خواتین کے حقوق کے محافظ: نبی اکرمﷺ

محسن اعظمﷺکے احسانات پوری نوع انسانی پر ہیں لیکن صنف نازک اس احسان کی خصوصی طو ر پر مرہونِ منت ہے جس کو اس کا حقیقی مقام دلا کر آپ ﷺ نے گویا ایک نئی زندگی عطا کی۔یہ حقیقی مقام کیا تھا؟ آدم اور حوا کی تخلیق کے وقت مرد اور عورت کی اس حیثیت کا تعیّن کر دیا گیا تھاکہ دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہی ہے’’۔ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں‘‘۔ (النساء ۴ : ۱)

انسانیت کے شرف اور اکرام میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی۔۔۔’’لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہیـ‘‘۔ـ(سورۃ الحجرات ۴۹: ۱۳) دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے بھی جنس کی کوئی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ ’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔(النحل : 97) اس ہدایت ربانی سے تحریف کرتے ہوئے یہودیت اور مسیحت نے عورت کو ازلی گناہ کا سرچشمہ ، شیطان کا آلہ کار اور معصیت کادروازہ قرار دیا دیگر مذاہب اور اقوام نے بھی اسے قابل فروخت جانا اور تمام تمدنی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی اس گم کردہ حیثیت کے برعکس نبی مہربان ﷺ نے اسے دوبارہ عزت ورفعت سے ہم کنا ر کیا۔آپﷺ نے نہ صرف اسے باعزت طور پر زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔ بلکہ جنت مائوں کے قدموں تلے کے اعلان کے ساتھ اسے مردوں سے بھی بلند درجہ عطا فرمایا۔

آج صنفی مساوات کی بحث میں اسلام میں عورت کے مقام کو نشانہ تنقید بنایا جاتاہے۔ غیر تو غیر ہم نور الہیٰ کے حامل بھی اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺنے 7ویں صدی عیسوی میں عورت کو وہ تمام معاشرتی وتمدنی حقوق عطا کیے جو مغرب کی عورت کو 18ویںصدی عیسوی میں انتہائی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئے۔14ویںصدی عیسوی میں مغرب میں عورت کو روح کے بغیر وجو د باور کیا جارہا تھا۔1400 ء سے 1700 ء تک لاکھوں عورتوں کوچڑیلیں قرار دیتے ہوئے زندہ جلایا جارہا تھا۔جبکہ اس سے 800 سال قبل رسالت مآب ﷺ عورت کو کن رفعتوں سے ہمکنارکر رہے تھے۔ چند فرمودات رسولﷺ کی جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
’’اونٹ کے ساربان سے فرمایا جارہا ہے۔ آہستہ اونٹ دوڑائویہ نازک آبگینے ہیں‘‘(بخاری ۔ کتاب المنا قب )
’’لوگو !عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘‘۔( خطبہ جحتہ الوداع )
’’لوگو اللہ نے تم پر حرام کی ہے مائوں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا‘‘۔( بخاری ۔کتاب النکاح )

بیوی کے وقار اور اس کی منزلت کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ حسن سلوک اور دل جوئی کو ایک شوہر کی خوبی اور شرافت کا معیار قرار دیا۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہے اورمیں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے لیے اچھا ہوں ‘‘(ابن ماجہ) نیز فرمایا: ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے ‘‘۔( مسلم ۔کتاب النکاح ) آج اسلام کے نظام وراثت میں عورت کے لیے مقررہ کر دہ حصّے پرتنقید کرنے والوں کو شاید یہ یاد نہیںکہ 18 ویںصدی تک مغربی دُنیا عورت کے حق ملکیت اور حق وراثت سے ناآشنا تھی ۔نبی مہربانﷺ نے نہ صرف باپ، بھائی ، شوہر اور بیٹے کو اس کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ آمدنی وجائیداد پر اس کا حق ملکیت اور حق ا ختیارلازم رکھا۔ عورت کو ماں، بیوی ، بہن ، بیٹی ، نانی ، نواسی ، دادی ، پوتی کی حیثیت میں وراثت کا حق عطا کیا گیا۔

16 ویں اور 17 ویں عیسوی میں یورپ کی عورت ڈگری کے حصول کا حق طلب کررہی تھی اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی تعلیمات سے منور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو قرآن و حدیث کی تعلیم دے رہی تھیں اور وہ اپنے کسی اختلاف رائے میں اپنی ماں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کوحجّت تسلیم کرتے ہوئے سر تسلیم خم کر رہے تھے اور آنے والے ادوار میں خواتین علماء مدینہ ، عراق ، کوفہ بصرہ اور دیگر علاقوں میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے ہزاروں افراد کے دل و دماغ کو منور کر رہی تھیں اور علماء ان خواتین کی علمی خدمات اور جلالت شان کا اعتراف کر رہے تھے۔

آج 21ویں صدی میںGirl child کے مفاد کو پہلے Bejing plat form for action(BPA) اور پھر MDGs(Dev.Goals (Millinum میں اہم مقام دیا گیا. آپ ﷺ نے 1500 سال قبل فرمایا، ’’جس شخص کے لڑکی ہو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے نہ اس سے حقارت آمیز سلوک کرے نہ اپنے لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔(ابودائود کتاب الادب ) نیز فرمایا ’’جس شحص کے تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو علم و ادب سکھائے ا ور ان کی پرورش کرے اور اان پر مہر بانی کرے اس کے لیے ضرور جنت واجب ہو جاتی ہے ‘‘۔(بخاری )

والدین کو بحیثیت ولی لڑکیوں کے ہم پلہ رشتوں کی تلاش کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور شادی میں لڑکی کی رضامندی کو نکاح کے انعقادکی لازمی شرط قرار دیا. آپ ؐ نے خود ایک ایسی لڑکی کو جس کے والدین نے اُس کی رضا کے برخلاف نکاح کردیا تھا، حق دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو فسخ کروادے۔ نیز ظالم ناکارہ، نا پسندیدہ شوہر کے مقابلے میں عورت کو خلع اور فسخ نکاح کے وسیع اختیارت دئیے اور مطلقہ اور بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی ۔ معاشرے میں عورت کی جان ،مال اور آبرو کو تحفظ عطا کیا ۔مردوزن کے لیے غض بصر، ستر وحجاب کے احکام اور بنیادی اخلاقی اقدار کی پاسبانی لاز م قرار دی ۔ عورت کے کردار پر اٹھنے والی غلط آوازکو قذف کا مرتکب ٹھہرایا۔ریاست کے معاملات میں خواتین کی رائے ، مشورہ اور محاسبہ کو نہ صرف اہمیت دی گئی بلکہ مر د کی طرح اسے معاشرتی تعمیر وترقی کا ذمّہ دار ٹھہرایا گیا ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ اسی ذمہ داری کی تائید ہے۔خواتین کے حقوق کو متعین کر کے افراد اور ذمہ دار ان پر نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ ان کے تحفظ کی ضمانت کے لیے انہیں اللہ کی خوشنودی حلّت و حرمت ، گناہوں کی مغفرت ، جنت کے حصول اور آتش دوزخ سے نجات کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔

رحمتہ العالمین کیخواتین پر چند احسانات ایسے بھی ہیں جو اغیار کی طرف سے حقوق نسواں کے خلاف امتیازات قرار دئیے جاتے ہیں ۔ غور تو کیجیے کیا باجماعت نماز سے فراغت ، قانونی گواہی میں رخصت جہاد اور قتال فی سبیل اللہ سے رخصت عورت کے خلاف امتیازات ہیں یا احسانات؟؟محسن نسواںﷺ کے احسانات کا تذکرہ ہو تو میرے اور آپ کے لیے انہوں نے جنت کے راستے کا جو Short cut بتا دیا اس کا ذکر کیوں نہ کریں۔فرمایا’’جس عورت نے پانچوں نمازیں ادا کیں ۔ رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگئی‘‘۔(بزار۔ مجمع الفوائد۔ کتاب انکاح)

اس معاملے کے دوسرے پہلو پر بھی نظرڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیا جو عورت رحمتہ للعالمین کے بے پایاں احسانات سے لطف اندوز ہو رہی ہے ا س پر آپ ﷺ نے کوئی ذمہ داری بھی ڈالی ہے؟کیا اس کے لیے کسی کو بطور اسوہ بطور راہنمائی ہمارے سامنے بھی رکھا ہے؟ آج حضورؐ کی تعلیمات کی یادہانی کے موقع پر یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا ازواج مطھرات جو ہماری مائیں قرار پائیں اور بنات رسولﷺ جنہوں نے آپ ﷺ کی آغوش میں تربیت پائی۔ ہمارے لیے نمونہ عمل نہیں ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے عمل، ہمارے رکھ رکھائو ، ہمارے ظاہر ، ہمارے باطن ، ہماری فکروں، ہماری آرزئوں ، ہماری چاہتوں میں کوئی مماثلت امھات المومنین اور بنات رسولﷺ سے بھی ہے؟آئیے آج ہم غور کریں وہ اسوہ کیا ہے؟ازواج رسول ؐ اور بنات رسولﷺ کا نمونہ عبدیت کیا تھا؟انفاق فی سبیل اللہ میں ان کا طرز عمل کیسا تھا؟ دین کے احکام سمجھنے اور سکھانے کے لیے ان کی جدوجہد کیا تھی؟ اپنے شوہر سے محبت، وابستگی اور ایثار وقربانی کے جذبے کیسے تھے؟حیا اور اخلاق فاضلہ میں ان کے کردار کیسے رچے بسے تھے؟تربیت اولاد میں امام حسینؓ اور امام حسن ؓکے سانچے کیسے ڈھلے تھے ۔آج اگر پاکستان میں یا کسی اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں جو بنی مہربان نے متعین کیے تو اس کے لیے قصور وار اسلام اور اس کی تعلیمات نہیں ۔ یہ قصوربھی ہمارا ہے اور ان حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہماری ہے ۔ نبی رحمت حضرت محمدﷺ قیامت تک کے لیے ہدایت اور روشنی کا منبع ہیں ۔آپؐ کی تعلیمات کسی خاص وقت، ماحول اور علاقہ کے لیے مخصوص نہیں تھیں۔ اس لیے زندگی کے ہر میدان کی طرح خواتین کا مقام ومرتبہ ، ان کے حقوق کی فراہمی ، فرائض کی ادائیگی اور تعلقات کی نبیادیں ، تعلیماتِ قرآنی اور اسوہ نبویؐ کی روشنی میںوہی رہیں گی۔ ہر دور میں ہمیں اپنے رویّوں اور کردار کو اپنی ا س کسوٹی پر پرکھنا ہو گا۔ آج ہمیں مغرب کی تقلیدِ محض سے بچنا ہے تو دورِ جا ہلیت کی خوبو کو بھی خود سے دور کرنا ہوگا۔ ہمیں عورت کومرد کا ضمیمہء محض سمجھنے کے بجائے اس کی مستقل بالذات شخصیت کو عزت واکرام دینا ہوگا۔حق ِ زندگی کے ساتھ معاشرے کی ہر سطح پر اس کی عزت وناموس کو تحفظ عطا کرنا ہوگا۔فریضہ تعلیم کے حصول میں اس کی مدد کرنا ہو گی۔ اس کے حقِ کفالت کو حد درجہ یقینی بنانا ہوگا۔ شادی میں اس کی رضامندی کا حق اس کو لوٹانا ہوگا۔وراثت کا حصہ اسے بخوشی ازخود دینے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ اس پر ہر قسم کے گھریلو اور معاشرتی تشدد کی روک تھام کرنا ہوگی۔ اس کے گھر کی نگہبانی کے کردار کو اہم گرداننا ہو گا اور اسے یہ قابل ِفخر احساس دینا ہو گا کہ وہ اپنی ذہنی ، علمی اور معاشرتی سرگرمیوں کے باعث اپنے گھر اور معاشرے کا اہم فرد ہے جس کی بقا اور ترقی ہی میں گھر اور معاشرے کا استحکام مضمر ہے۔

دوسری طرف ہمیں اپنی نسوانیت کی حفاظت کرنا ہوگی۔ اپنے گھروں، شوہروں کے مال، اپنی عزت کی حفاظت اور بچوں کی تربیت کے لیے احساس جوابدہی اور ذمہ داری سے کام لینا ہوگا۔ صفت حیا کو مقدم رکھتے ہوئے لباس وانداز میں شائستگی اختیار کرنا ہوگی۔ اپنے گھروں کے گرد اپنی دینی اقدار کی حفاظت کا حصار باندھنا ہو گا۔ باطل مغربی افکار اور اطوار کو رد کرتے ہوئے اپنی مسلم شناخت پر احساس تفاخر پیداکرنا ہوگا۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے سے بہتر اور انسانیت کے لیے نفع بخش انسان معاشرے کو دے کر جانا ہوں گے۔ تو آئیے اپنے لیے دُعا کریں کہ جب حضرت فاطمہ الزہرا ؓ اہل جنت کی عورتوں کی قیادت کرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں تو ہم بھی ان کے قافلے میں آگے نہ سہی، پیچھے تو موجود ہوں۔

فیس بک تبصرے

خواتین کے حقوق کے محافظ: نبی اکرمﷺ“ ایک تبصرہ

  1. اسلام علیکم
    بہت خوب،جزاک اللہ خیر شگفتہ بہن-

    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
    اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
    شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
    کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
    مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
    اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
    اقبال

Leave a Reply