لیجئے صاحب اخبارات کے ذریعے ہمیں یہ خبر ہوئی کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم صاحب گذشتہ چار سال سے چھٹیوں پر ہیں ۔ اب تک تو ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ شائد وہ موجود تو ہیں لیکن گوشہ نشین ہوگئے ہیں لیکن معلوم ہوا کہ یہاں تو معاملہ کچھ اور ہے اور موصوف ملک میں موجود ہی نہیں ہیں۔ اب بھی یہ معاملہ نہیں کھلتا اگر سندھ اسمبلی میں ان کی چھٹی کی درخواست مسترد نہ کی جاتی۔
الامان الحفیظ! ایک عوامی نمائندہ ،سابق وزیر اعلیٰ ،رکن اسمبلی جس کو عوام نے منتخب کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ان کے مسائل کو اجاگر کرے گا،لیکن وہ تو گذشتہ چار سال سے ملک میں موجود ہی نہیں ہیں۔جبکہ اس دوران وہ تنخواہ اور دیگر الاؤنسز سے فیضیاب بھی ہوتے رہے ہیں۔کیا یہ عوام کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟ جب محترم ارباب رحیم صاحب ملک میں موجود ہی نہیں ہیں تو ان کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ ایک سیٹ روک کر رکھتے بلکہ اصولی طور پر انہیں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدینا چاہئے تھا۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود کسی پارٹی نے اس جانب توجہ نہیں دلائی کہ ایک منتخب رکن اسمبلی چار سال سے غیر حاضر ہے ،اسی کو کہا جاتا ہے کہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے (اگر چہ وہ رخصت پر ہی ہے لیکن عوامی نمائندہ/ سماجی کارکن تو کبھی رخصت پر نہیں ہوتاکجا یہ کہ منتخب رکن اسمبلی چھٹی پر چلا جائے)۔ جب ایک فرد کوئی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا تو اخلاقی طور پر اسے خود ہی پیچھے ہٹ جانا چاہئے ۔بہر حال سینیٹ کے انتخابات مکمل ہونے کے بعد سندھ اسمبلی نے ان کی مزید رخصت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
ادھر دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پی پی پی کی نومنتخب ہتھ چھٹ رکن اسمبلی وحیدہ شاہ کو نا اہل قرار دیتے ہوئے ان پر دو سال کے لئے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی ہے۔جبکہ حلقے کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وہاں دوبارہ الیکشن کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے،اس فیصلے سے کسی حد تک جاگیردارانہ ،وڈیرانہ سوچ رکھنے والے،عوام اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے مزارع اور کمی کمین سمجھنے والے مغرور نام نہاد سیاستدان کچھ محتاط ہوجائیں گے۔وحیدہ شاہ نے جس طرح کار سرکا ر میں مداخلت کرتے ہوئے سرکاری ڈیوٹی پر معمور خواتین پر سر عام تھپڑ برسائے تھے وہ انتہائی افسوسناک سانحہ تھا ،اس سانحے کا سنگین پہلو یہ بھی تھا کہ جن خواتین کو انہوں نے زدوکوب کیا وہ کوئی عام سرکاری ملازم نہیں بلکہ معاشرے کی قابل احترام استانیاں تھیں جو کہ مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔اس طرح سر عام اسن پر تشدد سے ملک بھر کے اساتذہ میں بھی ایک بے چینی پائی جاتی تھی۔بہر حال یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن ہمارے نزدیک الیکشن کمیشن کو اس سے بھی بڑھ کر یہ کرنا چاہئے تھا کہ وحیدہ شاہ کو نا اہل قرار دینے کے ساتھ ہی اس حلقے سے رنر اپ امیدوار کو کامیاب قرار دیدیا جاتا، لیکن اگر ایسا ممکن نہ تھا تو کم از کم یہ تو کیا جاتا کہ اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کے تمام اخراجات وحیدہ شاہ اور پی پی پی سے وصول کئے جاتے۔
لیکن بہر حال جو فیصلہ آیا وہ بھی درست ہے اس سے کم از کم آئندہ کے لئے کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری ملازمین و قابل احترام اساتذہ پر تشدد کا واقعہ نہیں دہرایا جائے گا۔
اسلام علیکم
میرے خیال سے وحیدہ شاہ کو نا اہل قرار دینے کے علاوہ استانی کے ذریعے اسکی سر عام پٹائ بھی کروانی چاہئے تھِی- کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے-جان اور مال کی طرح لوگوں کی عزت پر حملہ بھی منع ہے-
اسکی مثال ہمیں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے عہد سے ملتی ہے جب ایک گورنر کے بیٹے نے ایک عام آدمی کے بیٹے کو اسکے گھوڑے کے جیت جانے پر سر عام پیٹ ڈالا تھا- اور حضرت عمرؓ نے گورنر کے بیٹے کی پٹائ کا حکم دیا تھا-
source: kingdom of justice, stories from the life of Umar
by Khurram Murad
Yes, I agree with her.Waheeda shah should get physical punishment along with disqualifying.