نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں

مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں سیرت کانفرنس ہے، خواتیں کے لئے جسکا عنوان ہے تعلیمات نبوی اور مسلمان ماں کا کردار۔ میں بھی شرکاء کی نشستوں پر موجود ہوں۔ اسٹیج بقعہء نور بنا ہوا ہے۔ فلش لائٹس اور کیمروں کی روشنی گاہے بگاہے جو اسٹیج پر موجود بیگمات کی ہر ہر زاویہ سے تصاویر بنانے میں مصروف تھے، عورتوں کے حقوق کی ایک معروف این جی او کے تحت یہ پروگرام منعقد ہورہا تھا۔  ٹی وی کی ایک جانی پہچانی میزبان نے مائیک سنبھالا ہوا تھا اور اسٹیج پر موجود بیگمات کا تعارف کرانے لگیں۔ درجن بھر کے لگ بھگ بیگمات جو مختلف سماجی شعبوں میں سماجی خدمات اور عورتوں کے حقوق  کی جدوجہد کے حوالے سے اپنا کوئی خاص حوالہ رکھتی تھیں۔ زرق برق ملبوسات و زیورات اور مہنگے میچنگ پرسوں نے اسٹیج کی رونق چار چاند کی ہوئی تھی اسی لئے فوٹوگرافرز اور ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں کا تحرک دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ میزبان فرداً فرداً ان بیگمات کو اظہارخیال کے لئے بلارہی تھی۔ بیگم موتی والا کا دوپٹہ جو غالباً ٹشو کا تھا  کسی طور پر سر پر ٹکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ انکے سراور دوپٹے کے درمیان ایک کشمکش تھی۔ وہ بار بار دوپٹہ سر پر جمانے کی کوشش کرتیں اور وہ شانوں پر بھی ٹہرنے کو تیار نہیں تھا البتہ اس کشمکش میں انکے خوبصورت کنگن نمایاں ہو رہے تھے۔ شاید ڈائمنڈ کے ہیں میں‌ سوچنے لگی، دل نے کہا اونہہ شہر کے حالات اتنے خراب ہیں آجکل تو ہر ایک مصنوعی زیورات کا سہارا لیتا ویسے یہ  مصنوعی زیورات بھی کیا کم قیمت کے ہیں؟

اف خدا سیرت کی محفل اور یہ میری سوچیں بہک کر کہاں نکل گئیں‌! میں نے تمام توجہ مائیک کی آواز کی سمت مبذول کی، الفاظ انکی زبان کا ساتھ بھی تو نہ دے رہے تھے۔ شاید کسی سے لکھوا کر لائیں تھیں اور پریکٹس بھی نہ کرسکیں تھیں اسلئیے کئی جگہ اٹک بھی گئیں‌ اور بیرسٹر فلک ناز کی اردو تو رواں تھی مگر ہاں عربی خاصی کمزور اسلئیے جہاں عربی کے حوالے تھے وہاں زبان میں لکنت آجاتی تھی۔ انکی نفیس شخصیت کو نفیس لباس نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ کیمروں کو بھی بہت اچھی طرح فیس کررہی تھیں۔ دوپٹہ سنبھالنے کا بھی مسئلے نہیں تھا۔ اچھی طرح سیٹ تھا انکا۔ کچھ تقاریر موضوع سے ادھر ادھر بھی تھیں‌ شاید بروقت موضوع  نہ پہنچ سکا یا تیاری کا وقت نہ مل سکا۔

میں اپنی سوچوں پر لاحول پڑھنے لگی کہ سیرت کی محفل اتنا مقدس موضوع۔۔ لیکن دل کیوں نہیں لگ رہا؟ کسی کی بات دل پر اثر ہی نہیں کررہی؟ یقیناً اسمیں میری اپنی کیفیات کا ہی قصور ہے۔۔۔ پھر میں نے اپنی سوچوں کو مرتکز کرنا چاہا۔ اسٹیج پہ آویزاں پینا فلیکس کے بینر پہ موضوع “تعلیمات نبوی اور مسلمان ماں کا کردار” لکھا تھا اور شاید میری ہی عدم توجہ یا شاید اسٹیج کی چکا چوند میں یہ موضوع سچ مچ پس منظر میں چلا گیا تھا۔۔۔ میرے دل کا اضطراب بڑھتا گیا۔ جی ایکدم اچاٹ ہوگیا کہ اٹھ کر چلی جاؤں پھر دماغ نے کہا کہ اتنی مقدس محفل یقیناً یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔۔۔ پھر لاحول پڑھا اور شعور کو یکجا کرنے لگی کہ یکدم اناؤنسر کے ایک جملے نے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی کہ”ہم اسوقت اس امت کی مائیں ہیں۔ ہمارا کردار کیسا ہونا چاہئیے “امت کی مائیں۔۔۔ امت کی مائیں– ہم اسوقت اس امت کے سپوتوں کی مائیں؟ یکدم منظر بدل گیا۔۔۔ سب کچھ بدل گیا۔۔۔ بے قرار دل کو قرار آگیا۔۔۔ یوں لگا کہ ابر سے بجلی کوندی جس نےاسٹیج کو اپنے ھالے میں لے لیا ہے۔ انکی شان درخشندی ایسی تھی جیسی حوران بہشت زمین کی طرف آنکلی ہوں۔۔۔ ان میں سے جسکے روئے تاباں پر نظر پڑی نظر پھر ہٹ نہ سکی۔۔۔ کیسا نور، کیسی پاکیزگی، کیسا تقدس۔۔۔ ایک لمحہ نے 1400 برسوں کے حجاب نظروں سے ہٹادئے۔۔۔ اس ایک  لمحہ نے 1400 برس کے دریچے وا کردئیے۔ آوازیں واضح طور پر میں سن پا رہی تھی۔ آوازیں فلک سے آرہی تھیں شاید۔۔۔ میرے تخیل میں امت کی مائیں نمودار ہوگئیں۔ یہ انتہائی دائیں جانب حضرت خدیجۃ الکبرٰی براجمان ہیں آپکو سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف عطا ہوا نبی پاک کا دل انکی محبت کا اسیر تھا۔ انکے اعزاز میں آپ کے  یہ الفاظ سنہری لفظوں سے تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں۔۔۔

خدا کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی، وہ ایمان لائیں جب سب کافر تھے، اس نے میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا اس نے اپنا مال و زر مجھ پر قربان کردیا جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اللہ نے انکے بطن سے مجھے اولاد دی۔

آوازیں بدستور سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں اور دل ان سراپا نور شخصیتوں کے نورکے سحر میں کھوگیا تب آواز آئی کہ “ایک مرتبہ جبریل امین حضور کے پاس تشریف لائے اور کہا “خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں آپ انکواللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے”۔

فرشتہ آسمان سے رب کا سلام لایا ہے یقیناً کردار کی عظمت ہوگی اور یہ عظمت نبی پاک کے اس فرمان سے عیاں ہے “جب میں کفار سے کوئی بات سنتا تھا تو مجھے ناگوار لگتی تھی تو خدیجہ میری ڈھارس بندھاتی تھیں جس سے میرے دل کو تسکین ہوجاتی تھی اور کوئی ایسا رنج نہ تھا جو خدیجہ کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا”

حق رفاقت ادا کردیا، جاں نثاری کا حق ادا کردیا، تبلیغ حق میں آپکا دست و بازو ثابت ہوئیں، تمام مال و زر اسلام پر نثار کردیا، یتیموں، بیواؤں، بے کسوں کی دستگیری کی آپ نے مثالیں قائم کیں۔ امت کی سچی غمگسار ماں آپ پر سلام۔

اور یہ سراپا تقدس حضرت سودہ ہیں۔۔۔ میرے لاشعور میں آوازیں گونج رہی ہیں “عشق میں ایثار حضرت سودہ ہی کی خصوصیت ہے۔ حضور کی خوشنودی کی خاطر انہوں نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دیدی تھی۔۔۔ حضرت عائشہ کا قول ہے” میں نے کسی عورت کو جذبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہ کے” آپ بہت دریا دل تھیں آپ طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں اور انکی آمدنی راہ خدا میں خرچ کیا کرتی تھیں۔ ایک بار حضرت عمر نے آپکی خدمت میں کھجوروں والا ایک بورا درہموں سے بھر کر بھیجا۔۔۔ انہوں نے اسی وقت سب درہم مسکینوں میں تقسیم کردئیے۔ آپ کے انہی پاکیزہ اخلاق سے متاثر ہو کر ایک بارحضرت عائشہ نے فرمایا “سوائے سودہ کے کسی عورت کو دیکھ کر میررے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری روح ہوتی۔

حضرت سودہ رسول پاک کی وفات کے بعد ساری عمر گھر سے نہ نکلیں۔ آپکی بلند کرداری آج بھی امت کی ماؤں کے لیئے مشعل راہ ہے۔ آپ پر لاکھوں سلام۔۔۔ رہتی دنیا تک کی مائیں آپ پر قربان۔۔۔

اور چشم تصور میں جلوہ افروز یہ چہرہ  حضرت عائشہ کا ہے۔ آپ بہت عبادت گزار خاتون تھیں۔ آنحضرت کے ہمراہ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز باقاعدگی سے ادا کیا کرتی تھیں۔ اکثر روزے سے رہتیں۔ آپ دینی علوم کے علاوہ طب، تاریخ، شعر و ادب میں بھی ملکہ رکھتی تھیں۔ آپ تعلیمات نبوی کو امت تک پرپہچانے کے باعث “محسنہء امت” کہلاتی ہیں۔ فصیح البیان ہونے میں کوئی آپکا ثانی نہ تھا۔

ایک شخص‌ نے دریافت کیا حضور کے قیام لیل کی کیفیت بیان کریں؟ سیدہ نے ارشاد فرمایا “کیا تم نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ اس جواب میں آپ کی فصاحت کے دریا بہہ رہے ہیں۔ غزوہ بدر میں اسلامی لشکر آپکی اوڑھنی سے بنایا گیا آپ ہی نے جبرئیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپکو جبرئیل نے سلام کہا، آپکے صدقے میں تیمم کی آیات نازل ہوئیں۔ آپکے بستر پر حضور پاک کو وہی نازل ہوئی، آپ ہی کے لئے تو ارشاد فرمایا “عائشہ کو عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسی ثرید کو کھانوں پر”۔

معانی قرآن ہوں یا احکام حلال و حرام، اشعار عرب ہوں یا علم الانساب آپ جیسا کوئی انکا ماہر نہ تھا۔ آپ نے ایک لاکھ درہم روزے کی حالت میں ایک دن میں صدقہ کر دئے تھے جبکہ رات کو گھر میں کھانے کو سالن تک نہ تھا۔ آپ سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں یعنی دو ہزار دو سو دس۔ سیدہ عائشہ یہ ہیں امت کی ماں۔۔۔ آپ پر لاکھوں سلام۔۔۔ رہتی دنیا تک کی مائیں آپ پر قربان۔

اور یہ ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروق ہیں‌ اور علم و فضل کے لحاظ سے بہت مرتبے والی خاتون ہیں۔ آپ دجال کے شر سے بہت ڈرتی تھیں‌۔ جبرئیل امین نے آپکی تعریف ان الفاظ میں کی “وہ بہت عبادت کرنے والی، بہت روزے رکھنے والی  اور بہشت میں بھی آپکی زوجہ ہیں”

آپ اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ آپ نے وصیت کی کہ وہ جائیداد جو حضرت عمر نے انکی نگرانی میں دیا تھا اسکو صدقہ کرکے وقف کردیا جائے۔ آپکی آٹھ برس کی رفاقت حضور پاک کے لئے وجہ تسکین بنی۔ ہر چہرہ دوسرے سے جدا مگر ایک قدر مشترک اور وہ کردار کی بلندی۔

یہ اگلی شخصیت امت کی ماں زینب بنت خزیمہ ہیں جنکا لقب ام المساکین  ہے۔
بہت ہی کشادہ دست فقیروں، مسکینوں کی خدمت کے لئے کمربستہ۔ معاشرہ یونہی تو نہیں کسی کو مسکینوں کی ماں کا لقب دیا کرتا۔ آپکے عقد میں بہت تھوڑا وقت 2 یا 3 سال کا گزرا۔ امہات المومنین میں آپ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپکی نماز جنازہ خود نبی پاک نے پڑھائی۔ آپکی فیاضی رہتی دنیا تک مشعل راہ رہیگی۔

اور یہ ایک سخی باپ کی بیٹی ام سلمہ ہیں۔ امہات المومنین میں حضرت عائشہ اور ام سلمہ کا کوئی حریف اور مقابل نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس تک ام سلمہ سے علمی فیض حاصل کرتے تھے۔ آپ بہت فصیح اللسان تھیں۔ چند صحابہ آپکی خدمت میں‌ حاضر ہوئے کہ اپنی خانگی زندگی کے بارے میں بتائیں آپ نے فرمایا “آپکا ظاہر اور باطن یکساں تھا”۔ آپ مجتہد یقین کامل العقل اور صاحب رائے تھیں قرآن رسول پاک کی طرز پر پڑھا کرتی تھیں۔ اللہ نے آپکو ظاہری اور باطنی جمال سے نوازا تھا۔ علم، ذہانت اور پختہ رائے کی نعمتیں آپکو وافر عطا فرمائی تھیں۔ آپکے مشورے پر عمل کرکے رسول پاک نے حدیبیہ میں پیش آنے والی مشکل کو حل کرلیا۔ آپ ہی وہ پہلی عورت تھیں جو ہجرت کرکے مدینہ آئیں۔ 7 سالہ رفاقت میں آپ نے حق رفاقت ادا کردیا۔ رہتی دنیا تک آپ کے علم کے چشمے سے کاروان علم سیراب ہوتے رہیں گے۔ آپ پر رہتی دنیا تک سلام۔۔۔

اور یہ پرہیزگار، سچ بولنے والی، عبادت گزار امت کی ماں زینب بنت جحش ہیں حق گو ایسی کہ انکے صدق و اقرار کا اعتراف حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں کیا “میں نے دین کے معاملے میں زینب سے بہتر کوئی عورت نہیں دیکھی” مخیر ایسی کہ نبی پاک نے فرمایا کہ “ازواج مطہرات میں وہ مجھ سے جلد ملے گی جسکا ہاتھ سب سے لمبا ہوگا یہ انکی فیاضی سے متعلق ایک حسین استعارہ تھا۔
انکی وفات پر حضرت عائشہ نے روتے ہوئے گواہی دی کہ “زینب ایک نیک عورت تھیں” مدینہ کے مساکین میں آپکی وفات سے کہرام مچ گیا اور آُامت کے لئے روشن اسوہ چھوڑ گئیں۔

امت کی ان عظیم ماؤں میں ام المومنین حضرت جویریہ جو عبادت اور زہد میں اپنا مقام رکھتی تھیں یا حضرت ام حبیبہ جنہوں نے اسلام کی خاطر ہجرت حبشہ میں تکلیفیں برداشت کیں اور ام المومنین حضرت صفیہ جو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی مالا مال تھیں اور نہایت عاقلہ اور حلیم خاتون  تھیں۔ اسی طرح  ام المومنین حضرت میمونہ جنکے بارے میں حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا “میمونہ ہم سب میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والی ہیں اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے والی ہیں”۔ آپ غلام آزاد کرنے کے لئے مشہور تھیں اور ماریہ قبطیہ جنکو حضور پاک نے اپنے حرم میں داخل فرمایا جو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق سے بھی مالا مال تھیں۔ حضرت ریحانہ بنت شمعون کے اسلام لانے کے بعد  حضور پاک  نے انہیں اپنے ملک میں رکھا بعض روایتوں کے مطابق آزاد کر کے نکاح فرمالیا۔ آپکے پاکیزہ اخلاق کے باعث آپؐ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ تقلید ہیں۔ آپ اپنی تمام ازواج کے ساتھ نہایت محبت اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے تھے۔ نماز عصر پڑھ کر آپکا معمول تھا کہ تمام ازواج کے ہاں تشریف لیجاتے۔ کاشانہ نبوت کے فقر و فاقہ میں بھی امت کی یہ مائیں صبر و تحمل کا پیکر تھیں۔

تقریب کے اختتام پر جب گل پاشی ہو نے لگی تو میں چونک کر حقیقت کی دنیا میں پلٹی، یہ آڈیٹوریم یہ اسٹیج، یہ بینر کی عبارت تعلیمات نبوی اور مسلمان ماں کا کردار۔۔۔ اور اس کردار کو بیان کرتی ہوئی  یہ اس دور کی مائیں۔۔۔ کردار کو بیان کرنے کے لئے بھی ایک کردار درکار ہوتا ہے۔ امت کی حقیقی ماؤں امہات المومنین کا کردار کب ہم سے پوشیدہ ہے۔ امت کے وہ روشن ستارے آج بھی تابانیاں بکھیر رہے ہیں۔ وہ سمندر تو آج بھی دریا دینے کو تیار ہیں۔ ان تعلیمات نبوی کا تو آج بھی لفظ لفظ محفوظ ہے۔ مسجد نبوی سے متصل حجروں میں امت کی ان عظیم ماؤں نے عزیمت کی جو تاریخ رقم کی ہے، جو اسوہ ہمارے لئے چھوڑا ہے وہ آج بھی اسی طرح لائق تقلید ہے جیسے کل تھا۔

اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبوئیں شرکاء کو میزوں کی جانب تیز تیز قدم بڑھانے پر مجبور کررہی تھیں اور مجھے لگا کہ اس پرتکلف آڈیٹوریم کے درودیوار ہم سینکڑوں عورتوں میں سے امت کی ماں کی جھلک تلاش کر رہے ہوں!

فیس بک تبصرے

نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں“ پر 2 تبصرے

  1. الفاظ نہیں ہیں۔۔۔کوئی کیا تعریف کرسکتا ہے امہات المومنین کی۔۔۔
    اماں خدیجۃ الکبرٰی سے لیکر اماں عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ تک سب پر ہمارا کروڑوں سلام ہے اور چند آنسو کے قطرے ہیں جو بے اختیار آنکھوں سے گر پڑے ہیں۔۔۔

  2. اب تو یہ سوچنے لگتا ہوں، کیا یہ مائیں ہمیں ان ماؤں کا احساس دلاسکتی ہیں، جن کا ذکر کتابوں میں پڑھتے اور صرف محسوس کرسکتے ہیں

Leave a Reply