مسلم زعماء اور دوقومی نظریہ:
گذشتہ تحریر میں ہم نے دو قومی نظریے کے پش پشت کارفرما عوامل ان تحریکوں پر بات کی تھی جو مسلمانوں کے خلاف ہندوستان میں چلائی گئیں. 23 مارچ 1940ء کو تو دراصل برصغیر کے مسلمانوں نے سیاسی طور پر دو قومی نظرئیے کا اعلان کردیا ورنہ درحقیت تو مسلمان دو قومی نظریے کو بہت پہلے تسلیم کرچکے تھے۔ ذیل میں ہم اس حوالے سے کچھ مسلمان اکابرین کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں.
سرسید احمدخاں:
سرسید احمد خان وہ پہلی شخصیت تھے جنہو ں نے دو قومی نظریئے کا اعلان کیا۔ 1967ء میں سرسید احمد خان نے ایک موقع پر یہ فرمایا کہ ”برصغیر میں دو بڑی قومیں آباد ہیں۔ ہندو اور مسلمان“ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ”ہندوستان ایک ملک نہیں یہ ایک براعظم ہے اوریہاں مختلف نسلوں اور مختلف روایات کے لوگ آباد ہیں“
مولانا عبد الحلیم شرر:
معروف ادیب، افسانہ نگار، صاحب طرز قلم کار مولانا عبد الحلیم شرر نے 1890ء میں کہا تھا کہ ”بہتر ہوگا کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان صوبوں میں تقسیم کرکے تبادلہ آبادی کرلیا جائے۔
مولانا محمد علی جوہر:
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو اور مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے 1911ء میں ارشاد فرمایا تھا کہ ”ہم متحدہ ہندوستان پر یقین نہیں رکھتے، یہ سہولت کی شادی ہے جو پر وقار طریقے پر ہوسکتی ہے اور اسے پر وقار انداز میں برقرا رکھا جاسکتا ہے“
خیری برادران:
جرمنی قائم ہونے والی انڈین انڈیپینڈنس کمیٹی (Indian independence committee) کے عبدالجبار خیری اور عبد الستار خیری (المعروف خیری برادران) نے 1927ء میں کہا کہ ”ہندوستان کی تقسیم انڈیا اور مسلم انڈیا کی بنیاد پر ہونی چاہئے“.
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ :
1928ء میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”ہندوستان میں ایک علیحدہ مسلم مملکت کا قیام عمل میں لانا ناگزیر ہے“.
سر سلطان محمد آغا خان:
1928ء میں آپ نے کہا کہ ”جب ہندوستان غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوجائے گا تو اس کی وحدانی غیروفاقی حکومت نہیں ہوسکتی۔ شمال مغرب اور مشرق کے مسلمان اپنی مرضی کی ریاست بنائیں گے“.
مولانا مودودی ؒ :
عظیم مفکر، دانشور، اور صاحب طرز ادیب، تفھیم القرآن کے مصنف مولانا مودودی ؒ نے 1937ء میں فرمایا کہ ”مناسب تو یہ ہوگا کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں کی دو علیحدہ قومی وفاقی ریاستیں وجود میں آئیں، جو کنفیڈریشن کی طرح مربوط ہوں۔ علاوہ ازیں انہوں نے فرمایا کہ ”مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے، تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہوجائے تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو، تو میں اس کے ایک ذرہ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔“
ایک طرف دو قومی نظریئے کے بارے میں مسلمان زعماء کی یہ رائے تھی اس کے ساتھ ہی 29 دسمبر 1930ء میں علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا اور یہ تصور سیکولر یا محض ایک مملکت کا نہیں بلکہ اسلامی مملکت کا تصور تھا. یہاں ان کے صدارتی خطاب کے کچھ اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ”جس شخص کو آپ نے آج آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا ہے وہ اب بھی اسلام کو ایک زندہ طاقت سمجھتا ہے، وہ طاقت جو انسانوں کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دلا سکتی ہے۔ اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے. سوچنا ہمیں یہ ہے کہ ف الواقعہ مذہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے؟ اور کیا ہم اسے ذاتی معاملہ قرار دے کر اسلام کو بھی سیاسی و اخلاقی نصب العین میں اس منزل پر پہنچانا چاہتے ہیں جو قبل ازیں مغرب مسیحیت کے ساتھ ہوچکا ہے؟ دوسری صورت یہ ہے اگر ہم اسلام کو بدستور اخلاقی تخیل کے طور پر رہنے دیں مگر اسلامی نظام سیاست کی جگہ کسی قومی نظام کو اپنا لیں جس کے تحت مذہب درمیان میں نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے؟ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں کچھ اور آگے جانا چاہتا ہوں. میں تو چاہتا ہوں کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت دیدی جائے ،چاہے پھر یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر ہی اپنی خودمختار حکومت قیام عمل میں لائے یا اس سے باہر! مگر میرا احساس ہے کہ آخر کار شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ اسلامی ریاست لازماً قائم کرنی پڑے گے۔
ہندﺅں کو یہ اندیشہ نہین ہونا چاہئے کہ آزاد اسلامی ریاستیں قائم ہوگئیں تو مذہبی حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا، اسلام میں مذہب کا وہ مفہوم نہیں جو ہندو سمجھتے ہیں اسلام ایک ریاست ہے، کلیسائی نظام ہرگز نہیں۔ اسلامی ریاست کا دارو مدار اخلاقی نصب العین پر ہوتا ہے۔
پچھلی دو تحریروں میں ہم نے آپ کے سامنے ہندو رہنماﺅں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیہ اورمسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کے خلاف مختلف ادوار میں چلنے میں تحریکوں کا مختتصر احوال بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ ہی اس کے رد عمل میں مسلمانوں کے اندر جو سوچ پیدا ہوئی اور دوقومی نظریئے کا خیال اجاگر ہوا وہ بھی آپ کے سامنے پیش کیا۔ اب ہم بات کریں گے 1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی جس میں دو قومی نظرئیے کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔
Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ سوم) | قلم کارواں
Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ اوّل) | قلم کارواں