نہ جانے کون سی گھڑی تھی کہ جب اخبار میں ایک اشتہار پر نظریں چپک کر رہ گئیں۔بڑی مشکل سے یعنی مجازی خدا کی پکار پر ہٹیں تو بھی دل ودماغ اس میں اٹک کر رہ گئے۔اشتہار کیا تھا دعوت نامہ تھا کہ آ بیل مجھے مار ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے عوام کو مطلع کیاکہ ہمیں اپنی شکایات ،اعتراضات اور تجاویز بذریعہ فون ،فیکس،خط،ای۔میل بھیجیں۔ اب کوئی ایک شکایت ہو تو کہی جائے۔اعتراضات پلندے کے پلندے تیار ہیں۔البتہ تجاویز کا لفظ بہت بھایا۔سو کچھ مرتب کی ہیں۔
جن خواتین کو گھر وں میں بستروں پر لیٹنے،بیٹھنے،ٹانگیں سہلانے،بال جھلانے ،کروٹیں بدلنے،انگڑائیاں لینے حتی کہ غسل خانہ جانے پر بھی پابندی ہے ۔ان کو فوری طور پر ضروریات ِزندگی یعنی دوپٹے ،چادریں،بستر ،غسل خانہ وغیرہ فراہم کئے جائیں۔بھئی ہماری سمجھ میں تویہی حل آتا ہے ورنہ یہ مجبور خواتین غیر مہذب رویہ اپناتیں۔واقعی یہ سماج ظالم مردوں کا ہے جو یوں صنفِ نازک کو پردئہ سیمیں پر ذلیل کیا جاتا ہے۔
’’ ارے بھئی چائے کا کپ کہاں ہے؟سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔‘‘مجازی خدا کی للکار پر ہم ہوش میں آگئے۔
خواتین کے حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں؟آگے بڑھیں۔ان کو درجِ بالا حقوق دلوائیں۔غضب خدا کا سب دم سادھے دیکھتے رہتے ہیں۔کوئی آواز نہیں اٹھاتا!! چائے کا کپ میاں کے ہاتھ میں تھمایا۔اور پیمرا کے روبرو ملاقات کے لئے جا اڑے۔سنسان عمارت کے کو نے میںایک سوتے جاگتے حضرت نے آنکھیں گھمائیں۔تو آگے بڑھ کر ہم نے کر سی جھاڑی اور فروکش ہوگئے۔تعارفی کلمات کے بعد ہم نے مدعّاعرض کیا۔ مطالبات سن کر ان کی آنکھیں بند اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’ کیا خواتین کو واش روم جانے کی اجازت نہیں ؟؟‘‘
’’ہاں توکوئی باشعورخاتون نامناسب آداب و انداز میں جلوہ گر ہوسکتی ہے۔‘‘ان کی بے خبری ،خواتین کی ذلت پر جوش سے ہم نے میز پر ہاتھ مارا۔
مکالمات کاذکر کیا توانھوں نے انتہائی موٹی ضخامت کے کئی رجسٹر آگے کھسکائے۔’’واہ کیا بات ہے‘‘ہم نے ہاتھ بڑھا کر کا غذات نکالے کہ بھر کرجائیں گے۔ ادھر انھوں نے قلم سنبھال لیا۔’’اپنا نام وپتہ بتائیں۔نیز ٹی وی چینل اور اس پر نکتہ اعتراض درج کروائیں۔
ہم نام وپتہ تو بآسانی بتا پائے اس سے آگے زبان لڑکھڑانے لگی۔ان غلیظ اشاروں،ذومعنی فقروںکی ادائیگی کا خیال نے گھڑوں پانی ڈال دیا۔ان شرمناک الفاظ سے اپنے پیارے والدین کی تربیت پر کیسے پانی پھیر دیتے؟ہماری پیشانی شکن آلود ہوگئی مگر ان کے کے تاثرات کچھ عجیب سے رہے۔آبروریزی ،غیر ازدواجی تعلقات،طلاق ،اولاد کی بے راہروی جیسے موضوعات پربات کر تے ہوئے اٹک گئے۔خدا جانے کیسے ان گمراہ کن ،مخرب الاخلاق تصورات کو لذیذ،مرغوب،پسندیدہ ضرورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
’’کیوں کیا آپ کو نظر نہیں آ تا کہ شادی کی تقریب میںکیا بچّے کیا بڑے ایک معمّر خاتون تھرک رہی ہیں داغ لگوانے کے لئے!! کپڑوں پر یا عزت پر؟؟‘‘ ’’کیا ایک مرد کو داڑھی مونڈنے کی کوشش میں خاتون کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟؟‘‘
ہم نے محنت سے سیاہ کیے کاغذات کا پلندہ میز پر پٹخاتو ان کے ٹٹولتے ہاتھوں کو دیکھ کر حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں۔
’’اماں ،دیکھیں تو سہی ابو کیادیکھ رہے ہیں ؟‘‘سعدیہ نے کندھا ہلایا، ریموٹ ہاتھ میں پکڑایاتو ہم نے سرعت سے آف کا بٹن دباکر اپنے جذبات کی بھڑاس نکالی۔’’اصلاحِ معاشرہ مہم کا آغاز تو گھر سے ہوگا۔‘‘
’’ عابدہ پروین کی قوالی اصلاح شدہ آئٹم ہے ۔ پر سکون نیند لانے کا بہترین نسخہ۔‘‘میاں نے چڑایا۔
اپنے خالی ہاتھوں پر نظر پڑی تو ہم بے اختیارچلّائے’’ ہمارے کاغذات‘‘ تینوں بچّے چونکے اور دوڑے۔
’’ اماں وہ یوسف نے ہوائی جہاز بنائے۔‘‘عینی نے مڑے تڑے کاغذات تھمائے۔
’’ہماری تجاویز ‘‘ اپنی محنت کا یہ حلیہ دیکھ کر’’ آہ کھیل شد‘‘بڑبڑائے.
جو بچے تھے سمیٹ لئے۔مگر آنکھیں ایک دفعہ پھر حیرت سے پھیل گئیں کہ پیمراکے نام کو کہیںب یمرا BEMRA یعنی بلائنڈ الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی اور کہیں ڈیمرا DEMRAیعنی ڈیمب اینڈ ڈیف الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی. نر سری کا بچہ اپنی دانست میں بہت کچھ درست کر گیا ۔ہونٹ خودبخود مسکرا اٹھے۔
’’ارے یوسفا ۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا کیا‘‘ ہم گنگنائے۔
true, Pemra is blind, dumb body. cannot see or hear any thing , so ask to complain us about any thing wrong. what and how to regulate?
شاید کے ذمہ داران کے دلوں میں اتر جائے تیری بات۔
اسلام علیکم
یہ پیمرا والے سب جانتے ہیں- بس تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں- ہمیں زچ کر رہے ہیں-بس ہمارے ہاتھ میں الفاظ کا ربڑ ہیمر پکڑا دیا ہے کہ اسکو مارو اور اپنے دل کی بھڑاس نکال کر چپکے ہو بیٹھو- ان شکایتوں، تجاویز پر عمل ؟
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
یہ لاتوں کے بھوت ہیں یہ باتوں سے ماننے والے نہیں –
i Consider DEMRA more appropriate then BEMRA.
by the way I like article one thing is missing ..
DEMRA needs to be reported if just in case anything went on air “According to Book”
A very good article short and complete.