25 فروری کی صبح بستر میں ہی خیال آ یا کہ آج تو خواتین واک ہے! اٹھنے میں تیزی دکھائی تو ٹخنا مڑ گیا اور پرانی چوٹ بھی تا زہ ہو گئی فوراً ہمت پست ہونے لگی کہ اس زخمی پائوں کے ساتھ کیا خاک واک ہوگی؟ مگر حوصلے بلند رکھے اور نارمل انداز میں تیاری رکھی۔ گیارہ بجے پتہ چلا کہ گاڑی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے بلکہ اپنے طور پر جانا ہے کیونکہ گھر سے قریب ہی ہے۔ شیطان اپنے مخصوص حربے کے ساتھ حملہ آور ہوگیا،
’’۔۔۔۔اس طرح تو جانا بہت مشکل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ خیر اس کے ساتھ رسہ کشی چلتی رہی! بالاخر ایک ساتھی کے ساتھ جانا طے ہوگیا۔ وہ بھی اس طرح کہ بس یارکشے پر جانا ہوگا۔ ان دونوں کی تلاش میں بہرحال اسٹاپ تک تو پیدل ہی جانا ہوگا۔ ان ہی سوچوں میں گھرے مقررہ وقت میں ساتھی کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر پر کوئی موجود نہیں۔ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اسٹاپ پر ہمارا انتظار کررہی ہیں۔ ان کی puncuality کو خراج تحسین اور اپنی گھڑی کی سستی پر افسوس کرتے ہوئے پیدل رواں دواں ہوگئے ساتھ ساتھ شیطان سے بھی نبٹتے رہے
’’۔۔۔۔۔۔۔اتنا تو پیدل چل ہی چکے ہیں۔ واک میں کیا چل سکیں گے؟ اب گھر ہی واپس ہوجانا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس وقت وہ ماسی یاد آ ئی جو مہندی، چوڑی اور پانچ سو کے لالچ میں اتوار کو مزار قائد میں ہونے والے بے اختیار خواتین بنانے والے جلسے میں ’’بے اختیار‘‘ ہو کرناچ چکی تھی۔ اس یاد نے ایسا حوصلہ دیا کہ وہ قدم جو سست ہونے لگے تھے تیز تر ہوگئے۔ عین اسی لمحے منتظمہ کا فون آیا کہ گاڑی کا انتظا م ہوگیا ہے، قریب ترین مقام بتادیں تاکہ ڈرائیور لے سکے۔ فوراآسمان کی طرف دیکھا! زبان سے شکر ادا ہوا یا نہیں مگر جسم کا رواں رواں رب کے شکر سے لبریز ہوگیا۔ وہ تو قدردانی کرنے والا ہے۔۔۔۔ بس قدم اٹھا نے کی دیر ہوتی ہے! بالآخر ہم واک میں جا پہنچے۔
وہاں پہنچ کر کچھ ممکنہ شرکاء سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اچانک آ نے والے مہمانوں کی وجہ سے وہ نہیں پہنچ پائیں گی۔ یقینا ایسی خواتین بھی سینکڑوں میں رہی ہوگی جو تیاری کے باوجود نہیں آسکیں اور اس سے کہیں بڑی تعداد ان کی ہوگی جن کا جسمانی طور پر آنا ممکن نہ تھااگرچہ دل و دماغ کے ساتھ تو حاضر تھیں اور ایسی خواتین تو لاکھوں میں ہوں گی جو میڈیا کے ہا تھوں بے بسی محسوس کر نے کے باوجود ایسی کسی مہم سے لاعلم تھیں یا رکھی گئیں؟
ان سب کے تذکرہ کو ایک طرف رکھیں! ذرا شرکاء کو دیکھیں! آخر کیوں آگئی ہیں یہ سڑکوں پر؟ اپنا آرام اور چھٹی برباد کرکے! یہ وہ مائیں، بہنیں بیٹیاں ہیں جو سمجھ رہی ہیں کہ ان کے تحفظ کی دیواریں تیزی سے پائمال ہورہی ہیں! مائیں جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے سخت دبائو میں ہیں کہ یہ ذمہ داری اب میڈیا نے اٹھالی ہے! خواہ ٹی وی یا کمپیوٹر اسکرین ہو یا پھر موبائیل کی سمز! ان کے معاملات اور اخلاقیات اب اسی کے ذریعے سے طے پاتے ہیں! ٹیچرز جن کی برسوں کی محنت پر ٹی وی کا 30 سیکنڈ کا ایک اشتہار پانی پھیردیتا ہے۔ ڈاکٹرز جو اس میڈیا کی کارستانیوں کا علاج کرتے کرتے شرم سے نظریں جھکائے ہوئے ہیں۔ دعوت گناہ دیتے راہ چلتے بل بورڈز کتنے حادثوں کا سبب بنتے ہیں! جتنا ہم اس پروگرام کے انعقاد کی وجوہات پر سوچتے اتنا ہی اس کی اہمیت واضح ہوجاتی اور ہم آنکھیں پھاڑے جوق در جوق اس واک میں حصہ لینے والی خواتین کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ معصوم بچی جسے دنیا میں آئے چند ہفتے ہی ہوئے ہیں اس واک میں شریک تھی۔ شاید یہ سوچ رہی ہو کہ دنیا میں تو آنکھ کھولتے ہی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے مگر یہ اسی کی بقا کی واک ہے ورنہ ہوسکتا ہے وہ کوڑے کے ڈھیر پر پائی جاتی!!
یہ وہ بچیاں ہیں جنہوں نے ابھی اسکول جانا اور پڑ ھنا بھی شروع نہیں کیا مگر میڈیا نے اسکو وہ کچھ سکھادیا ہے جس میں خوف وخطر بھی ہے اور ایمان و حیا کو ڈگمگانے والی ترغیب بھی! بچے اپنی معصومیت کے قتل پر احتجاج کررہے ہیں۔
وہ کم عمر لڑکیا ں اور بچیاں جوابھی نماز بھی نہیں سیکھ پائی ہیں مگر وقت سے پہلے وہ سب کچھ جان چکی ہیں جو انہیں اپنے اوپر شرمندہ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔
یہ دیکھیں کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبا ت! اس لیے آ ئی ہیں کہ اس کلچر کو روک سکیں جس میں ان کے کچل کر ہلاک ہونے کا خطرہ موجود ہو!
ہم واک میں شریک صنف نازک کی اقسا م اور ان کی آمد کے اسباب پر غور کررہے تھے کہ دو بوڑھی خواتین ایک دوسرے کو سہارا دیتی چلتی نظر آئیں۔۔۔۔۔ ان کوتو گھر بیٹھنے کا جواز تھا! ہم سوچ پر قابو نہ پا سکے مگر پھر فورا خیال آیا اس حساب کا جو فرشتوں نے لینا ہے! اپنی نسلوں کے لیےکیسا ماحول چھوڑ کر آئے ہو؟ کیا عذر تراشوگی؟ اور پھر حدیث یاد آئی کہ قیامت آرہی ہو لیکن اگر ہاتھ میں شاخ ہو تو اس کو بودینا۔۔۔ یہ سب کچھ سوچا تو ایک بڑی تعداد ایسی ہی خواتین کی نظر آئی جو اپنی نسلوں کو تباہی سے بچانے کو سڑکوں پر نکل آئی ہیں حالانکہ ان کے آ رام کی عمر ہے!
اس بھیڑ میں کچھ نوبیاہتا بھی نظر آئیں جو ہاتھوں میں لگی مہندی اور رشتوں کے تقدس کو پھیکا پڑنے سے بچانے کے لیے اس دوپہر میں نکل آئی ہیں۔۔۔ اور پھر وہ لڑ کی بھی سامنے آگئی جو چند دنوں بعد دلہن بننے والی ہے اور ہم نہ رہ سکے
’’۔۔۔۔۔۔۔تم تو گھر بیٹھ جاتیں خواہ مخواہ دھوپ میں رنگت خراب کررہی ہو۔۔۔۔؟‘‘
’’۔۔۔۔۔اور وہ جو حیا کے منافی مناظر، جملے اور لباس مجھے بے آبرو کررہے ہیں! جھلسائے دے رہے ہیں اس سے کیسے بچوں؟۔۔۔۔۔‘‘
ہر عمر، ہر زبان، ہر شعبہ زندگی کی نمائندگی اس جگہ تھی۔ سڑک تنگ پڑرہی تھی اور وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔
پروگرام کے آرگنائزرز سمیت اکثر خواتین ایسی تھیں جن کے بچوں کے سالانہ امتحانات اگلے ہفتے سے شروع ہیں اور اس لحاظ سے یہ ہفتہ وار چھٹیاں تیاری کے حوالے سے بڑی اہم ہیں مگر وہ شاید تعلیم سے زیادہ تربیت کے لیے فکرمند ہیں جو روزانہ چوبیس گھنٹے، ہفتہ کے سات، مہینے کے تیس اور سال کے 365 دن بوجہ میڈیا ان کے حواسوں پر سوار رہتی ہے! اسی لیے انہوں نے اس واک کو ترجیح دی۔
عقلمند قومیں ہمیشہ طوفان سے پہلے پیش بندی کرتی ہیں اور یہ مائیں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے بگاڑ سے بچائواور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے صاف ستھرا معاشرہ بنانے کی جدوجہد میں اپنا بھرپور حصہ ڈال دیا ہے اب معاشرے کی دیگر قوتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آگے بڑھیں! اور اپنے حصے کا چراغ جلائیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی! اور پھر ایک بات اور بھی ہے! کراچی کی خواتین نے اپنے چہرے پر تھونپی جانے والی وہ تہمت بھی دھوڈالی ہے جو پچھلے ہفتے ان کے چہرے پر ڈالنے کی کوشش کی گی تھی۔ وہ ناچے اور گائے بغیر بھی بہت بااختیار ہیں! بہت طاقت ور! خواہ وہ بے حیائی اور بے لباسی کا طوفان ہی کیوں نہ ہواس سے نبٹنے کا گر بھی جانتی ہیں اور ارادہ بھی رکھتی ہیں!
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ چالاک!
رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک
زبردست… بہت اعلیٰ
ہمارے وطن میں جتنی واکیں اور جتنی ریلیاں ہونے لگی ہیں جن میں بہتری کرنے کیلئے دوسرے کو کہا جاتا ہے اگر اسی وقت اور ہمت کو خود اپنے گھر اور محلے کو سدھارنے پر صرف کیا جائے تو بہت اچھے نتائج سامنے آ سکتے ہیں
اسلام علیکم
اللہ کرے پاکستا نی خواتین کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور معاشرہ سدھار کی جانب بڑھے آّمین-
اللہ خلوص سے کی گئ ہر نیکی اور کوشش کا اجر دیتا ہے، چاہے وہ رائ کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو-
اچھے لوگوں کا خاموش رہنا ہی برائ کے پنپنے کے لئے کافی ہوتا ہے-
بہت خوب۔