تہذیب یافتہ ہونے کی دعوے دار اور ترقی کی بلندیوں کو چھولینے کا اعلان کرنے والی امریکی قوم کا مکروہ چہرہ پوری شدت کے ساتھ ایک بار پھر اقوام عالم کے سامنے عیاں ہوگیا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساگی کی داستان رنج والم سے لے کر ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے میں انسان کے ہاتھوں انسان کی بے توقیری تک ایک ایک واقعہ امریکیوں کی ذہنی پستی اور غرور کا شاہد ہے۔
امریکیوں کی فطرت اس بات کی غماز ہے کہ وہ اپنے ہر مدمقابل اور حریف کو نیچا دکھانے کے لئے شرمناک حد تک تذلیل آمیز حرکات کرسکتے ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی حد کو پار کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں امریکیوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی کسی بھی قوت کو دبانے کے لئے صرف جسمانی تشدد ہی نہیں بلکہ ذہنی تشدد کے بھی قائل ہیں اور گاہے بگاہے اس کا ثبوت بھی دیتے رہے ہیں۔ امریکیوں کی حالیہ شرمناک حرکت بگرام ائیر بیس پر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کو نذرآتش کرنا ہے۔ بدنام زمانہ بگرام ائیربیس جو مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے اور یہاں امریکی فوج کے زیرحراست قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کا واقعہ مسلمان قیدیوں کے پاس سے قرآن اور دیگر اسلامی کتب برآمد ہونے کے بعد پیش آیا۔ متعصب امریکی فوجیوں نے نہ صرف مقدس کتاب کو نذرآتش کیا بلکہ اس عمل سے روکنے کی پاداش میں جیل کے دو افغان ملازمین کو بھی گولیاں مار دیں۔ امریکی فوجیوں کی اس گھٹیا اور شرمناک حرکت کے بعد پورے افغانستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے علاوہ افغان آرمی کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملک میں اس ساری شورش کی بنیادی وجہ غیرملکی قابض افواج کی جانب سے مسلسل اسلام اور افغانوں کی بے توقیری ہے۔
امریکی فوجیوں کے ہاتھوں اسلام کی بے توقیری کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی بار امریکی اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرچکے ہیں اور اس عمل میں صرف امریکی ہی نہیں دیگر اسلام دشمن قوتیں بھی یکساں طور پر شریک ہیں۔ پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت مختلف ممالک میں شائع کروا کر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کو مسلم دنیا کی دقیانوسی اور بنیاد پرستی قرار دیا گیا۔
اب بگرام ائیر بیس پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے رسمی معافی مانگی گئی ہے لیکن یہ معافی افغان عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کی اپنے دین سے عقیدت کسی بھی شک و شبے سے بالاتر اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ وہ مسلمان بھی جو عملی طور پر اسلام کے بہت سے مظاہر سے پہلو تہی کرتے ہیں، اسلام کی تذلیل ہرگز برداشت نہیں کرتے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کی بدولت مسلم معاشروں میں بے چینی کی لہر کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے اور عوام ان حرکات کی روک تھام کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں جاری حالیہ امریکہ مخالف مظاہروں میں شرکاء نے طالبان کے حق میں بھی نعرے بازی کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ سے اس حرکت پر بدلہ ضرور لیں۔
افغانستان میں پیش آنے والا افسوسناک واقع کسی ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اسلام کے خلاف عالمی طور پر جاری نفرت کی مہم کا حصہ ہیں چناچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اتحاد اور یگانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متفقہ طور پر اپنا ردعمل اقوام عالم تک پہنچائیں جس کا بنیادی جزو اس بات کو ہونا چاہئے کہ آئندہ ایسے کسی بھی اقدام کو کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا اور بگرام ائیر بیس پر پیش آنے والے واقعے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
بالکل درست کہا آپ نے
اسلام علیکم
”چناچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اتحاد اور یگانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متفقہ طور پر اپنا ردعمل اقوام عالم تک پہنچائیں جس کا بنیادی جزو اس بات کو ہونا چاہئے کہ آئندہ ایسے کسی بھی اقدام کو کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا اور بگرام ائیر بیس پر پیش آنے والے واقعے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے”
احمد شاہین بھائ آئندہ کی بات تو دیکھی جائے گی فی الحال تو اس وقت ایسا زبردست سبق سکھانے کی ضرورت ہے کہ انکو ہوش آ جائے- یہ لاتوں کے بھوت تو ہیں ہی مگر سوال ہمارے ایمان کے زندہ ہونے کا بھی تو ہے-
دشمن سے انصاف کی توقع حماقت ہے- قاتل کو منصف دوراں مت بنائے-
آپکا دین اس وقت آپ سے آپکے ایمان کا ثبوت مانگ رہا ہے اور آپ کی نگاہیں اقوام عالم پر لگی ہیں!!
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
نادانستہ طور پر کی گئ غلطیوں کو معاف کردينا بھی مسلمانوں کے ایمان کا ایک حصّہ ہے۔ بے شک قران کی بے حرمتی ایک سنگین فعل ہے، لیکن چند امریکی فوجی ارکان سے یہ حرکت بالکل نادانی میں سرزد ہوئی ہے۔ امریکی حکام اور عوام اس سانحہ کی معافی متعدد مرتبہ مانگ چکے ہيں۔ بلکہ عالمی ذرائع مبالغہ کے سامنے بارھا افغان اقوام سے شرمندگی کا اظہار بھی کر چکے ہيں۔
امریکی انتظامیہ نے اس سانحہ کی تفتيش کے لۓ ایک خاص کمیشن کی تشکیل کا حکم دیا ہے تاکہ اس سانحہ کی گہرائی تک پہنچيں۔ دفائي سیکرٹری، ليون پنیٹا، اس تفتيش کے نتائج کا جائزہ لیں گے تاکہ ایسی غلطی دوبارہ نہ سرزد ہو۔
مذہب اور انفرادی عقیدے کا احترام امریکی آئين کا ایک اہم جزو ہے اور امریکی عوام اس آئين کا خاص پاس رکھتی ہے۔
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
جو چاہے آپ کا کرشمہ حسن ساز کرے۔۔۔
بگرام ائیر بیس پر ایک دو نہیں پورے چار سو قرآن پاک شہید کئے گئے ہیں۔ حقائق سے چشم پوشی کر کے اسے چند افراد کا انفرادی معاملہ قرار دینا نہایت افسوسناک ہے۔ جہاںتک معاملہ امریکی حکام کی روایتی معافی کا ہے تو ایسی ہی کئی معافیاں “برن قرآن ڈے” پر بھی مانگی گئ تھیں۔ اگر اسی وقت صرف معافی کی بجائے کوئی ٹھوس عمل دیکھنے میں آتا تو شائد آج دینا بھر کے مسلمانوں کے جذبات اتنے شدید نہ ہوتے۔
مغرب بالعموم اور امریکہ بالخصوص مسلمانوں کے دینی جذبات کو مشتعل کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر معاملہ چند افراد کا انفرادی سطح کا ہے تو امریکہ پر ہونے والا 11ستمبر کا حملہ بھی ایک گروہ کا انفرادی فعل تھا اس کی سزا پوری افغان قوم کو کیوں دی گئی?
امریکی انتظامیہ عالمی قوانین کی بجائے اگر صرف اپنے بنائے ہوئے آئین پر ہی اس کی اصل روح کے مطابق عمل کر لے تو ایسے واقعات کا تدارک ممکن ہے لیکن افسوس کے امریکی قوم چند نیو کونز کے ہاتھوں یرغمال ہے جس کی عجہ سے ایسے واقعات گاہے بگاہے نظر آتے ہیں۔ مزید افسوس یہ بھی کہ ابھی تک اس واقعہ کے کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔ ۔ ۔ ۔
اسلام علیکم
افشاں بہن کسی اور کو الو بنائے گا- آُ پ جیسے لوگوں ہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
آپکو سورہ آل عمران کی یہ آیتیں نہیں یاد:
118 اے ایمان والو اپنوں کے سوا کسی کو بھیدی نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی میں قصور نہیں کرتے جو چیز تمہیں تکلیف دے وہ انہیں پسند آتی ہے ان کے مونہوں سے دشمنی نکل پڑتی ہے اور جو ان کے سینے میں چپھی ہوئي ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کر دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو
119 سن لو تم ان کے دوست ہو اور وہ تمہارے دوست نہیں اور تم تو سب کتابوں کو مانتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو الله کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں
تو بہن جو چیز ہمیں تکلیف دے وہ انھیں پسند آتی ہے اور جو دشمنی ان کے سینوں میں ہے وہ بہت زیادہ ہے- ایک نشید کے الفاظ ہیں:
ضاغاالکلمات وعوداً وشی بالمکر حوارہ
(طاغوت کے وعدے محض ڈھکوسلے ہیں اور وہ اپنی مکاریوں کو خوشنما الفاظ کے پردے میں چھپاتا ہے)
بہت پر اثر اور ایمان افروز نشید ہے یہ:
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
وعليکم سلام:
یہ کہنا کہ “امریکہ بالخصوص مسلمانوں کے دینی جذبات کو مشتعل کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے” حقائق کے بالکل برعکس ہے- جیسا کے میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ” مذہب اور انفرادی عقیدے کا احترام امریکی آئين کا ایک اہم جزو ہے اور امریکی عوام اس آئين کا خاص پاس رکھتی ہے۔” سوچنے کی بات ہے کہ کچھ امریکی فوجی جان بوجھ کر ایسا سنگين جرم کیوں کريں گے جس کے باعث امریکی انتظامیہ کو بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑے اور انہيں سرکاری طور پر افغان قوم سے معافی مانگنی پڑے؟
آپ کی اطلاع کے لۓ دوبارہ یاد دلواتی ہوں کہ دفائي سیکرٹری، ليون پنیٹا، اس تفتيش کے نتائج کا ازخود جائزہ لیں گے تاکہ حقائق کی طہہ تک پہنچا جاۓ اور مستقبل میں دوبارہ ایسی غلطی سرزد ہونے کا امکان نہ ہو۔
اس بات سے آپ کو تسلی ہو جانی چاہۓ کہ امریکی انتظامیہ ایسے سانحہ کا بہت شدّت سے نوٹس لیتی ہے تاکہ تمام مذاہب کے پیروکار کو وہ احترام ديا جاۓ جسکے وہ حقدار ہيں۔ مزید برآں یہ کہنا کہ امریکی مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہيں، سراسرغلط اور بے معنی ہے! آپ کی یاد دیہانی کے لۓ عرض ہے کہ امریکہ میں لاکھوں مسلمان خوشحال زندگی بسر کر رہے ہيں۔
مندرجہ ذیل لنک پرکابل ميں علماء شعراء کو سفیر پرس کا بیان بھی ملاحظہ کر ليں:
http://kabul.usembassy.gov/ulema.html
شکریہ
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
افشاں صاحبہ آپ کا قصور نہیں ہے۔ آپ جیسے لوگوں نے اپنی نوکری کی خاطر انکے ہر اچھے برے کام کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔
Afshan, the dollars you are getting are doing a magical job. Carry on :)) p
ظالم پبلک ریلیشنز کی جاب کی نیچر ہی یہ ہے کہ باس کی ہر بات کا دفاع کیا جائے۔آپ کی نوکری کی مجبوری اپنی جگہ لیکن دینی حمیت اور غیرت کا تقاضہ بھی کچھ چیز ہے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونا ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے بہتر جواب تو افغان آرمی کے وہ نوجوان دے رہے ہیں جس کی آنکھیں امریکیوں کے دس سالہ مظالم سے نہ کھل سکیں لیکن اس واقعے کے بعد ان پر امریکہ کی عزائم آشکار ہو گئے ہیں۔ اس گھناونے عمل میں ملوث اہلکاروں کو ابھت تک قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔اس کی کیا توجیع پیش کریں گی?
اس قسم کے سخت نوٹس تو ہر بار ئے جاتے ہیں۔ جس پادری نے برن قرآن ڈے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے خلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئی? اور اس کے خلاف نوٹس کیوں ایسی کاروائیوںکو روکنے میں ناکام رہے?