ٹوٹ رہا ہے حصا ر

آسمان پر دور تک سرمئی بادل چھائے ہوے تھے. ہلکی ہلکی پھوار نے فضا کو مہکا دیا تھا. مٹّی سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو سانسوں کو معطر کررہی تھی ۔ کچّے راستے پر گاڑی ڈگمگا رہی تھی. دونوں طرف لگے ہوئے چیکو کے درختوں کی قطار ماحول کو دلاآویز بنارہی تھی۔

شہر سے دور فارم ہائوس کا سفرتمام ہوا تو بچے چھلانگ مار کر اترے اور سرخ روش پر دوڑنے لگے. میری نظر سامنے کالج وین سے اترتی لڑکیوں پر پڑی جنہوں نے سر پر لپٹے اسکارف اتار کر ہوا میں اچھالے اور پھر زمین سے اٹھا کر بیگ میں رکھ لئے. راحیل اور عادل گاڑی سے سامان اتارتے ٹھٹک گئے. ’’رابی کس قدر مختلف ہے اپنی ہم عمروں سے‘‘ مجھے بے ساختہ اپنی بہن یاد آگئی’’کاش! اسکے امتحانات وقت پر ہوجاتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی…. افسوس‘‘. بابا کتنی مدد کرتے تھے اسکی پڑھائی میں…‘‘

جدید طرز کی تفریح گاہ کے چوڑے مگر پرپیچ راستوں پر بھول بھلیوں کا گمان گذرا. موسم اور ماحول کا سحرطاری تھا. میں نے بہتے جھرنے میں بھیگتی ہوئی جڑواں تین سالہ فرح اور فائزہ کو فوکس کیا اور ایک قدم پیچھے ہٹتے ھوئے بٹن دبایا تھا کہ کسی سے ٹکراگئی…. ’’اوہ سوری‘‘…. بمشکل الفاظ ادا ہوئے تھے کہ اپنے وجود سے لپٹی ہوئی خوشبو کے سحر نے مجھے جکڑ لیا. وہ اپنے ناپ سے ایک سائز چھوٹی سیاہ جینز، ٹی شرٹ میں گیلے بالوں اور کپڑوں سے ٹپکتے پانی کے ساتھ گویا اپنے غسل خانے میں تھی. میری خشمگیں نگاہوں اور ماتھے کی تیوریوں کو نظرانداز کرتے ھوئے اپنا دایاں ہاتھ لہرایا… ’’سیم موبائل‘‘ کہ شاید میری توجہ اسکے حلیے سے ہٹ جائے. ’’آپ کہاں سے کس کے ساتھ آئی ھیں؟‘‘ میرا سوال مصنوعی جھرنوں، آبشاروں سے گرتے پانی کی گونج سے ٹکرایا اور تالاب کے اردگرد لگے درختوں کی سرسراہٹ میں گم ہوگیا. وہ اپنے آپ میں مگن شہد کی مکھیوں کی طرح پیچھا کرتی نگاہوں سے بے نیاز قہقہے لگاتی آگے چلی گئی.

یہ اجنبی حلیے، بیگانے روّیے ہمارے معاشرے کا کون سا کردار ہیں؟ میں بڑبڑانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکی. ’’امّی امّی‘‘ فرح اور فائزہ تالاب سے باہر آنا چاہ رہی تھیں. میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو ان کی مدد کو آگے بڑھی اور دونوں کے گیلے کپڑے باتھ روم میں جاکر بدلوائے اور پہلے سے ریزرو سائبان میں بیٹھ گئے. اتنے میں کامران اپنے ابّو اور چچا راحیل کے ساتھ آگیا. آہستہ آہستہ باتیں کرنے کے دوران کھانا کھایا. کامران کی توّجہ سلائیڈ کی طرف تھی. پرشوق نگاہیں تالاب کے اندر اور سلائیڈ پر جھولتے، گرتے ٹکراتے، پانی اچھالتے، گانا گاتے اور سیٹیاں بجاتے لڑکے لڑکیوں کی مخلوط ٹولی پر تھی. ہر طرف یہ ہی نظارہ ہے.

’’اف کہاں کہاں سے نگاہیں ہٹائیں. کاش کہ میں کامران کی نظریں وہاں سے ہٹاسکتی‘‘
قدرت کی صناّعی اور ماحول کی خوبصورتی کوانسان کس بے دردی سے آلودہ کررہا ہے؟ بے باکی کے مظاہروں نے تفریح کو بوجھ بنادیا ہے. بچوں کو فطرت سے آشنا کرنے کی کوشش رائیگاں گئی. میرے الجھے ہوئے موڈ کو دیکھ کر راحیل نے بہلانے کی کوشش کی مگر تھوڑی دیر میں رش کا بہا نہ کرکے گاڑی میں بیٹھ گئی۔

آتے وقت کس قدر جوش و خروش تھا اور واپسی کا سفر خاموشی سے طے ہوا. اس سے تو بہتر تھا گھر پر ہی وقت بچوں کے ساتھ گذا ر لیا جاتا. پیچھے سے آنے والی گاڑیاں باربار ہارن بجا کر چونکا رہی تھیں، ایک دوڑ لگی ہے ہر جگہ! آگے اور آگے، سب سے آگے جانے کی! سوتی ہوئی فرح اور فائزہ شور سے بار بار کسمساتی تھیں.

گھر پہنچ کر کامران نے ’’رابی! رابی خالہ‘‘ کی آوازیں لگائیں. اور راحیل کے آگے اس کا لیپ ٹاپ کردیا. غا لبآ پکنک کی جھلکیاں رابی کو دکھانا چاہتا تھا. میں نے گھورا ’’پہلے تھوڑا نہا دھو لو‘‘. مگر اتنی دیر میں سکرین پر پول کا کنارا تھا! جھرنے اور آبشاریں تھیں! رابی جو سیڑھیوں پر تھی تیر کی طرح آئی. آنکھوں میں رشک اور افسوس لیے صوفے پر ٹک گئی. مجھے خیال آیا کہ رابی بھی ساتھ چلتی تو کون سی قیامت آجاتی. شادی تو راحیل کے ساتھ ہی ہونی ہے دو ماہ بعد! پاپا کی وفات کے بعد امی اور رابی کو حفاظتی نقطہ نظر سے میرے گھر ہی شفٹ ہونا پڑا۔

اوپر والا حصہ ان کی رہائش کے لیے ٹھیک کروالیا تھا. میں جونہی اس کے برابر میں آ کر بیٹھی تو وہ لرزتے ہوئے کھڑی ہوگئی. کانپتے ہونٹوں سے نکلا ’’انجی، اینجلا آ پ کے ساتھ پکنک پر تھی؟؟‘‘ ’’کون ہے انجی؟‘‘ راحیل اور میں نے بیک وقت پہلے اس کے چہرے اور اسکرین کو دیکھا. اب میرے کھڑے ہونے کی باری تھی.

’’یہ لڑکی؟ فتنہ تم اس کو کیسے جانتی ہو؟‘‘ میں نے رابی کو جھنجھوڑا. فارم ہائوس کی پکنک جو کلفت بنی اب ایک ڈرائونا خواب لگ رہی تھی اور تعبیر…. اس سے کہیں زیادہ بھیانک! رابی میری معصوم حیادار بہن! جھکی ہوئی نگاہیں بڑے سے ڈوپٹے کےہالے میں لپٹا عقیدت سے نعت پڑھتے رابی کا چہرہ میری آنکھوں میں آگیا. راحیل کے ساتھ اس کی نسبت اسی بنا پر طے ہوئی تھی!

یقیناً انجا نے میں ویڈیو کابٹن دبا ہو اورانجی کو عکس و آوا ز کی صو رت میں قید کرلیا لیپ ٹاپ اسکرین پر اچھلتی کودتی گنگناتی، کھلکھلاتی انجلا تھی اور سامنے تھرتھراتی رابعہ! میرا ذہن جواب دینے سے عاجز تھا ’’یہ تمہارے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے؟‘‘ راحیل نے سرد لہجے میں پوچھا. رابی کا سر نفی میں ہلا. ’’پھر؟‘‘ وہ سراپا سوال تھا. ’’اپنا پا س ورڈ بتا ئو!‘‘
گہرے کنویں سے اس کی آواز آئی ’’آر، اے، ایچ، ای، ای، ایل‘‘
’’میرا نا م تو خوب استعمال کیا‘‘ راحیل کی انگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے چلنے لگیں. پھر اسکرین پر جو کچھ تھا. بے لبا س مرد و زن کی متحرک داستان! طوفان کا پتہ دیتی انجلا اور ان گنت نا معلوم دوستوں کی ای میلز تھیں بجز ندامت آنسو بہانے کے رابی کے پاس کچھ نہ تھا!
را حیل کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ’’پورنوگرافک سائٹ وزٹ کرتی ہو پڑھائی کے بہانے؟‘ میرا وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہا تھا.

’’بابا کے بعد میں تنہا تھی‘‘ رابی کی زبا ن سے الفا ظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے…
’’ہم سب کے با وجود؟؟‘‘ راحیٰل کسی صورت عذرقبول نہیں کررہا تھا
’’۔۔۔۔۔اور یہ دل کا بہلا وا میں خود تو نہیں لائی آپ لوگوں کا مہیا کردہ ہے‘‘
رابی کے جواب نے مجھے انڑ کالج مباحثہ یا د دلا دیا اسکی تقریر کے نکات میں نے ہی تو طے کیے تھے.

’’گلی گلی میں موجو د گٹر کو تو ہر ڈھکن سے ڈھانکنا تو ہم ضروری سمجھتے ہیں اپنی صحت کے لیے! مگر معاشرے میں اخلاق اور ماحول کو تباہ کرتے عناصر کی روک تھام کے لیے حد جاری نہیں کی جاتی؟‘‘ تالیوں کی گونج میں رابی نے تقریر مکمل کی تھی، میری آنکھو ں کے آگے اندھیرا چھارہا تھا، ’’ترقی، آزادی، تفریح، خبر اور پرائیویسی کے نام پر ہر گھر میں غلاظت کے ٹوکرے سجے ہیں. پرکھوں کی میراث میرے ہم نفسوں کے ہاتھوں لٹی جارہی ہے.

ہیولئہ ابلیس میرے اردگرد چکر لگارہا تھا. نوکیلے دانت نکالے قہقہے لگاتا کہہ رہا تھا….. ’’میں آگے سے آئوں گا، پیچھے سے آئوں گا، دائیں سے آئوں گا، بائیں سے آئوں گا، میں اولادِ آدم کو بہکائوں گا. بڑا مان تھا اپنے محفوظ ومامون گھر پہ، بہت ناز تھا اپنی تربیت پر…… کیا بے حیائی دیکھنا کرنے کے مترادف نہیں؟ اب کونسی حد لگے گی تمہاری پارسا بہن پر…… آخر کو ٹوٹ رہا ہے حصار؟ حیا، حجاب، تقدس، میرے خوبصورت جملوں کے الفاظ میرے ارد گرد ناچ رہے تھے، میرا مذاق اڑا رہے تھے! کوئی ہے جو اس حصار کو ٹوٹنے سے بچالے؟

فیس بک تبصرے

ٹوٹ رہا ہے حصا ر“ پر 5 تبصرے

  1. Allah kray tamam tool usee kee raah main istemal hon! ameen

  2. زبردست

  3. اس معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کی بہترین عکـاسی کی گئی ہے، اللہ کرے کے ہم ان پرائیوں کو پہچان کر ان سے بچنے والے بن جائین

  4. اسلام علیکم
    بالکل ایسا ہی ہےنگہت بہن -حصارواقعی ہی ٹوٹتا جا رہا ہے- ہم اس وقت اس دور میں ہیں جہان فتنے آسمان سے بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہم پریشان ہیں کہ کس کس سے اور کہاں کہاں بچیں-
    اللهم أرنا الحق حقا وأرزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وأرزقنا اجتنابه – آمین

  5. Tahreer pasand aai aap hamari adbi mahfil main shreek hon

Leave a Reply