مصر میں منعقدہ حالیہ انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔انتخابی نتائج کے مطابق اخوان المسلمون کے سیاسی بازو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے 47 فیصد سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت ثابت کردی ہے جبکہ قدرے سخت گیر اسلامی رجحانات رکھنے والی جماعت النور پارٹی 24 فیصد نشستیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پرہے۔ یوں انتخابات میں اسلام کو اپنا منشور قرار دینے والی جماعتوں نے تقریبا دو تہائی اکثریت حاصل کرلی ہے۔ لبرل اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں حالانکہ مصر میں رونما ہونے والے انقلاب کو لبرلز اور سیکولر خیالات کی حامل سول سوسائٹی کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا تھالیکن انتخابات میں عوامی رائے نے اس تاثر کی سختی سے نفی کردی اور اپنا وزن اسلام پسند جماعتوں کے پلڑے میں ڈال کر اسلام سے اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا ہے۔
انتخابات کے بعد اسمبلی کے پہلے اجلاس میں عوامی نمائندوں نے اخوان المسلمون کے ہردل عزیز رہنماء اور فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعد الکتاتنی کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے طور پر منتخب کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی کے 496 میں سے 399 ارکان نے ڈاکٹر سعد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ان کے مد مقابل حزب الوسط کے عصام سلطان صرف 77 ووٹ حاصل کرسکے۔ یوں اسلام پسند اخوان حکومت سازی کے پہلے مر حلے میں بھرپور کامیابی حاصل کرتے نظر آرہے ہیں۔ مصر کے نئے آئین کی تیاری کا کام اسپیکر کی سربراہی میں قائم پارلیمانی اراکین کا ایک سو رکنی کمیشن کرے گا۔ یہ آئین انقلاب کے بعد نئے مصر کی تعمیر و تشکیل میں بنیادی اینٹ کا کردار ادا کرے گا اور اسی سے حسنی مبارک کے بعد کے مصر کی سمت متعین ہو گی۔ مصری پارلیمنٹ کے نو منتخب سپیکر کا کہنا تھا ’’آئین کو ترجیح حاصل ہے اسے نئے سرے سے تشکیل دیا جائے گا تاکہ سابقہ حکومت کی اپنے فائدے کے لئے بنائی جانے والی تمام دفعات کو ختم کیا جاسکے۔ نئے آئین کو عوام کے فائدے میں ہونا چاہئے۔ آئین مصر میں کرپشن جیسی خرابیوں کے خاتمے کے لئے ہوگا۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت، سائنسی ترقی اور مصر کی معیشت کو ترقی دینے پر توجہ دی جائے گی۔‘‘ یوں اسمبلی میں اخوان کی بھرپور نمائندگی اور اسپیکر کی نشست حاصل ہونے کے بعد قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل کا مصر بڑی حد تک ماضی کے مقابلے میں مختلف نظر آئے گا۔
مصری پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں عوامی دلچسپی بھی غیر معمولی تھی اور عوام نے کئی عشروں میں پہلی بار محسوس کیا کہ ایوان میں بیٹھے لوگ واقعی ان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں جبکہ اس سے قبل حسنی مبارک کے دور اقتدار میں ارکان پارلیمنٹ انتہاء درجے کی دھاندلی اور دھونس کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہوا کرتے تھے۔ اجلاس میں مصری انقلاب کے شہداء کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کے حق میں دعا بھی کروائی گئی۔ اس موقع پر متعدد ارکان کی جانب سے حسنی مبارک کے سخت ٹرائل کا مطالبہ اور فوجی حکومت کی جانب سے حسنی مبارک کے لئے نرمی برتنے پر برہمی کا اظہار بھی ہوا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل انتخابات کے بعد کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’ ان قانون دانوں نے ایسے وقت میں اقتدار سنبھالا ہے جب مصر ٹوٹ پھوٹ اور نا امیدی کا شکار ہے۔ مبارک کے زوال کے ساتھ ملک کی معیشت بھی تباہ ہو چکی ہے۔ عدم تحفظ کی وجہ سے سیاحت کو نقصان ہوا ہے اور غیرملکی زرمبادلہ تیزی سے گر گیا ہے۔‘‘
اسمبلی اجلاس کے متعلق اخبار کا کہنا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کے اجلاس کے باہر اور اندر ارکان کی تقسیم واضح تھی۔ لبرل اور آزاد خیال نمائندگان پیلے رنگ کے سکارف پہنے ہوئے تھے جبکہ اسلام پسندوں کے لباس سے اسلامی رنگ واضح تھا۔ ان میں بہت سوں کی لمبی داڑھیاں تھیں اور وہ عمامے اور لمبے لمبے چوغوں میں ملبوس تھے‘‘ ۔
مصری انتخابات کے حتمی نتائج کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے اسلام سے اپنی وابستگی ظاہر کی ہے اور اسلام کا نعرہ لگانے والے امیدواروں کو کامیاب ٹہرایا ہے جو کہ مصری عوام کی اسلام سے محبت اور لگائو کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ آمریت کے دور میں اخوان المسلمون سمیت دیگر اسلام پسند فوتوں کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور عوام کو ان سے متنفر کرنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلی گئیں۔ اخوان کے قائد حسن البناء سمیت ہزاروں کارکنوں کو شہید اور بے شمار کو پابند سلاسل کیا گیا لیکن آزادانہ اظہار رائے کا موقع ملتے ہی عوام نے اسلام پسندوں کے حق میں فیصلہ صادر کردیا۔
مصر میں اخوان المسلمون کی سرکردگی میں اسلام پسندوں کی کامیابی محض معجزہ یا اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے اخوان کی مکمل منصوبی بندی اور محنت کارفرما ہے۔ اخوان نے مصائب اور مشکلات کے دور میں بھی عوام سے رابطہ استوار رکھا اور ان کی دلجوئی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اخوان نے رفاہی اداروں کے قیام، اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں کی تعمیر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنا پیغام مصر کے کونے کونے میں پہنچایا۔ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء شہید خود بھی ایک سکول ٹیچر تھے جنہوں نے ایسی پڑھی لکھی اور عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والی ٹیم تشکیل دی جس نے مصائب کے باوجود ثابت قدمی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور آج اسی اولولعزمی کے نتیجے میں اخوان عوام کی نظروں میں قیادت کے اہل ٹہرے ہیں۔
مصری پارلیمنٹ کے نومنتخب سپیکر ڈاکٹر سعد الکتاتنی بھی ایک معلم ہیں اور 1981 سے اخوان سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور اخوان کے شعبہ دعوت و ارشاد کے رکن رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر سعد تقریبا دس سال تک ٹیچرز یونین کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور کئی عالمی فورمز پر اخوان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ یقینا اخوان کی کامیابی کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ اس کی قیادت کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بھی ہے۔
اخوان المسلمون نے اپنی انتخابی مہم نہایت دانشمندی اور احسن طریقے سے چلائی۔ انہوں نے اپنے آپ کو بطور اعتدال پسند اور مصر کے تمام طبقات کا نمائندہ پیش کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اخوان نے انتخابات بھی ایک نئی سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑے تاکہ مصری عوام کی مختلف اکائیوں کو اپنے اندر سمویا جاسکے۔ اخوان نے عوام کو واضح پیغام دیا کہ اسلام میانہ روی اور باہمی برداشت کی تلقین کرتا ہے اور یہ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں کا بخوبی احاطہ کرتا ہے۔ اخوان نے انتخابات سے قبل موقف اپنایا کہ اسلام کو تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی امور میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے نا کہ مشکلات اور تفریق۔ قاہرہ سے ایک امریکی خبررساں ادارے کی نمائندہ الزبیتھ ارروٹ نے اخوان کے امیدوار امر ذکی کے ساتھ ان کی انتخابی مہم کا جائزہ لینے کے لئے کچھ وقت گزارا اور قاہرہ کے مختلف علاقوں میں ان کے ساتھ سفر کیا۔ الزبیتھ کے مطابق ذکی نے نہایت خوش اسلوبی سے قاہرہ کی عوام کے سامنے اپنا پیغام پرکشش بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے اسلام کو تمام معاملات کا حل بتایا اور یہ واضح کیا کہ اسلام اعتدال کا مذہب ہے اور اخوان کا بنیادی مقصد ملک کو تعمیرو ترقی کی راہ پر ڈال کر لوگوں کو خوشحال بنانا ہے۔ الزبیتھ کا کہنا تھا کہ اپنے پیغام کو موثر انداز میں پیش کرنے اور وسعت نظری کا مظاہرہ کرنے کے لئے ذکی نے اپنے جلسے میں عیسائی پادری اور مقامی خاتون کمیونٹی آرگنائزر کو بھی مدعو کیا۔
یوں مصر میں اخوان مختلف مکاتب فکر اور گروہوں کو قریب لانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مصری انقلاب کی تحریک کے دوران عوام الناس نے یہ منظر بھی کئی بار دیکھا کہ مظاہروں کے دوران نماز کے وقت اسلام پسند مظاہرین سڑکوں پر ہی نماز ادا کرتے تو ان کے ہم وطن مصری عیسائی مظاہرین ان کے گرد ہاتھوں سے زنجیر بنا کر حفاظت کرتے رہتے۔ اسی طرح اخوان نے سخت گیر نظریات کی حامل النور پارٹی کے لوگوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کئے ہیں۔ اخوان کا یہ عمل مصری قوم کو متحد کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
انتخابات میں اسلام پسند جماعتوں کو تقریبا دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے اور ان کا اصل امتحان بھی اب ہی شروع ہوا ہے کہ میانہ رویہ اور اعتدال کی راہ پر مستقل مزاجی کے ساتھ کیسے چلا جائے۔ اخوان پہلے دن سے ہی متشدد نظریات اور عدم برداشت کو سختی سے رد کر چکے ہیں اور مصر کی فلاح و بہبود کے لئے پر عزم ہیں۔ لہذا اب مصری عوام کے ساتھ ساتھ تمام دنیا خصوصا عالم اسلام کی نظریں اخوان کی بیدار مغز قیادت پر ہیں کہ وہ کس طرح مصر کی تمام اکائیوں اور طبقات کو ساتھ ملا کر کار حکومت سر انجام دیتے ہیں۔ یقینا اخوان کے کامیاب تجربے میں پاکستان کی اسلامی تحریکوں کے سیکھنے کے لئے بھی بہت کچھ ہوگا۔۔۔
فیس بک تبصرے