قوموں کی عزت کے گہنے مائیں،بیٹیاں، بہنیں یہ وہ نعرہ تھا جو کہ متحدہ قومی موومنٹ نے خواتین کے جلسہ عام سے پہلے بلند کیا تھا اور شہر کی سڑکوں پر جابجا یہ نعرہ لکھا گیا، نعرہ بلت دلکش ہے اور اس میں ایک کشش بھی ہے۔واقعی ایک عورت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا احترام کیا جائے، اسے عزت دی جائے،اس کا مان رکھا جائے۔اس نعرے کی بنیاد پر خواتین کا جلسہ منعقد کیا گیا،پورے سندھ بھر سے قافلے گاڑیاں بھر بھر کر خواتین کو لاتے رہے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ متحدہ نے حسبِ روایت لوگوں کے جذبات سے کھیلا اور ان کا استحصال کیا ۔ جن خواتین کو عزت اور خود مختاری کے نام پر بلایا گیا ،جلسے کے بعد ان کو نچوایا گیا ،اور نہ صرف یہ بلکہ میڈیا پر بھی اس کی کوریج کا خاص اہتمام کیا گیا۔کیا یہی خواتین کی عزت ہے؟ کیا یہی خودمختاری ہے؟ اور کیا جو لوگ یہاں مہاجروں کی ماﺅں بیٹیوں کو نچوا رہے تھے کیا وہ اپنے گھر کی خواتین کو اس طرح آن کیمرہ رقص کرنے کی اجازت دیں گے؟ یعنی بابر غوری،حیدر عباس رضوی،مصطفیٰ کمال، وغیرہ اور جولوگ اس خواتین کے اس استحصال کو اپنی کامیابی گردان رہے ہیں اوراس کی حمایت کررہے ہیں اور اس کا دفاع کررہے ہیں ان سے بھی میرا یہی سوال ہے کہ کیا وہ اپنے گھر کی خواتین کو اس طرح سر عام رقص کی اجازت دیں گے؟؟ کہنا تو بہت کچھ ہے لیکن ہماری بات بہت سے لوگوں کو بری لگ جاتی ہے اور کچھ یہ بھی ہے کہ ہم بہت منہ پھٹ ہیں اس لئے ہم اس حوالے زیادہ کچھ کہنے کے بجائے ”جسارت سنڈے میگرین “ میں شائع ہونے والے علی خان صاحب کے مضمون کو آپ سے شئیر کرلیتے ہیں۔ یہ مضمون روزنامہ جسارت میں 26فروری کو شائع ہوا ہے۔
” باتیں تو اور بہت سی ہیں جن پر بات بنائی جاسکتی ہے لیکن ہم اب تک گزشتہ اتوار کے نظاروں کے خمار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں بیٹھ کر تو ہم صرف ٹی وی اسکرین ہی پر یہ کلچر دیکھ پائے۔ اہل کراچی داد کے مستحق ہیں۔ کسے اندازہ تھا کہ اس شہر میں لاکھوں کے حساب سے فنکار پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ چہرے تو ایسے تھے جن کو ہم اب تک فن اور فنکاری سے محروم سمجھتے رہے لیکن صاحب! کیا ٹھمکے تھی، کیا لچک اور تھرک تھی۔ اہل پنجاب تو منہ پیٹتے رہ گئے جن کے بارے میں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے فتویٰ دیا تھا کہ پنجاب کے تو گھر گھر میں مجرا ہوتا ہے۔ ممکن ہے ان کا آنا جانا ایسے گھروں میں ہوتا ہو آخر کو ایم کیو ایم پنجاب میں بھی تو پیر پھیلا رہی ہے اور جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے یہاں بھی ”خوش اداوں“ کی ضرورت پڑی ہوگی۔
گو کہ ان کے ٹھمکے میں کہیں خوش ادائی نہیں ہوتی۔ محض مشقت معلوم ہوتی ہے۔ تاہم باغ جناح میں اتنی بڑی تعداد میں خوش اداوں کو جمع کرنے کی غرض وغایت سمجھ میں نہیں آئی۔ وہاں تو ہمارے محترم الطاف حسین ہی کافی تھے۔ وہ کیا کسی سے کم ہیں، اپنے فن کا بارہا مظاہرہ کرچکے ہیں‘ ناچ کر، گا کر۔ ان کا پسندیدہ گانا ہے ”لے کر پہلا پہلا پیار، بھر کے آنکھوں میں خمار، جادونگری سے آیا ہے کوئی جادوگر۔“ اور یہ اشارہ ان کی اپنی ذات شریف کی طرف ہوتا ہے۔ آنکھوں سے بلاشبہ خمار چھلک رہا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ جادو نگری سے آئے نہیں بلکہ جادو نگری میں جا بیٹھے ہیں اور وہیں سے پاکستان کی عفت مآب خواتین کو اپنے انداز میں خود مختاری عطا کررہے ہیں۔ انہیں یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ متعدد کیمروں کے سامنے آزادی سے ٹھمکے لگائیں کہ پاکستان اسی طرح مضبوط ہوگا۔ زندہ باد الطاف بھائی۔ محترمہ نسرین جلیل، حیدر عباس رضوی کے ساتھ محو رقص تھیں۔ خوش بخت شجاعت بھی تھرک رہی تھیں اور بابر غوری ڈھولکی بجا رہے تھے۔ بہت دلکش منظر تھا۔ پنجاب میں تو بقول وسیم اختر گھر گھر مجرا ہوتا ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے مجرے کو گھر سے نکال کر میدان میں جمع کردیا، کون گھر گھر جائے۔ ہم بہت دیر تک یہی سوچتے رہے کہ کراچی والوں کی غیرت کو کیا ہوگیا، کیا یہی کراچی کی خواتین کی پہچان ہے؟ اقبال نے ان کے بارے میں تو نہیں کہا تھا کہ ”زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہوگا۔“
آفاق احمد کا تبصرہ ہے کہ ”گزشتہ دنوں باغ جناح میں کیا جانے والا پروگرام شرمناک اور قوم کی بہن، بیٹیوں کو سرعام رسوا کرنے کا سبب بنا ہے۔ حکومت کے ایک اتحادی وزیر نے پنجاب کے عوام کو جن فحش القابات سے نوازا اور مغلظات بکیں، وہی کچھ اس پروگرام کے ذریعہ قوم کی بہن، بیٹیوں کے سر تھوپ دیا گیا۔ خواتین کو جس طرح سر بازار رسوا کیا گیا اس کو قائداعظم یا فاطمہ جناح سے منسوب کرنا شرانگیزی ہے، یہ مہاجر قوم کا کلچر ہرگز نہیں ہے۔“ یہ صریحاً الطاف کلچر ہے۔
لیکن ان بہنوں، بیٹیوں کو کیا ہوگیا تھا۔ کیا یہی وہ آزادی ہے، خود مختاری ہے جو ہماری بیٹیاں الطاف حسین کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ سرعام ناچنے کی آزادی تاکہ پاکستان مضبوط ہوجائے۔ ستم یہ کہ ناچ، گانے سے بھرپور یہ پروگرام ماہ ربیع الاول میں پیش کیا گیا جس مہینے میں رحمت اللعالمین دنیا میں تشریف لائے تھے اور عورت کو شرف بخشا تھا۔ مسلمان عورت کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنا آپ نہ دکھاتی پھرے اور گھر میں ٹک کر بیٹھے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت اپنا بناو سنگھار دکھاتی پھرتی اور مردوں کو لبھاتی تھی۔ قرآن کریم میں مسلمان عورت کے لیے پردے کا حکم ہے لیکن الطاف بھائی کا فکر اور فلسفہ کچھ اور ہے اور یہی کچھ ہے جس کا مظاہرہ ساری دنیا نے دیکھا۔ یہ وہ لبرل ازم اور ماڈرن ازم ہے جس کا اسلام سے تعلق ہے نہ مسلمان عورت سے۔ ستم یہ ہے کہ بے ہودگی کے اس اجتماعی مظاہرہ پر اس قوم کے لبرل صدر اور ماڈرن وزیراعظم کی طرف سے تعریفوں کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ جناب زرداری سے تو کیا کہیں لیکن کیا شیخ عبدالقادر جیلانی سے نسبت رکھنے والے ملتان کے سید زادے یوسف رضا گیلانی یہ پسند کریں گے کہ ان کے گھر کی بہو، بیٹیاں بھی اسی طرح سب کے سامنے رقص کریں‘ ٹھمکے لگائیں اور چیئر گرلز کی طرح مٹکتی پھریں؟ گیلانی صاحب ایمان داری سے جواب دیجیے گا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے عورتوں کی میراتھن ریس کا اہتمام کیا تھا تو اس وقت قاضی حسین احمد نے جنرل صاحب کے دست راست چودھری شجاعت سے پوچھا تھا کہ کیا آپ اپنے گھر کی بہن، بیٹیوں کو اس طرح سڑکوں پر دوڑانا گوارہ کریں گے؟ وہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگئے اور ممکن ہے یہ کہا ہو کہ مٹی پاو، ہماری بہو، بیٹیاں ایسی حرکت کریں تو ٹانگیں توڑ دیں گے۔ دوسروں کی بہو، بیٹیوں کو نچانا اور محظوظ ہونا بہت آسان ہے۔
بلاشبہ 19 فروری کو ہونے والا خواتین کا یہ اجتماع بہت بڑا تھا، پاکستان ہی نہیں شاید دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا زنانہ اجتماع۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ 10 لاکھ خواتین تھیں۔ ضرور ہوں گی۔ (پورے سندھ کی) آبادی میں سے الطاف کلچر کی اتنی شیدائی نکل سکتی ہیں اور یہ دعویٰ درست ہے کہ کوئی اور سیاسی ومذہبی جماعت ایسا اجتماع نہیں کرسکتی۔ الطاف حسین چاہیں تو یہ دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ اتنی عورتیں تو حج کے موقع پر بھی جمع نہیں ہوتیں جتنی انہوں نے ہنستے، گاتے جمع کرلیں۔ اب کسی کا یہ تبصرہ تو بڑی زیادتی ہے جس پارٹی میں مرد نہیں ہوتے وہ عورتوں کی مدد لیتی ہے۔ اب کیا پیپلز پارٹی میں مرد نہیں تھے کہ اپنی سربراہ ایک خاتون کو بنا رکھا تھا۔ میاں نواز شریف جب زیرعتاب آئے تھے تو بیگم کلثوم میدان میں نکلی تھیں۔ قومی اسمبلی کی اسپیکر ایک خاتون ہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پورے ایوان میں کوئی مرد اس قابل نہیں ہے؟ اب اگر الطاف حسین خوتین کو آگے لارہے تو کیا ہوگیا۔ انہوں نے اپنے گنگناتے ہوئے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ بیویوں کو برابر کے حقوق دو، انہیں اپنا دوست بناو۔ ہمیں یقین ہے کہ خود جناب الطاف حسین نے اپنے اس فلسفہ کا اطلاق اپنے گھر میں بھی کیا ہوگا اور اپنی اہلیہ کو دوست بنا کر برابر کے حقوق دیے ہوں گے۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ وہ چھوڑ کر چلی گئیں۔ افواہیں تو بہت سی ہیں مثلاً یہ کہ جھگڑے کی بنیاد ہی حقوق کا حصول تھا۔ لیکن جو شخص اپنی اہلیہ کو نہ سنبھال سکا، اسے خود مختاری دے کر پاکستان نہ سہی اپنے گھر ہی کو مضبوط کیا ہوتا۔ الطاف بھائی کم ازکم اب تو بتادیں کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو کیسے کیسے حقوق دے رکھے تھی، دوستی کس طرح کی تھی تاکہ ان کے معتقدین بھی اس پر عمل کریں اور اپنے اپنے گھروں کو اسی طرح مضبوط بنائیں۔
الطاف بھائی کا اپنے مریدوں سے یہ شکوہ بھی آن ریکارڈ ہے کہ بہت کہتے تھے الطاف بھائی بھابھی لاو، بھابھی لاو۔ اب تم لوگوں کو کیا پتا کہ الطاف بھائی کو دو وقت کی روٹی بھی ملتی ہے یا نہیں۔ بے چارے الطاف بھائی۔ اب تو سنا ہے کہ کئی وقت کی روٹی مل رہی ہے، صحت اس کا ثبوت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اعتراضات بھی بے معنیٰ ہیں کہ مغرب کی اذان ہورہی تھی اور الطاف بھائی بغیر کوئی وقفہ دیئے خطاب کرتے رہے جبکہ ان کی جانثار خواتین تک نے اذان کے احترام میں دوپٹوں سے سروں کو ڈھانک لیا تھا۔ اب ایک لبرل، ماڈرن شخص سے ایسی توقع کیا رکھنا کہ وہ شعائر اسلام کا احترام بھی کرے گا۔ البتہ خواتین کے ردعمل سے یہ اطمینان تو ہوا کہ ابھی اذان کا احترام باقی ہے۔ الطاف بھائی کو مزید محنت کرنا ہوگی۔ لیکن دین دار خواتین ان کی محنت پر پانی پھیرے دے رہی ہیں۔ عورت کی عصمت وحرمت کے لیے ریلیاں نکال رہی ہیں اور ان کا نعرہ ہے کہ ”پاک وطن کو پاک کرنا ہوگا۔“ یہ الطاف بھائی کے فکر اور فلسفے کے منافی ہے۔ ان کے خیال میں تو عورت کا ناچنا، گانا، اور ہر شعبہ میں مرد کے برابر حقوق کا حصول ہی پاکستان کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ وراثت میں بھی عورت کے برابر کے حصہ کا مطالبہ کردیں‘ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ خود فقیہہ دوراں ہیں، کم ازکم اپنے مریدوں کے لیے۔ ان کی فکر اور فلسفہ ایک متبادل عقیدہ بن چکا ہے اور جہاں عقیدہ آجائے وہاں معتقدین اپنی عقل کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو نہایت پڑھے لکھے ہندو بھی اپنے تراشے ہوئے پتھروں کو معبود نہ بنا لیتے۔ انبیاءکرام کو بار بار اسی لیے بھیجا گیا کہ لوگوں کے عقیدہ درست کرائیں۔ مگر شیطان بھی اپنی سی کرتا رہا اور آج کل تو اس کی موجیں ہیں۔ قرآن کریم میں واضح کہا گیا ہے کہ مرد کو عورت ”قوام“ بنایا گیا ہے اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم عورت کے اشاروں پر چلنے لگو تو تمہارے لیے زمین کی پیٹھ سے زمین کا پیٹ بہتر ہے۔
بلاشبہ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ جہالت اور اس سے بڑھ کر لاقانونیت ہے۔ الطاف حسین جس خود مختاری اور برابر کے حقوق کی بات کررہے ہیں ان کے ملک برطانیہ سمیت پورے یورپ، امریکا کی خواتین کو حاصل ہیں‘ ان کو مغرب کے مرد نے بری طرح بے وقوف بنایا ہے۔ اب وہ دفتروں، کارخانوں میں مرد کے برابر کام بھی کرتی ہے اور بچے بھی پالتی ہے۔ خود مختار خواتین بغیر شادی کے ماں بن جاتی ہیں تو جادونگری کا جادوگر انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بچے بھی مائیں ہی پالتی ہیں۔ یہ ہے ان کی خودمختاری جس سے مغرب کی عورت بری طرح بے زار ہو کر گھر کی تلاش میں ہے اور یہاں گھر برباد کیے جارہے ہیں۔ یہ تجربہ مغرب میں ناکام ہوگیا، اب یہاں کیا جارہا ہے۔ مغرب کی عورت اپنی بے توقیری سے پریشان ہو کر ایک کھونٹے سے بندھنا چاہتی ہے اور یہاں گھر کے کھونٹے، مرد کی ڈور سے بندھی عورت کو رسہ گیر اچکنا چاہتے ہیں۔ جن کا اپنا گھر نہیں بسا وہ بسے بسائے گھروں کو کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔ عورت کی خودمختاری اور احترام کی ایک نادر مثال خود متحدہ نے پیش کررکھی ہے۔ متحدہ کے یو سی ناظم (سلمان بلوچ ،بلدیہ ٹاﺅن) نے اجلاس کے دوران بیلٹ اتار کر ایک خاتون رکن کی پٹائی کی تھی۔ شاید وہ اس طرح یونین کونسل کو مضبوط بنا رہے تھے۔ اہل کراچی خوب جانتے ہیں کہ بھائی لوگ دوسروں کی خواتین کا کس قدر احترام کرتے رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
کوئی کچھ کہے ہمیں تو یہ شو اچھا لگا۔ ہم تو شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی بار بار دیکھ کر بور ہوگئے تھے۔ خواتین کورس میں گا کر الطاف بھائی کو پیغام دے رہی تھیں ”پیا، اب تو آجا۔“ لیکن پیا اتنے بھولے بھی نہیں۔ وہ اپنی واپسی کا معاملہ رابطہ کمیٹی پر ڈال دیتے ہیں جو حسبِ منشا انہیں روک دیتی ہے۔ بمشکل تمام تو جان بچا کر نکلے ہیں۔ انہیں منزل مل چکی۔ کارکن اسی نعرے پر خوش ہیں کہ ”ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے“ عجیب فلسفہ ہے۔ رہنما ہوتا کس لیے ہے، منزل کی نشاندہی کے لیے، اور جب منزل ہی درکار نہیں تو ایسے رہنما کا کیا کرے کوئی۔ الطاف بھائی ایک بات بڑے تواتر سے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم میں موروثی سیاست نہیں ہے۔ ارے بھائی، کوئی وارث ہو تو موروثی سیاست کی بات ہوتی ہے۔ ابھی تو آپ خود ہی مورث اعلیٰ ہیں۔ کوئی وارث تو پیدا کرلیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ متوسط طبقے کو ٹکٹ دیے گئے۔ لیکن یہ طبقہ اب کہاں سے کہاں پہنچا، کچھ اس کا حساب بھی کیا۔ مثلاً بابر غوری صاحب پہلے کیا تھے، اب کس طبقہ میں ہیں، بے شک جلسہ میں ڈھولکی بجا رہے تھے۔ ایک اخبار میں علی شیر نوائی نے اس جلسہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہ صاحبانِ فن شاید غلط پیشے میں آگئے ہیں، کہیں اور انہیں زیادہ عزت وشہرت مل جاتی۔ کراچی والوں نے کس قبیل کے مراثیوں اور بھانڈوں کو اپنا لیڈر بنا رکھا ہے۔“ ہم اس تبصرے پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ آخر ہم بھی تو ایک عرصہ کراچی میں رہ چکے ہیں۔ پھر آپ کو محظوظ کرنے کے لیے آپ سے کوئی پیسہ، ٹکا تو نہیں لیا۔ مفت کی تفریح بھی ہضم نہیں ہورہی۔ لیکن کیا واقعی یہ کراچی کا چہرہ تھا؟
ہمارا بھی اہلیان کراچی سے یہی سوال ہے کہ کیا واقعی یہ کراچی کا چہرہ تھا؟
point to think for all women of karachi!
نہایت شرمناک اور افسوسناک… لیکن روشن خیالوں کے تو خواب پورے ہو گئے… کوئی نئی پوسٹ بھی نہیں آئی اس اجتماع کو خراج تحسین پیش کرنے کی… عجیب بات ہے…!!!
اسلام علیکم
افسوسناک ! اس بے شرمی اور بے حیائ کے بعد انکا نعرہ یہ ہونا چاہئے
قوموں کی عزت کو گہنائیں
ایسی بیٹیاں بہنیں اور مائیں