کب ٹہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی

ظلم، جبر و تشدد آج کی دنیا میں کسی قوم کو عرصہ دراز تک غلام بنائے رکھ کر اس کے وسائل کو لوٹنےکا ایک موثر ہتھیار ہے۔ اور جب اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی گردان کرنے والی این جی اوز اور ذرائع ابلاغ آپ کے زیر اثر ہوں تو پھر تو یہ انتہائی اثردار ہتھیار ہے کہ جب چاہیں جہاں چاہیں خون کی ہولی کھیلیں آپ ہی جمہوریت کے خوشہ چیں، اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے چیمپئن رہیں گے۔

اتوار 11 مارچ 2012 کو قندھار کے ضلع پنجوائی میں قابض امریکی فوج کے ایک سپاہی نے اپنے فوجی مستقر کے قریب رہنے والے دیہاتیوں کے گھروں میں گھس کر وہاں سوئے ہوئے 16 افراد کو شہید کردیا جن میں 9 بچے اور 3 عورتیں شامل ہیں۔ اس قتل عام کی تصاویر دیکھ کر تو سویت دور کے مظالم یاد تازہ ہوگئی جو اس زمانے میں ذرائع ابلاغ کی کمی کے باوجود عوام الناس تک پہنچ جایا کرتے تھے لیکن آج کا خون مسلم اتنا ارزاں ہے کہ خود مقامی اور برعم خود آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے یہ ان کی ترجیہات میں سب سے نیچے ہیں۔

پچھلے چند دنوں میں غزہ پر شدید اسرائیلی بمباری سے 23 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اور افغانستان میں قرآن کو جلائے جانے واقعہ کے بعداحتجاج کے دوران ہونے والی شہادتوں اور حال ہی میں ہوئے 16 معصوموں کے قتل عام کے باوجود ذرائع ابلاغ کے کرتادھرتا اپنے آقائوں سے وفاداری نبھانے میں مصروف ہیں۔ نام نہاد دانشور اور صحافی جن کا ایمان ہی اقوام مغرب کی ثناء خوانی ہے کی زبانیں اس معاملے میں گنگ ہیں۔

پچھلی دہائی میں جب عراق کی فضائوں میں نوفلائی زون قائم کرکے اس پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں تو ادویات اور غذائی قلت کی وجہ سے لاکھوں عراقی بچے اپنی جانوں سے گئے لیکن واشنگٹن میں امریکی صدر کی اہلیہ امریکی بچوں کو جنگ کے نفسیاتی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ریڈیو، ٹی وی پروگراموں میں انہیں یہ باور کراتی رہی کہ “بچوں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ جنگ ہماری سرحدوں سے ہزاروں میل دور لڑی جارہی ہے” اور سی این این صدام حسین کی طرف سے خلیج فارس میں بہائے گئے تیل میں لتھڑ کر مرنے والی مرغابی کی تصاویر دنیا کو دیکھا کر عراقی مظالم کو عیاں کرتا رہا۔

ابوغریب اور بگرام کے تعذیب خانے کی یاداشتیں تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ اے مغرب کے ثناء خوانو! گوانتاناموبے کا ایذا رسانی کا مرکز تو تم اور تمہارے آقا کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہے لیکن تمہاری ڈھٹائی حیران کن ہے۔ اس بچے کی جھلسی ہوئی لاش دیکھ کر تم نے اپنا سینہ فخر سے پھلا لیا ہوگا جو تہمارے کسی جنونی فوجی کی خونخواری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وہ بچی جس نے ابھی شاید بولنا ہی سیکھا تھا اسکی پیشانی پر گولی کا نشان تمہیں بہادری کے کسی تمغے کی طرح لگتا ہوگا۔ لیکن جان رکھو…
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے، آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کے دباؤ تو دبائے نہ بنے

افغان عورت بچے کی جلی ہوئی لاش کے قریب بیٹھی خبر رساں ادارے کو تفصیلات بتاتے ہوئے۔

افغان بچی کی تصویر جسے سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا

ایک معمر افغان بربریت کا نشانہ بننے والوں کی لاشوں کے قریب افسردہ بیٹھا ہے

افغان اہلکار امریکی فوجی کے ہاتھوں قتل عام کے بعد جائے وقوع کا معاعنہ کررہے ہیں

امریکی بکھتربند گاڑیاں واقعے کے بعد قندھار کے ضلع پنجوانی میں فوجی مرکز کے باہر کھڑی ہیں

قابض امریکی فوج کے مقامی دست راست، افغان نیشنل آرمی کے جوان فوجی مرکز کے باہر جمع افراد پر نظر رکھے ہوئے

قندھار میں امریکی فوجی مرکز کے باہر لوگ قتل عام کے خلاف احتجاج کررہے ہیں

امریکی فوجی قندھار کے ضلع پنجوانی میں قائم فوجی مرکز کے داخلی راستے کی نگرانی کررہا ہے

حال ہی میں ہندوئوں کا تہوار ہولی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے پر رنگوں کی برسات کرتے ہیں۔ شاید اس فوجی کے دل میں بھی ہولی کھیلنے کی امنگ جاگ اٹھی ہو اور اس نے اپنی بیس کے آس پاس آباد مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنی خواہش پوری کرلی ہو۔ خون مسلم جس کی حرمت کو کعبے سے بھی بڑھ کر قرار دیا گیا ہے آج کی دنیا میں ویسے ہی ارزاں ہے اس لیے ہر طرف خاموشی ہے۔ وہ بھی خاموش جو قرآن کی بے حرمتی پر بپھر جاتے ہیں اور  ملت کی آہ و زاری صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے کہ “کب ٹہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی”

 

(تصاویر: رائٹرز)

فیس بک تبصرے

کب ٹہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی“ پر 5 تبصرے

  1. بہت عمدہ …..
    دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام امت مسلمہ کے ہر فرد کو اداس و فکر مند رکھتا ہے . اگر کوئی اداس نہیں ہوتا تو وہ صرف لبرلز ہی ہیں جن کا رویہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار والا ہے.

  2. no sympathy withe these killers but our minister have to them by open nato supply

  3. اسلام علیکم
    بڑا ستم یہ نہیں ہے کہ ہم ہوئے بے حس
    ستم تو یہ ہے کہ احساس بے حسی بھی گئ

    وقار بھائ اللہ آپکو اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر قوم کو جھنجوڑنے پر اجر عظیم عطا کرے آمین اور آپکو اور ہم سب کو اپنےاپنے الفاظ پر عامل بنائےآمین-
    اس جیسی معصوم افغان،فلسطینی ،کشمیری،عراقی،وزیرستانی،اسلام آبادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکیوں کو دِکھ کر ایک ہی آیت ذہن میں گونجتی ہے کہ جب اللہ ایسی لڑکیوں سے پوچھے گا:
    بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ
    کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی
    (التکویر)
    تو پھر کیا جواب ہو گا ان سب ظالموں کے پاس؟؟؟؟

    اور پھر دھیان اپنی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہے-ہماری پکڑ بھی تو ہو گی کہ ہم کہاں تھے اور ہم نے انکے لئے کیا کیا جب ان مظلوم لوگوں نے اللہ سے فریاد کی تھی کہ :

    ”اور کیا وجہ ہے کہ تم الله کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے واسطے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے واسطےاپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے”
    (النساء)
    اگر یہ سب ظلم اور بربریت ہمارے گھر کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہوا ہوتا تو کیا ہم اتنےہی جمود کے ساتھ فقط زبان اور قلم کا جہاد کرتے رہتے؟؟؟

    ہمارے اندر کی گھٹن اور ضمیر کی خلش بتاتی ہے کہ ہم کچھ غلط ضرور کر رہے ہیں، یا غلط نہیں کر رہے تو وہ نہیں کر رہے جو کرنا چاہئے-

    اللہ ہم سب کو حق دکھا کر اس پر عمل کی توفیق دے اور باطل پہچان کر اس سے بچائے آمین-

  4. you have done your job,others must do their work to sensitize the society over it

  5. افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    یہ واقعہ جس کا انفرادی سپاہی مرتکب ہوا ہے بے شک افغانستان کے لوگوں کے خلاف ایک وحشيانہ فعل ہے۔ امریکی انتظامیہ اس واقعہ کی مذمت کرتی ہے اور اس عزم کا مصمم ارادہ رکھتی ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو انصاف کے کٹہرے ميں لايا جاۓ گا ۔ اس ایک انفرادی عمل سے معصوم لوگوں کی جانيں ضائع ہونے سے جو غیض و غضب کا ردّ عمل ہوا ہے یقینا̋ قابل فہم ہے، لیکن امریکہ کا افغان شہريوں کی بہتری اور تحفظ کے لۓ جو طویل المیعاد عزم ہے اسے اس واقعہ سے ماند نہيں پڑنا چاہيۓ۔

    وہ افراد جو بے گناہ اور معصوم شہریوں کے خلاف کسی بھی اس طرح کے جرائم ميں ملوث اور مجرم پائے گئے ہيں ان کو مکمل تحقیقات کے بعد انصاف کے کٹہرے میں لايا گيا ہے۔ مزید برآں، يہ انفرادی اورانتہائ افسوس ناک فعل امريکی افواج کی حقيقی قدروں اور افغان عوام کے ليے موجود احترام اور خلوص کی کسی طرح ترجمانی نہيں کرتا- امریکی افواج کی طرف سے افغان محافظ افواج کی تربیت جاری ہے تاکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لۓ اہم کردار ادا کريں۔ علاوہ ازیں، امریکہ افغانستان میں تعلیمی، معاشی میدان میں اور ملک کی تعمیر کی ترقی کے لۓ مواقع فراہم کرنے کے لۓ برسرپیکار ہے۔

    امریکی حکام نے نہايت سختی سے ایسے غیر مطلوبہ افعال کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور تمام متاثرین سے دل کی گہرائيوں سے افسوس کا اظہار کيا ہے- اس سانحہ پر صدر اوباما کا سرکاری بیان ہے، جو واضح طور پر امریکی عوام کی حقیقی جذبات کی عکاسی کرتا ہے مندرجہ ذیل لنک پر ملاحظہ کریں:

    http://www.youtube.com/watch?v=-wr_eNGurlE

    میں تائد کرتی ہوں کہ امریکی انتظاميہ اس افسوسناک سانحہ کی سنگینی کو سمجھتی ہے کیونکہ وہ افغانستان کی عوام کا بے پناہ احترام کرتی ہے اور یہ فرد جس نے اس جرم کا ارتکاب کيا ہے اسے کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے مکمل طور پر پرعزم ہے۔

    افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov

Leave a Reply