صحبت و ہم نشنی کے اثر سے انکار ممکن نہں کہا جا تا رہا ہے کہ نیک ادمی کی صحبت تم کو نیک بنا دے گی اور بد بخت کی صحبت تم کو بد بخت بنا دے گی سو جب تک تم سے ہوسکے برے ہم نشین سے دور رہو کیونکہ برا دوست سا نپ سے بھی بد تر ہے سانپ تو صرف جان پر حملہ کرتا ہے اور برا دوست جان اور ایمان دونوں ہی پر حملہ کرتا ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا کی مداخلت ایک ہم نشین دوست کی مانند ہو چکی ہے۔ کھانے پینے، لباس، رہن سہن، رسم و رواج، گفتگو، طرزمعاشرت، غرض زندگی سے متعلقہ ہر چیز میڈیا کے زیراثر ہوچکی ہے۔ میڈیا ایسا دوست بن چکا ہے جس کے بغیر اب دن تو کیا رات بھی نہیں کٹتی، موبائل، ٹی وی، نیٹ نے ہر ایک کو اپنے حصار میں اس طرح لیا ہوا ہے کہ اب بچوں کو بزرگوں کے پاس بیٹھنے اور تربیت لینے کا وقت نہیں، نوجوانوں کے پاس sms، گپ شپ و میوزک سننے سے فرصت نہیں اور عورتوں کو سوائے نت نئی ڈشز بنانے، فیشن کے مطابق لباس بنانے اور گھر کو نت نئی چیزوں سے مزین کرنے کی فکر و شوق اور کمتری کے احساس نے ماں،بہن، بیوی، بیٹی کی ہر ذمہ داری سے جیسے سبکدوش کر دیا ہے۔
مرد حضرات جو گھر کے راعی ہیں وہ ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہو چکے ہیں کہ حلال و حرام کے چکر میں پڑے بغیر صرف معاش کو مضبوط کرنے، دولت کے حصول میں اپنے انمول رشتوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی بے شک وقت کی اہم ضرورت ہے اس کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں مگر ہر چیز کی زیادتی مضر ثابت ہوتی ہے بہترین عملی زندگی گذارنے کے لے زندگی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ملک، قوم و ملت کو اسکی اقدرا، روایات، رسوم و رواج، زبان، لباس و طور طریقے، مل کر سماجی کردار بناتے ہیں جس کو تہذیب و صقافت کا نام بھی دیا جا تا ہے اور آج جبکہ میڈیا نے دنیا کو گلوبل ولیج بنادیا ہے، ایک کلک سے صدیوں کے فاصلے قربتوں میں بدل چکے ہیں، ٹیکنالوجی و اطلاعات نے پاکستانی میڈیا کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لاکھڑا کیا ہے مگر ٹیکنیکل لحاظ سے عروج پانے والے میڈیا نے آج قوم کے ذہنوں کو پستی میں دھکیل دیا ہے۔ نسل نو کی تعلیم و تربیت ہمیشہ سے اہم رہی ہے، آج کے بچے کل کے معمار ہیں مگر افسوس آج کی نسل میں ٹیکنالوجی کا منفی و بے دریغ استعمال ان کے کچے ذہنوں کو آلودہ کررہا ہے۔ بچوں اور والدین میں اب دوریاں بڑھ گئیں ہیں، بچے خورد رو پودوں کی طرح پروان چڑھ رہے ہیں اس جنگلی بیل کی مانند جس کو خوبصورتی سے تراشنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بچوں کی سیرت و کردار بنانے میں گھرکے ما حول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے جو اب میڈیا کی نذر ہوچکا ہے۔ بچے تنہائی پسند، بیزار، غصے و جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوچکے ہیں، مائیں لڑکیوں کی زبان درازی کے ہا تھوں پریشان ہیں، خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، بڑوں کا ادب و رشتوں کا تقدس اور تربیت کرنے والے ہاتھ اب میڈیا کے پیش کردہ گلیمر و نظریے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لچر و بیہو دہ زبان زد عام ہو گئی ہے۔ آزاد میڈیا کی آزادی ، غیر ملکی و ملکی ڈراموں، فلموں نے بالغ بچوں کے ذہنوں کو بھی حقیقت سے دور خوابوں کی دنیا میں بسادیا ہے۔ ہر لڑکی ہیروئن اور ہر لڑکا ہیرو بن کر نیٹ چیٹنگ میں مصروف اپنے کیریر سے غافل ہے۔ آزادی نسواں کے نام پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو بے مقصدیت و بے راہ روی کی طرف مائل کرکے وطن عزیز کی نطریاتی بنیادوں کو گرانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے حوا لے سے سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ عورت کے تشخص و وقار کو بری طرح مجروح کرکے ہر چیز کے اشتہار میں کھڑا کر کے اس کو ارزاں کر دیا گیا ہے۔
میڈیا یقینا ایک قوت ہے اور اس پاور فل ٹول کو وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لے کیسے استعمال کیا جائے۔ یہ سوچنا بحیثیت ماں کے، منتظمہ اعلی کے، اور معاشرے کے ہر اس فرد کام ہے جو باشعور مسلمان ہو۔ پرشور ندی کو ویران زمین کی سمت روانہ کر دیا جا ئے تو ہر سمت سبزہ چھا جاتا ہے۔ انسانی جذبات کو شتر بے مہار چھوڑ دینے سے شیطانیت آزاد ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کی طاقت کو معاشرے کی غربت، جہالت، ناانصافی، قومی یکجہتی، مربوط تعلیم، عدل و انصاف اور اخلاقی روایات کے لیے استعمال کیا جائے، نفس کو کنٹرول کرنا سکھایا جائے اور ایسا جب ہی ممکن ہے جب ہم میں سے ہر فرد اپنی رائے کو مثبت انداز فکر و طرزفکر کے ساتھ پالیسی ساز اداروں تک پہنچائے اور ان کو متوجہ کرے جو طاقت کو سمت عطا کرتے ہیں۔
ٹھیک فرمایا آپ نے .محترم ایسی تحریریں تو بہت ہیں مگر ان پر عمل در آمد کویئ بھی نہیں کروا رہا.اس آزاد میڈیا نے تو واقع ناک میں دم کیا ہوا ہے. اللہ خیر کرے.
اسلام علیکم
جزاک اللہ خیر بہن -سچ کہا آپ نے- اللہ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین-
True! may Allah grant us courage to pay our duty in this regard
Jamaat ko bhi Moududi sahab ki jamaat bnayen, Hakeem Ullah shaheed ki nahi.