اس تحریر کے حصّہ اوّل و دوم میں ہم نے ہندو رہنماﺅں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں اور اس کے ردعمل میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی سوچ اور دوقومی نظریے کے تناظر میں مسلم زعماء کے اقوال پیش کئے. تحریر کے آخری حصے میں ہم 1940ء کے اس اجلاس کا احوال پیش کریں گے جس میں دو قومی نظرئیے کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔
21مارچ 1940 کی شام کوآل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا آغاز ہوا اور 22 مارچ کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران واضح طور پر فرمایا کہ ”اس امر کی وضاحت کرنا کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو ازم کی حقیقی صورت حال اور حقیقت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں، ایک بڑا مشکل امر ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں کسی قطعی اعتبار سے اور لغوی اعتبار سے مذہب نہیں ہیں لیکن دوحقیقت یہ سماجی اور معاشرتی ضوابط ہیں اور یہ محض کہ ہندو اور مسلمان کوئی ایک قومیت بنا سکیں گے اور یہ غلط فہمی اب قصہ پارینہ ثابت ہوچکی ہے، یہ نہیں بلکہ یہ غلط فہمی۔۔۔۔ تمہارے لئے کئی طرح کی مشکلات کا موجب بنی ہوئی ہے اور یاد رکھیں کہ یہ غلط فہمی ہندوستان کو تباہی تک پہنچا دے گی۔ اگر ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے سے قاصر رہے اور اپنے ان خیالات میں تبدیلی نہ لاسکے تو تباہی لازمی ہوگی۔ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں، سماجی رسوم رواج اور علمی ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ تو وہ آپس میں شادی کرستے ہیں اور نہ ہی مل کر کھا سکتے ہیں۔ درحقیقت وہ دونوں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تہاذیب کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کے بارے میں دونوں کے نظریات دیگر پہلو ایک سے دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو مسلمان تاریخ کے مختلف شعبوں اور ذرائع سے اکتساب کرتے ہیں۔ دونوں کی رزمیہ تاریخ مختلف ہے، دونوں کے ہیرو مختلف ہیں، دونوں کے حالات و واقعات بھی مختلف ہیں، بلکہ یہاں تک کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن اور ایک قوم کا دشمن دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ دونوں ایک کی شکست دوسرے کی فتح اور ایک کی فتح دوسرےکی شکست ہوتی ہے۔ ایسی دوقوموں کو کسی ایک ہی سلطنت میں کردینا کہ جن میں ایک تو عددی اقلیت میں ہو اور دوسری واضح اکثریت میں، اس کا نتیجہ لامحالہ بے سکونی، ابتری اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا۔ ان دونوں کے لئے کسی بھی وضع کی حکومت بنادی جائے اس کا نتیجہ یہی بر آمد ہوگا۔ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں اس کے لئے چاہے قوم کی کی کوئی بھی تعریف کی جائے، اس کے تحت یہ ایک قوم ہیں، اس لئے ان کا اپنا ایک وطن ہونا چاہئے، ان کا اپنا ایک علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے“
قرار داد پاکستان:
23 مارچ کو یادگار قراد لاہور پیش کی گئی جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ شیر بنگال ابو القسیم مولوی فضل الحق نے یہ قرار داد پیش کی۔
1۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور فکر کے بعد اس ملک کے لیے صرف اسی آئین کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم تصل ریجنوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقت ضروت ان میں اس طرح رد و بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانو ں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
2۔ ان وحدتوں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کے مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعد موثرتحفظات شامل ہوں اور ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں نہیں تحفظ کا یقین دلایا جائے۔
3۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں پر مبنی آئین کا لائحہ عمل مرتب کرے جس میں دونوں خطوں کے تمام اختیارات اور دیگر اہم امور کو سنھبالنے کا انتظام کیا جائے۔
یہ قرارداد پیش ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے سب سے پہلے اس کی تائید و حمایت کی، ان کے بعد مولانا ظفرعلی خان، سردار اورنگزیب خان، سر حاجی عبد اللہ ہارون، نواب اسمٰعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ اور آئی آئی چندریگر نے بھی اس قرار داد کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس اجلاس اور قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد کو واضح شکل دیدی گئی اور مسلمانوں کی جدوجہد آازادی میں تیزی آتی گئی اور بالآخر 14اگست 1947ء کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت ”پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا۔
ہمارے بزرگوں نے ہندﺅں کے ساتھ رہنے اور ان کا رویہ دیکھنے کے بعد الگ ملک کاخواب دیکھا اور اپنی جدو جہد سے اس خواب کو تعبیر میں بدلنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن افسوس کہ آج ہم نے اپنی آزادی کی قدر کھو دی ہے۔ مسلمان اکابرین نے ہندﺅں کے متعصبان رویّے کے بعد دو قومی نظریہ پیش کیا اور آج ہم دو قومی نظریئے کی نفی کرتے ہوئے مسلمانوں کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے گن گا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی برادری میں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا از بس ضرری ہوتا ہے لیکن یہ تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں یکطرفہ طور پر دوستی کی پینگیں بڑھانا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
آج دو قومی نظریئے کی نفی کرتے ہوئے ایک بار پھر ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ تہذیب، مشترکہ ثقافت کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ آج ہمارے نوجوان اردو زبان تک سے نا واقف ہوتے جارہے ہیں۔ ڈراموں اور پروگرامات میں ہندی رسوم رواج پیش کئے جارہے ہیں. اردو زبان تک کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے، ایک چینل پر ایک اینکر پرسن مسلسل ”خاص “کو” کھاص“ کہتے رہے۔ اور اب تو میڈیا اور ایڈور ٹائزنگ کمپنیاں بھی اپنے اشتہارات، ہورڈنگز، سائن بورڈز پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردو (جو کہ انڈیا میں استعمال کی جاتی ہے) میں اشتہارات پیش کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھے گا تو ایک وقت آئے گا کہ ہماری نئی نسلیں اپنی قومی زبان ”اردو“ تک سے نا آشنا ہوجائیں گی۔ دنیا بھرکی زندہ دل قومیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیمی اور کھلیوں کے میدان میں مقابلہ کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں پھکڑ پن، بازاری انداز گفتگو اور فحش گوئی (جسے بد قسمتی سے یہاں مزاح کہا جاتا ہے) کے مقابلے کئے جاتے ہیں (لافٹر چیلنج وغیرہ) اس سے ہٹتے ہیں توپھر ناچ گانے کا مقابلے کئے جاتے ہیں یا پھر کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کر سمجھا جارہا ہے کہ یہ قوم کی بڑی خدمت کی جارہی ہے۔ اربابِ اختیار، سیاسی رہنما، اور میڈیا یہ بات پیش نہیں کرتے کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں تعلیمی معیار کس قدر اونچا ہے، وہاں شرح خواندگی کس قدر بلند ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سوفٹ وئر وغیرہ میں وہ ہم سے کس قدر آگے ہیں۔
آج مشترکہ تہذیب اور ثقافت کے نام پر امن کی آشا کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن یہ بھارت بہت سمجھدار ہے۔ ایک جانب ہمیں فلموں، گانوں، لافٹر اور کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کر خود اپنا کام کرتے جارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں دریاﺅں پر ڈیم بنائے جارہے اور یہ ڈیم پاکستان کے لئے تباہی کا باعث ہیں کیوں کہ اب انڈیا جب چاہے گا ہمارا پانی روک دے گا اور جب چاہئے گا بغیر اطلاع کے ہمارے دریاﺅں میں پانی چھوڑ کر سیلاب کی کیفیت پیدا کرلے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں تجارت کے نام پر سبز باغ دکھا کر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
کیا یہی جدو جہد آزادی کا مقصد تھا؟
کیا ہم نے فراموش کردیا ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کن لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے؟
کیا یہی دو قومی نظریہ تھا؟
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرارداد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو سامنے رکھیں اور ان مقاصد کی روشنی میں تعمیر پاکستان کا کام کریں۔ یاد رکھیں کہ یہ کام میں اور آپ ہی کریں گے۔ ہم نے مل کر ہی اپنے وطن کو سنوارانا ہے۔
آخری بات یہ کہ ”سب کا اتفاق ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال و انحطاط کی گہرائیوں میں گرا جارہا ہے. ہر فرد اس سے بھی متفق ہے کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہونا چاہئے
مگر کیسے؟ ہر ایک کا خیال ہے کہ… میں پہل کیوں کروں؟ دوسرے ٹھیک ہوجائیں گے تو میں بھی خود کو درست کرلوں گا. بس یہی ہے اصلاح اور درستی حالات کی راہ کا بھاری پتھر..!
جبکہ اچھائی، اصلاح، سدھار اور درستی حالات کی صحیح اور کامیاب ترتیب اس کے برعکس ہے کہ…
میں خود کو ٹھیک کرلوں، اچھائی کا آغاز اپنی ذات اور اپنے گھر سے کردوں اور معاشرے میں خیر کا پہلا پھول میں کھلا دوں… تو دوسرے بھی ایسا کرنے پر آمادہ اور راغب ہونگے.
ہم سب کیوں نہ یہ اتفاق کرلیں؟ کہ ”عروج و ترقی اور خیر و فلاح کا آغاز میری ذات سے ہونا چاہئے“
اس بات پر غور کیجئے گا۔
پاکستان زندہ باد…
Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ دوم) | قلم کارواں
Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ اوّل) | قلم کارواں
We need to remind history carefully, Nations set their future target on the base of the past.