دنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں نے میرا جھلسا ہوا چہرہ بیک وقت دیکھا—تالیاں بجائی گئیں اور وہ آسکر کے ریڈ کارپٹ پر چل کر ایوارڈ حاصل کرکے فضا میں بلند کرتی رہی اور میں دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے اپنی انتہائی گھناؤنی، متعفن اور نفرت انگیز تصویر اسکرین پر دیکھ رہی ہوں… یہ تیزاب جس نے بھی پھینکا اور جس مقصد سے یہ گھناؤنا عمل کیا قابل مذمت، عورت اپنا استحصال خود کررہی ہے یا مرد یہ بھی اس صدی کا اہم سوال رہا… لیکن اسکی خودمختاری عزت نفس اور زندگی کا استحصال کرنے والے تو قدم قدم پر موجود ہیں ہاتھوں میں تیزاب لئے.
ایک طرف ورکنگ وومن ہاسٹلز، دارالامان، گوشہ عافیت اور سوشل ویلفئیر سینٹرز آباد ہورہے ہیں تو دوسری طرف ائیر کنڈشنڈ کمروں میں بیٹھی آسودہ حال عورتیں پسماندہ عورتوں کے حقوق کے نام پر پارلیمنٹ میں بل پیش کررہی ہیں، قراردادیں منظور کرارہی ہیں لیکن مسئلہ صرف فیس کی “سیونگ” تک تو نہیں ہے جسے آسکر کے اسٹیج پر پیش کیا گیا، یہاں تو مسئلہ “سیونگ لائف” کا ہے اور تیزاب پھینکنے والے “نامعلوم” مجرم بھی نہیں ہیں… صرف چھ عورتوں کے دکھ اور مسخ چہروں کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کا اعلٰی ترین ایوارڈ دیا گیا، یہاں تو ہزاروں کہانیاں ہیں امریکی ڈرونز کا نشانہ بننے والی سینکڑوں عورتیں جنکی لاشیں تک دستیاب نہ ہوسکیں اور وہ جنکے بچے ان حملوں کی نذر ہوئے اور لاشیں تن بلڈوز کردی گئیں. آسکر کا اسٹیج ان چہروں کو کیسے دکھا سکتا ہے کہ اسکی زد تو “شہنشاہ عالم” پر پڑتی ہے. یہاں تو پہاڑوں، وادیوں اور بستیوں میں آسکر کے عنوان ہی عنوان بکھرے ہوئے ہیں… سینکڑوں ڈرون حملے جن سے رات دن بستیاں لرزتی رہتی ہیں. کتنے معذور ہوئے، کتنے اپاہج، کتنے ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں. جو نشانہ بن کر گزر گئے سو گزر گئے… لیکن انکے پسماندگان پہ کیا گزر رہی ہے یہ آسکر کی فلم کا عنوان کون بنا سکتا ہے بھلا؟جھلسے ہوئے چہرے تو اسکرین پر نظر آتے ہیں لیکن جھلسی ہوئی روحیں کسطرح اسکرین پر نظر آئیں جہاں ایک طرف کاروکاری کے نام پر قتل کردیا جاتا ہو اور صنف نازک قبائلی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہو، کبھی عزت کے نام پر قتل کردی جاتی ہو اور کبھی اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنتی ہو. ایک طرف “خواتین پر تشدد” کے عنوان پر ” فائیو اسٹار ہوٹلوں” میں سیمینار سجتے ہوں جسکے حقوق کے لئے پارلیمنٹ میں نشستوں کی اضافی تعداد زیر بحث رہتی ہو دوسری طرف بسنت پر “بو کاٹا کے بھنگڑے اور ویلنٹائن کی آڑ میں اسکا استحصال کیا جاتا ہے… وہ حقوق کا استحصال و پامالی، ناروا سلوک کبھی موضؤع سخن نہیں بنتا… بہر حال لگتا یہ ہے کہ عورت 14 سو برس پہلے جس جاہلیت کا شکار تھی آج بھی وہیں کھڑی ہے… آج بھی زر، زن، زمین اسی طرح فتنے کا سبب ہیں.
اگر محض قانون سازی اور عورتوں کو پارلیمنٹ میں بھیجنے سے اور بل منظور کرانے سے معاشرتی فساد کا خاتمہ ہو سکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک میں خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہوجاتا، جہاں خواندگی کی شرح 100 فیصد ہے اور قانون کی بالادستی معاشرے کی پہچان ہے…
ابھی یہاں تک ہی لکھ پائی تھی کہ فون کی گھنٹی پر قلم روک کر فون پر متوجہ ہوئی، دوسری طرف ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی بات کررہی تھیں… وہ ڈاکٹر عافیہ پر میری کسی تحریر پر شکریہ ادا کررہی تھیں. میں نے پوچھا “آپ نے دیکھا شرمین عبید چنوئے کو آسکر ایوارڈ ملا ہے. میں شرمین سے رابطہ کرکے کہوں گی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ پر بھی فلم بنائے… جھلسے ہوئے چہروں سے زیادہ دردناک جھلسی ہوئیں روحیں ہوتی ہیں جنکی کوئی ڈاکٹر جواد سرجری بھی نہیں کر سکتا. ایک جانب معاشرے میں تیزابیت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف جھلسی ہوئی روحیں… معاشرے کے دکھ منظر عام پر تو آنے چاہیئیں ان چھ عورتوں کے مجرم کو کوئی نہیں جانتا تھا تو ڈاکٹرعافیہ کے مجرم تو عالمی دہشتگرد ہیں. انکی تو تلاش بھی مشکل کام نہیں چاہے آسکر ایوارڈ ملے نہ ملے لیکن ڈاکٹر عافیہ پر فلم ضرور بننی چاہیئے… ہمیں خوشی ہوتی ہے جب مشتہر ہوتے ہیں ہمارے دکھ… اس دکھ کی تشہیر بھی آسکر کے اسٹیج پر ہونی چاہیئے.” میں لگاتار بولتی گئی وہ سنتی رہیں اور پھر گویا ہوئیں “بیٹا تم سمجھدار ہو جانتی تو ہو کہ ان موضوعات کی مغرب کی مارکیٹ میں بھلا کیا قیمت ہے؟ انکے تو اپنے من پسند، من بھاتے موضوعات ہیں، وہ تو پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ ساری دنیا کو دکھا کر ایک تمغہ پاکستان کو دیکر اپنے مقاصد کی آبیاری کرتے ہیں. وہ تو ان موضوع اور نعروں کو پسند کرتے ہیں جو انکی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں… آہ ہمارے پیارے دیس کی کیسی کیسی گھناؤنی تصویر دکھائی گئی ساری دنیا کو… میری معصوم عافیہ پر جتنا لکھا گیا اور کہا گیا انکی منڈی میں اسکی کوئی قیمت نہیں… امریکہ کی توہین وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟
مجھے آسکر ایوارڈنہیں چاہئیے مجھے تو میری عافیہ چاہئیے اب اس روئے زمیں پر کسی سے کوئی امید مجھے باقی نہیں بچی… ہاں امید قائم ہے تو آسمان والے کے ساتھ…” یہ کہتے کہتے انکی آواز ڈوبنے لگی اور میںخدا حافظ کہہ کر سوچنے لگی کہ حقیقت تو یہی ہے کہ مغرب کی اسٹاک مارکیٹ کے اپنے بھاؤ ہیں اور اسلام اور پاکستان اور عورت کے مسخ شدہ چہرہ پر وہ مزید عالمی ایوارڈ دے سکتے ہیں. ہاں شرط یہ ہے کہ شہنشاہ عالم کا تیزاب پھینکتا ہوا ہاتھ کسی کیمرے کی زد میں نہ آئے. نفرتیں بانٹنے والے ان عالمی اداروں کے اپنے سنہرے جال ہیں اور ہم بہر حال انکے شکاری… کچھ حقائق تو تیزاب سے بھی زیادہ تند و تیز ہیں لیکن جھلسی ہوئی روحیں اور کانپتی ہوئی آوازیں اور بستیوں میں پھیلے ہوئے نوحے کسی آسکر کے ریڈ کارپٹ سے گزر کر کب ایوارڈ فضا میں بلند کر کے داد و تحسیں پاسکتے ہیں ہاں مگر امید قائم کی جا سکتی ہے تو آسمان والے کے ساتھ…
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
بلاؤ خدایان دین کو بلاؤ
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ
ثناء خواں تقدیس مشرق کو لاؤ
ثناء خواں تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
you already said write enough JAZKALLAH O KHERAN KASIRA….. me trying to say something on this topic but waiting that lohay ko loha hi katta he so on women deeds a woman words needed here desperately and you done this . good show 🙂
ثنا خوان تقدیس مشرق اس وقت مغرب کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں بی بی…اور پتہ ہے ایسی لاکھوں تحاریر اور تحاریک کے باوجود انکے کانوں پر جوں کیوں نہیں رینگتی؟؟؟… اس لیےکہ وہ انگلش شیمپو سے نہاتے ہیں جو سر میں غیرت وحمیت اور شرمندگی جیسی کوئی جوں پیدا ہی نہیں ہونے دیتا…تو جب جوئیں ہی نہیں ہونگی تو کانوں پر جوں رینگے کی کہاں سے؟؟؟ اور ویسے بھی ثنا خوان تقدیس مشرق کافی دنوں سے مغرب کے اندھیرے میں گم ہیں اور اُنہیں مشرق کا اُجالا سجھائی نہیں دے رہا…
ویسے میں ایوارڈ والے دن سے یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ اگر شرمین عبید صاحبہ کوئی با حجاب اور عبایہ دار خاتون ہوتیں تو کیا گوری چمڑی کے متوالے کالے دل والے گورے اُسے ایوارڈ دے دیتے؟؟؟ کیا لاس اینجلس کے جگمگاتے اندھیرے تاریکی جیسے کالے برقعے والی حجاب زدہ ہیرے کی قدر کرتے؟؟؟؟؟
SAFDAR ALI SAFDAR SAHIB AP NE WO BAAT KEH DI JO PATHARON K DILON KO BHI AAB AAB KR DE …….. MGR KHER IDR INSANON K DIL PATHAR HEN NA K PATHRON K DIL…..
SUNAY KON QISSA E DARD E DIL …MERA GHAM GUZSAAR CHALA GEYA