مارچ کا مہینہ تحریک پاکستان کے حوالے سے انہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ 23مارچ 1940کو ہی مسلمانانِ ہند نے قرار داد پاکستان کے ذریعے اپنی الگ وطن کی تحریک کو جِلا بخشی اور عملی جدوجہد میں ایک نئے ولولے نئے جوش سے حصہ لیا جس کے باعث سات سال مختصر عرصے میں ہی مسلمانانِ ہند اپنے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر کئی جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اگرچہ یہ الزامات گزشتہ باسٹھ سالوں سے لگائے جارہے ہیں لیکن کچھ عرصے سے بالخصوص ایک لسانی ٹولہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی ؒ کی کردار کشی کی مہم چلانے میں پیش پیش ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی پر الزام لگانے والے اپنے الزامات کے حق میں کوئی دلیل ،کوئی شہادت نہیں پیش کرتے بس وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اسی کو درست مان لیا جائے۔ بہرحال ۔ہم کوشش کریں گے کہ یہاں تحریک پاکستان،علامہ اقبالؒ ،قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی مرحومؒ کی جدوجہد کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔
سب سے پہلے ہم بات کریں گے کہ مولانا مودودی ؒ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے قائد اعظم ؒ کو کافر اعظم کہا تھا۔یہ بات کہنے والے آج تک اپنی بات کے حق میں کوئی شہادت پیش نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی کرسکتے ہیں کیوں کہ جب ایک بات ہوئی ہی نہیں ہے تو اس کے بارے میں شہادت کیسی۔ اصل بات جو کہ لوگوں کو کم ہی معلوم ہے اور جن کو معلوم بھی ہے تو وہ جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہیں ۔قائد اعظم ؒ کو مولانا مودوی ؒ یا جماعت کے کسی بھی لیڈر نے کبھی بھی کافر اعظم نہیں کہا بلکہ یہ جملہ اس وقت کے ایک مشہور احراری لیڈر مظہر علی اظہر تھے جنہوں نے لاہور کے ایک جلسۂ عام میں یہ بیہودہ بات کہی تھی اور اس جلسے کی صدارت غلام غوث ہزاروی صاحب کررہے تھے۔ منیر انکوائری رپورٹ میں اس واقعہ کا تذکرہ دیکھا جاسکتا ہے۔
مولانا مودودی اور دو قومی نظریہ :
1937 ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان خود علماء کرام کی بہت بڑی تعداد بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئی ۔کانگریس یہ کہتی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اور ہندو سب مل کر ایک قوم ہیں ۔یہ ایک ایسی خطرناک بات تھی کہ اگر اسے مان لیا جاتا تو ہندستان میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت بالکل ختم ہوجاتی اور ان کا دین بھی خطرے میں پڑ جاتا ۔ کانگریس کے اس نظرئے کو ’’متحدہ قومیت ‘‘ یا ’’ایک قومی نظریہ ‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ سید مودودیؒ نے اس خطرے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ حصہ اول و دوم کے نام سے شائع ہوئے۔ ان مضامین میں سید مودودی نے زوردار دلیلوں سے ثابت کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں ۔کیونکہ دونوں کا تصورِ خدا،مذہبی عقیدہ،رہن سہن، اور طور طریقے سب جدا جدا ہیں، انہیں ایک قوم کہنا بالکل غلط ہے۔1940 ء کی قرارداد پاکستان کے بعد مسلمانوں کے بڑے بڑے رہنما اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر بھی یہی بات کہنے لگے۔ اسے ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سید مودودی نے مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے نظرئے کو اتنے اچھے اور عمدہ طریقے سے ہیش کیا کہ کہ اس خوبی کے ساتھ اب کوئی اور شخص مسلمانوں کے علیحدہ قومی تصور کی مدلل وکالت نہیں کرسکا تھا۔سید مودودی نے قرآن و حدیث سے دلائل دیئے۔۔۔۔اس طرح سید مودودی پہلے شخص تھے جنہوں نے نظریہ پاکستان کو علمی سطح پر دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پاکستان کے حق میں دو قومی نظریہ کے لئے زبردست عقلی اور اسلامی دلائل فراہم کئے ۔ ان دلائل کا کانگریس کے ساتھ وابستہ علماء کرام کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔اس کے بعد پاکستان کا تصور مسلمانوں میں پختہ ہوگیا اور مسلم لیگ کے علیحدہ اسلامی اور قومی وطن کی مہم کو سید مودودی کے ان دلائل سے زبردست تقویت ملی۔(اب یہ مضامین’’ تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ حصہ اول و دوم کے نام سے چھپ چکے ہیں) پاکستان کے حق میں یہ سید مودودی کی یہ زبردست خدمت ہے جو انہوں نے علمی میدان میں سرانجام دی۔(سید مودودی از اسعد گیلانی صفحہ 53-54)
اپنے ان مضامین کے بارے میں خود مولانا مودودی ؒ کے الفاظ ہیں کہ’’ 1937 ء میں مجھ کو حیدرآباد سے دہلی جانے کا اتفاق ہوا اس سفر کے دوران میں مَیں نے محسوس کیا کہ ہندستان کے چھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد مسلمانوں پر کھلی کھلی شکست خوردگی کے آثار طاری ہوچکے ہیں۔دہلی سے جب میں واپس حیدر آباد جارہا تھا تو ریل میں ایک مشہور ہندو لیڈر ڈاکٹر کھرے (ڈاکٹر کھرے 1937کے انتخابات کے بعد سی پی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے ) اتفاق سے اسی کمپارٹمنٹ میں سفر کررہے تھے جس میں مَیں تھا اور بھی بہت سے مسلمان اس میں موجود تھے میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈاکٹر کھرے سے بالکل اسی طرح باتیں کررہے ہیں جیسے ایک محکوم قوم کے افراد حاکم قوم کے فرد سے کرتے ہیں یہ منظر میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔حیدر آباد پہنچا تو یقین کیجئے کہ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی سوچتا رہا کہ یا اللہ ! اب اس سرزمین پر مسلمانوں کا کیا انجام ہوگا۔آخر کار میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھا جو ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ حصہ اول کے نام سے شائع ہوا۔ (جماعت اسلامی کے 29سال صفحہ 17 ایڈیشن ستمبر 2009 )
مولانا مودودی اور تقسیم ہند
آج امن کی آشا،رواداری،وغیرہ کے نام پر ہندوستان کی تقسیم کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیا پر نام نہاد قسم کے دانشور حضرات بڑی شدو مد سے نظریہ پاکستان کی مخالفت میں گفتگو کرتے ہیں اور اس کو رواداری اور برداشت کا نام دیا جاتا ہے اگر کوئی فرد اس کے خلاف بات کرے تو اس پر انتہا پسندی اور عدم برداشت کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ایسے دین بیزار و ملک دشمن لوگ تو آزادی اظہار رائے کے نام پر ہر قسم کی ہرزہ سرائی کرسکتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ جن لوگوں نے قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کی رہنمائی کی ان کے بارے میں منفی پروپگینڈہ کیا جاتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودوی پر پاکستان کی مخالفت کا الزام تو لگایا جات ہے لیکن یہ بات کہنے والے پتہ نہیں کیوں متحدہ کے قائد الطاف حسین کی انڈیا کے دورے میں کی گئی تقریر (جس میں انہوں نے واضح طور پر تقسیم ہند کو انسانی تاریخ کی ایک عظیم غلطی کہا تھا )کو بھول جاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں لوگ سندھ کے موجودہ وزیر داخلہ اور پی پی پی کے اہم رہنما ذوالفقار مرزا کی یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ ’’ بی بی کے قتل کے بعد ہم نے پاکستان توڑنے کا منصوبہ بنا لیا تھا ‘‘ گویا کہ اگر ان لوگوں کے نزدیک پاکستان کا وجود صرف اپنے مفادات کے لئے ہی کارآمد ہے ورنہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔ایسے تمام لوگوں اے این پی کے ماضی کو نظر انداز کردیتے ہیں جب عبد الغفار خان صاحب کو ان کے پاکستان مخالف نظریات کی بناء پر ’’سرحدی گاندھی ‘‘ کہا جاتا تھا۔
ان سب باتوں کو سامنے رکھیں اور پھر مولانا مودوی مرحوم ؒ کا کردار بھی سامنے رکھیں۔’’جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے کے کو کیسے گوارہ کیا جاسکتا ہے تو مولانا مودودی صاحب ؒ نے کہا کہ ’’ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے،تمام روئے زمین ایک ملک ہے انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہوجائے تو کیا بگڑ جائے گا۔اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرے خاک کو تمام ہندستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔ (سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ 76-77)
اسی طرح 1948 ء میں صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’ استصواب رائے صرف اس امر سے متعلق ہے کہ تم کس ملک کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتے ہو ،ہندوستان سے یا پاکستان سے ؟ اس معاملے میں رائے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔لہٰذا جن جن علاقوں میں استصوابِ رائے کیا جارہا ہے وہاں کے ارکان جماعت اسلامی کو اس کی اجازت ہے کہ وہ اس میں رائے دیں۔۔۔البتہ شخصی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ ( سہہ روزہ کوثر مورخہ 5جولائی 1947 ء بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان حصہ دوم صفحہ 88)
ان سب باتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جماعت اسلامی کے بارے تحریک پاکستان کے حوالے سے منفی پروپگنڈہ کیوں کیا جاتا ہے ۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب جماعت اسلامی نے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا تو اس کے بعد ہی جماعت اسلامی کے بارے میں منفی پروپگینڈہ شروع کیا گیا۔’’ یو پی مسلم لیگ کی دعوت پر مولانا کی اجلاس میں شرکت تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے توجہ طلب بات ہے۔ اس سے پہلے 1937ء سے 1939 ء تک مولانا نے مضامین کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا جو کہ کتابی صورت میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے نام سے شائع ہوا۔ ان مضامین کو مسلم لیگ کے حمایتی پرچے مثلاً ’’ماہنامہ پیامِ حق ‘‘ پٹھان کوٹ ، ’’القاسم ،امرتسر ‘‘ ، ’’مشور‘‘ دہلی، ’’طلوع اسلام ‘‘ دہلی وغیرہ میں شائع کرکے لیگی کارکنوں میں مفت تقسیم کرتے رہے۔1937 ء سے 1947 ء تک مسلم لیگ کے صف اول کے سینکڑوں لیڈر ان پرچوں کے خریدار تھے لیکن کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ مولانا مودوی اور ان کی جماعت تحریکِ پاکستان کی مخالفت کررہے ہیں ۔اچانک اسلامی دستور کے مطالبے کا سن کر لیاقت حکومت نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مولانا اور ان کی جماعت پاکستان کے مخالف تھے۔نہ کوئی دلیل نہ تحقیق نہ کوئی گواہ صرف جلسوں کو گرمانے کے لئے فرضی بیانات اور جھوٹی قسمیں ‘‘( عالمی تحریکِ اسلامی کے عظیم قائدین از افتخار احمد صفحہ 49-50)
آج بھی دین بیزار اور ملک دشمن عناصر جو نہیں چاہتے کہ اس ملک میں کسی بھی طرح اسلامی نظام نافذ ہو، جو لوگ اپنے آپ کو نہیں بدل سکتے اس لئے چاہتے کہ اسلام کو بدل دیا جائے، جو لوگ اللہ کے پیغام ( اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائے ) پر عمل نہیں کرسکتے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو از کارِ رفتہ مذہب ثابت کیا جائے۔ اسلام پسندوں کو انتہا پسند اور ملک دشمن و غدار ثابت کیا جائے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دشمنان دین و وطن کے ناپاک عزائم کو خام میں ملا دے اور حکمرانوں کو قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کی توفیق دے۔
جناب سلیم اللہ شیخ صاحب
کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ اس مضمون کو لکھنے سے پہلے ترجمان ا لقرآن کے دسمبر 1939 ، مئی جون 1940 اور جنوری 1941 کے شماروں میں سے مولانا صاحب کے ” نظریہ پاکستان ” کا مطالعہ کر لیتے ؟ ۔
Correction of historical truth is a must for whom ,who is aware of this . Thanx to Saleem Bhai for this !job
میں عمر بھر کے تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جھوٹ ببانگِ دُہل بولا جاتا ہے جبکہ سچ خاموشی سے سرائت کرتا ہے ۔ ان اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں کو اللہ ابلیس کے چُنگل سے آزاد کرے اور مجھے بھی سیدھی راہ پر قائم کرے