اس نے جانے سے پہلے نکاح کی ان کی تجویز پر رضامندی کا اظہار کیا۔ ماں بہنوں کے لیے تو یہ بڑی خوش کن سرگرمی ہوتی ہے چنانچہ ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ دلہن کی تلا ش مشکل نہ رہی جب محلّے میں اکرام صاحب کی بیٹی مریم پر نظر پڑی۔ یہ ہرلحاظ سے بہترین جوڑ تھا۔
مریم کے والدین کے لیے بھی کوئی بات وجہ اعتراض نہ تھی۔ بیس سال تک پڑوسی رہنے والے رشتہ داروں سے کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتے ہیں۔ فیصل ان کے سامنے ہی پلا بڑھا تھا۔ اسکا کردار ہو یا تعلیمی کیرئیر سب کچھ ان کے سامنے تھا۔ ہاں مستقبل کچھ غلافوں میں تھا مگر کینیڈا منتقلی کے فیصلے سے وہ بھی نکھرا نکھرا ہوگیا تھا۔ چنانچہ روانگی سے دو روز قبل ان دونوں کا نکاح کردیا گیا۔
فیصل اپنی زندگی کے اس خوشگوار موڑ کو جذباتی طور پر محسوس ہی نہ کرسکا کیونکہ اس وقت وہ ذہنی طور پرسخت تنائو کا شکار تھا۔ اور پھر اس کے جانے کے بعد گھر سناٹے میں ڈوب گیا۔ جس کا مکین نہ رہے وہاں کی تاریکی کا کیا پوچھنا! بس بہنیں اور ان کے بچّے اکثر آکر رونق لگادیتے یا پھر دن بھر میں وہ گھنٹہ جب فیصل فون پر ہوتا:
امّی آپ زیادہ کام نہ کیا کریں! آمنہ بی (خا دمہ) کو بلالیا کریں! (تمہارے جانے کے بعد کام ہی کیا رہ گیا ہے!)
ابّو آپ واک کرتے ہیں یا نہیں!…(اب تو اتنی تھکاوٹ ہوگئی ہے کہ گھر میں ہی تھک جاتا ہوں !)
مٹھّو میاں چوری کھارہے ہیں نا!… (اس کو تو تمہارے ہاتھ سے کھانے کی عادت تھی، اب تو بس سونگھ لیتا ہے)
کمپیوٹر صحیح چل رہا ہے نا! اگر کوئی بھی پرابلم ہو تو عمیر کو فون کردیجیے گا… (تا کہ وہ بھی یہ کہہ دے کہ اپنے بیٹے کوتو مستقبل بنانے کے لیے بھیج دیا ہے اور فلاحی کام کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں۔ فرسٹریشن بڑھانا خواہ مخواہ)
ڈور بیل بج رہی ہے! کون آیا ہے؟ کیا پکارہی ہیں آج؟…
نہ اس کے سوالات ختم ہوتے اور نہ ماں باپ کی گفتگو، مگر گھنٹہ گزر جاتا اور پھر اگلے چوبیس گھنٹے انتظار! نائلہ (امّی) کی باتوں کا کافی حصّہ اس کی شا دی کی تیّاری کے حوالے سے ہوتا۔ یہ ایک خوش کن موضوع تھا! دن بھر میں مریم سے ایک ملاقات ان کے شیڈول میں شامل تھی اور جس کا ذکر ضرور ہی زیربحث آتا۔ اسی شب و روز میں دو ماہ گذر گئے۔ اب فیصل کی باتوں میں وہ ذوق و شوق نہ رہا تھا۔ تھکی تھکی سی آواز، جمائیاں لیتا ہوا، سستی کاشکار! ماں باپ کے پوچھنے پر بھی کچھ نہ کہہ سکا۔ والدین تو اپنی اولاد کو خود ان سے بھی زیادہ جانتے ہیں! اور اسکی مزاحمت اس دن دم توڑ گئی جب وہ سلیم احمد کے آگے روپڑا۔’’۔۔۔۔۔۔۔ ابّو میں یہاں سیٹ نہیں ہو پارہا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
باپ نے اپنے جذبات اور احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو صبر کا حوصلہ دیا۔ اگرچہ خود ان کے لیے یہ کہنا مشکل تھا۔ شکر ہے کہ امّی جان اس وقت کسی پڑوسن کے ساتھ مصروف تھیں۔ اب جبکہ سلیم احمد کے معمولات کچھ نئے انداز سے سیٹ ہونے لگے تھے مگر یہ تو نئی ہلچل شروع۔ ذہنی یکسوئی پھر مفقود ہونے لگی رب سے تعلق کچھ اور بڑھنے لگا۔
ان ہی دنوں جب وہ فیصل کی یکسوئی کے لیے دعاگو تھے ایک شب فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ رات کے اس پہر کون ہوسکتا ہے؟ موبائل اٹھاتے ہوئے سوچا۔ اسکرین پر نظر پڑی تو ایک نامانوس نمبر تھا۔ رانگ نمبر سمجھ کر نظر انداز کرنے کا سوچا مگر پھر اٹھا لیا تو دوسری طرف فیصل تھا۔ ٹہری ہوئی پرسکون آواز
ابّو میں کراچی ایرپورٹ سے بول رہا ہوں۔ بس ایک گھنٹے تک گھر پہنچ جائوں گا ان شاءاﷲ… انہوں نے فوراً سجدہ ادا کرڈالا گویا اس کی بے چینی کو قرار مل گیا ہے!
فیصل کی واپسی پر پھر انواع و اقسام کے تبصرے تھے۔
ہاں دیکھو! وہاں تو گویا ہن برستا ہے۔ محض چار ماہ میں اس نے اتنا کمالیا کہ پاکستان کا چکّر بھی لگالیا (وہاں جانے کی حسرت!)
ڈی پورٹ تو نہیں کردیا گیا؟ (حسد بھری آواز)
ہاں اس کی ذہانت اور محنت تو ہر جگہ انعام دلواتی ہے… (رشک بھری آواز)
ابھی لوگوں پر یہ عقدہ نہ کھلا تھا کہ وہ مستقل طور پر پاکستان واپس آگیا ہے! یہ تو سلیم احمد ہی جان سکتے تھے جو اس نے ان کے گلے لگ کر کہا تھا۔۔۔
ابّو! اتنے خراب موسم میں اتنی گندی جگہ! میں محنت سے ہرگز نہیں گھبراتا مگر میرا دل روپڑا کہ صرف چند ڈالرز کے لیے میں اتنی جان ماروں؟ کیا یہ میں اپنے لیے نہیں کرسکتا؟… اور انہوں نے کچھ جواب نہ دیا تھا
اور اس پر اتنی حقارت اور بے رحمی!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیم احمد کو اس کے چند ماہ پہلے کے مکالمے یاد آئے مگر انہوں نے نہ دہرائے۔ وہ خود بول پڑا۔۔۔ ابّو وہ لوگ صاف کہتے ہیں اگر اپنی اقدار اور زبان قائم رکھنی ہے تو یہاں مت آئو!!!
اپنے وطن میں ہم کتنے فخر اور اطمینان سے رہتے ہیں۔۔۔۔ اور ابّو! سیٹ ہونا بھی بے معنی ہے! جو برسوں سے وہاں ہیں محض زندگی گزار رہے ہیں ہر چیز کریڈٹ پر! کوئی انویسٹمنٹ نہیں، نہ دنیا نہ آخرت! اسلام پر چلنا یہاں مشکل لگتا ہے مگر وہاں تو قائم رکھنا بھی بہت دشوار ہے۔۔۔
اور سلیم احمد سوچ رہے تھے۔ اس سفر نے وقت اور پیسہ تو ضائع کیا مگر جو سبق ملا وہ اس سے کہیں زیادہ اور قیمتی ہے! آخر موسٰی نے بھی تو خضر سے ہی آگاہی حاصل کی تھی!
سارے لوگوں کے روّیے ایک طرف مگر سب سے حیران کن اور افسوس ناک تبصرہ مریم کا تھا جس نے کہا:
میں نے تو ڈرائیونگ بھی سیکھ لی ہے! انگلش اور کمپیوٹر کورس بھی مکمل کرلیا۔۔۔ اور چائلڈ کیئر کا ڈپلوما کررہی ہوں
ویری گڈ! یہ ساری صلاحیتیں تو یہاں بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔۔۔ فیصل نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔
ہوں یہاں؟ اسکی آواز میں اتنی حقارت تھی کہ وہ دنگ رہ گیا۔۔۔ آپ واپس چلے جائیں کینیڈا۔۔۔ ۔میں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔ پہلے والا فیصل ہوتا تو بجھ کر رہ جاتا مگر وہ تو اتنی روشنی حاصل کرچکا تھا کہ مایوسی کا کوئی اندھیرا اس پر اثر نہ کرتا تھا۔ یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے! ورنہ چار ماہ باہر رہنے والے اکثر اپنی چالیس سالہ زندگی بھول جاتے ہیں!
تھکن اتارتے ہی اس نے آفرز میں سے بہترین کا انتخاب کرکے ملازمت کا آغاز کردیا تو امّی جان رخصتی پر تل گئیں۔ اس نے ماں کو روکا۔۔۔ ابھی مریم کو ذہنی لحاظ سے سیٹ ہونے کا موقع دیں۔۔۔ ارے ہوجائے گا۔۔۔ امّی پلیز۔۔۔
اور اس کے اصرار پر وہ خاموش ہوگئیں۔
فیصل کی واپسی کو چھ ماہ گزرچکے تھے۔ مریم کے والدین اس تعطل سے سخت پریشان تھے مگر پھر بھی بھرم رکھے ہوئے تھے جبکہ مریم کے انداز میں خاصی بے رخی آچکی تھی، وہ فیصل کی کوئی دلیل سننے کو تیاّر نہ تھی۔ آج مریم کی امّی سائرہ بانو خاصی تیّاری کے سا تھ اس وقت آئیں کہ فیصل سے ملاقات ہو۔ سلام دعا کے بعد وہ اپنے موضوع پر آگئیں۔۔۔
ارے ہاں بیٹا! اس سال ہم لوگوں کا ارادہ سہیل کے پاس امریکہ جانے کا ہے۔ بہت ضد کررہا ہے۔ میں ٹال رہی تھی کہ مریم کی رخصتی کے بعد ہی جائوں۔ پھر کینیڈا بھی آئیں گے تم لوگوں سے ملنے۔۔۔ انہوں نے ہلکے پھلکے اندازمیں اپنی بات کہنے کی کوشش کی مگر اس نے نہایت مہذّب طریقے ان کو روکا۔۔۔
مگر خالہ جان! (آنٹی سے خالہ جان پر آنا بھی دراصل ایک نفسیاتی گرہ کا کھلنا ہے کہ رشتوں کے معاملے میں ان کی تنگ دامنی کہ ایک ہی لفظ سے کئی کو بھگتاتے ہیں۔ ہمیں تو کوئی محتاجی نہیں ہے پھر کیوں ان کی پیروی کریں!) میرا تو کینیڈا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔ اس نے قطعیت سے کہا۔۔۔
کیا مطلب؟ انہوں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔ جواب میں انکو فیصل کی بات سننی پڑی جو الفاظ اور لہجے کی تبدیلی کے ساتھ وہ مریم سے سن چکی تھیں مگر ان کو اپنا نقطہ نظر بھی تو سامنے رکھنا تھا جس ایجنڈے کے تحت وہ آئی تھیں۔
مگر تھوڑے ہی عرصے کی بات تو ہے پھر امّی ابّو کو بلوالینا بلکہ بہنیں بھی۔۔۔
مگر میں اس مادروطن کو تو ساتھ نہیں لے جاسکتا جو میری شناخت ہے۔۔۔ وہ فضائیں جو میرے لیے ہیں، وہ ماحول جو میرا اپنا ہے! میں کیا کیا لیجائونگا؟۔۔۔
اس کی بات پر سائرہ بانو ہونق سی ہوگئیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ کب سنا اور سوچا تھا۔ انہوں نے تو اسے مریم کی خوش قسمتی سمجھا کہ وہ کینیڈا میں سیٹل ہوجائیگی اپنے بھائیوں اور کزنز کی طرح! ورنہ ڈاکٹر اور انجیئنرتو یہاں جوتیاں چٹخاتے رہ جاتے ہیں مگر نہ معلوم کیوں فیصل کے اندر اپنے داداجان کی روح آگئی! سب گڑبڑ ہوگئی؟ اگر پہلے یہ پتہ چل جاتا تو پھر۔۔۔
معّزز قارئین! اس کہانی کا اختتام مجھے خوش آئند اور پر امید کرنا چاہیے! مگر کیا کروں میرے انجام سے تمام کردار متفّق نہیں؟ مر یم نہیں مانتی! وہ ایک آزاد خیال معاشرے میں زندگی گزارنے کی خواہاں ہے۔ کیا اس کی یہ خواہش غلط ہے؟ مگر ساتھ ہی فیصل کے سا تھ زندگی گزارنے کا سپنا بھی آنکھوں میں بسا ہے۔ لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی طرح وہ بھی مخمصے کا شکار ہے توانجام دلفریب کیسے ہوسکتا ہے؟
حالانکہ وہاں کی حقیقی تصویر اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی مگر پھر بھی ایک نشہ ہے! ایک جادو ہے! ایک بہلاوا ہے جو حقیقت سے نظریں چرانے پر مجبور کرتا ہے۔
ایک بچّہ جس نے ہجرت کا گھونٹ ایک مقصد کے لیے چکھا تھا وہ اپنی اولادوں کو یہ ہی نظریہ منتقل کرسکا اور جو لوگ محض معیار زندگی کی نام نہاد بلندی کے لیے نقل مکانی کررہے ہیں وہ اپنی اگلی نسل میں مادّیت پرستی کے علاوہ کچھ بھی نہ پاسکیں گے!
ایسا کریں کہ اس کا انجا م آپ خود بنالیں! کیا خیال ہے؟
السلام و علیکم،
بہت اچحے موضوع پر لکھا ہے آپ نے سسٹر فرحت۔
میں بھی اس کہانی کی مریم ہوں اور اپنے فیصل کے ساتھ ‘آزاد خیال’ معاشرے کے جہنم میں رہتی ہوں۔ اس کہانی کے فیصل نے بہت اچھا فیصلہ کیاکہ بروقت واپس چلا گیا اور اس مریم کو اور اس جیسی اور مریموں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور یہ دجالی وقت ہے، اس وقت جو جنت نظر آرہی ہے وہ اصل میں جہنم ہے اور جو جہنم لگتا ہے وہ درحقیقت جنت ہے۔ اپنی سرزمین مت چھوڑو بلکہ اسکو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرو۔ مسلمان اس دنیا میں آسائش کی زندگی نہیں بلکہ آزمائش کی زندگی گذارنے آتا ہے۔ آپ کی اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو آپ کی اس دنیا میں حق کے لیے کی گءی کوششوں سے متعین ہوگی۔ نیکیوں کے مواقع تو آپ کی سرزمین میں ہیں، دیار غیر میں تو گناہوں کے مواقع زیادہ ہیں۔ تو کیوں کرتے ہو خسارے کا سودا!
خوش آئند بات یہ ہے کہ میرا فیصل بھی یہاں سے نکلنے اور کسی مسلم ملک جانے پر راضی ہوگیا ہے آخرکار الحمداللہ۔
jzakAllah for liking . This is real story and the decision of leaving the country was so so horrible that I could’t complete it May Allh grant you peace and we could make a better place for human .
I wish all my brothers / sisters who left Pakistan come back , including my real brothers and cousins , but it is possible only here is prosperity. May Allah grant us !!!