پاکستان کا صوبہ ”بلوچستان“ایک عرصہ سے بد امنی کا شکار ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول بلوچ عوام کو حقوق نہ ملنا، دوئم بیور کریسی اور فورسز کا بے لگام ہونا، غیر ملکی طاقتوں کی اس خطے میں دلچسپی اور مفادات بالخصوص گوادر پورٹ اور اب ریکورڈک وغیرہ، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بلوچ عوام کے لیڈروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی !
آئے روز بلوچ نوجوانوں کا اغوا اور پھر کسی دن کسی چوک سے مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ملنا، گیس پائب لائنز اور دیگر سرکاری تنصیبات پر حملے، غیر بلوچوں بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں عرض کیا کہ اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ بلوچ عوام کے لیڈرو ں کی خود غرضی اور مفاد پرستی شامل ہے۔ علیحدگی پسند جماعتیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے بلوچ عوام کے ساتھ زیادتی کو بنیاد بنا کر صوبے میں تخریبی کارروائیاں کرتی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں کے نوابوں، وڈیروں، میروں نے عوام کے لئے کیا کِیا؟؟
ہم بات کررہے تھے کہ بلوچستان میں بد امنی کی بڑی وجوہات میں سے ایک سیکورٹی فورسز کا بے لگام ہونا اور دوسرا بلوچوں کے لیڈروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی۔ پیر 6 فروری کو بلوچستان اسمبلی میں میر صادق عمرانی کے بیان نے اس بات کو ثابت بھی کیا۔ میر صادق عمرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور صوبائی وزیر ہیں۔ آج کل اپنی پارٹی کے ساتھ ان کے معاملات گڑ بڑ چل رہے ہیں اور وہ اپنی پارٹی سے ناراض ہیں۔ اب یہ اتفاق کہہ لیں یا لیڈروں کی بے حسی کہ جب تک وہ اپنی حکومت یا پارٹی سے خوش رہتے ہیں اور پارٹی ان کے مفادات کا خیال رکھتی ہے تو وہ عوام اور میڈیا کے سامنے حکومت کے ہر اچھے برے کام کی حمایت کرتے رہتے ہیں اور ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ جاری کرتے رہتے ہیں لیکن جہاں ان کے اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو پھر ان پر سچ کا دورہ پڑتا ہے اور وہ ”سچائی کی قے“ کرنا شروع کرتے ہیں۔ پھر اچانک ان کی آنکھیں کھلتی ہیں اور ان پر کئی نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔ بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ بات ہورہی تھی میر صادق عمرانی کی، عمرانی صاحب نے پیر6 فروری کو بلوچستان اسمبلی میں یہ انکشاف کیا کہ ” گزشتہ دنوں آغا عرفان کریم کی والدہ کے اظہارتعزیت کے بعد وہ صوبائی وزیر داخلہ میر ظفراللہ زہری، صوبائی وزیر اطلاعات محمد یونس ملازئی کے ہمراہ قلات سے واپس آرہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے دو نوجوانوں کو سڑک کنارے کھڑا کیا ہوا تھا جن کے ہاتھ بندے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں اور اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کردی دوسرے روز ان کی لاشیں ملیں” بقول ان کے یہ واقعہ کم و بیش چار ماہ قبل پیش آیا تھا۔
قارئین کرام یہ انکشاف دراصل ہمارے نام نہاد لیڈروں کی بے حسی، مفاد پرستی، ضمیر فروشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غور کیجئے کہ صوبائی وزیر داخلہ، صوبائی وزیر اطلاعات اور ایک صوبائی وزیر کی موجودگی میں فرنٹیئر کور نے دو نوجوانوں کو سر عام قتل کیا، اور یہ مفاد پرست لیڈر خاموش رہے۔ جب تک ان کے مفادات پورے ہوتے رہے اس وقت تک ان کی زبان بند رہی اور جب ان کے حکومت اور اپنی پارٹی سے معاملات خراب ہوئے تو انہوں نے بڑی بے شرمی سے اس بات کا انکشاف کرلیا۔
یہاں پر صوبائی وزیر حاجی علی مدد جتک نے صادق عمرانی کے انکشاف پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ” تین وزراء نے اگر ایف سی کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ گواہی بھی دے رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار ماہ تک خاموش کیوں تھے؟ انہوں نے اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟ ہمیں عوام نے منتخب کرکے بھیجا ہے تاکہ ہم ان کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں“ ۔ بات بالکل درست ہے کہ مذکورہ وزراء نے جب اپنے سامنے یہ واردات ہوتے دیکھی تو اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ بالفرض محال اگر ان کی مداخلت سے پہلے ہی ایف سی نوجوانوں کو قتل کرچکی تھی تو انہوں نے اس کھلی جارحیت و بدمعاشی کے خلاف کیا ایکشن لیا؟مذکورہ تینوں وزراءچار ماہ تک خاموش کیوں رہے؟ انہوں نے اس عرصے میں کسی بھی فورم پر آواز کیوں نہیں اُٹھائی؟ اور اس معاملے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا اس طرح شہادت حق کو چھپا کر انہوں نے اعانتِ مجرمانہ کا ثبوت نہیں دیا؟ اور ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری فورسز کسی کے کنٹرول میں بھی ہیں یا نہیں؟ خروٹ آباد کا واقعہ ہو یا کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کا قتل، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غنڈہ گردی اور بھتہ خوری ہو یا خفیہ اداروں کے ہاتھوں شہریوں کا اغواء کسی بھی معاملے پر ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے؟ کیا یہ لوگ خوف خدا نہیں رکھتے؟ کیا ان کو آخرت میں جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ہے؟
افسوس اس بات پر ہے کہ اتنے بڑے معاملے پر بھی میڈیا خاموش ہے، منگل 7 ستمبر کے اخبارات میں بلوچستان اسمبلی کی کارروائی کی خبر تو موجود ہے لیکن کئی اخبارات نے اس انتہائی اہم خبر کو اہمیت نہیں دی، جسارت اخبار کے علاوہ کسی اخبار نے اس با ت کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا۔ادھر چھوٹے چھوٹے اور غیر ضروری معاملات کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلانے والے میڈیا کی زبان بھی گنگ ہے۔ پنجاب کے کالجز میں کنسرٹ اور ڈانس پارٹیز پر پابندی کے خلاف شور مچانے والے میڈیا کے نزدیک شائد یہ کوئی اہم بات نہیں ہے ۔
افسو س کا مقام ہے کہ ملک کے انتہائی ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگوں کی عاقبت نا اندیشی کے باعث ہی آج صوبہ بلوچستان جہنم بنا ہوا ہے۔ آخری بات ہم اس فورم کے توسط سے بلوچستان کے قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں سے اپیل کریں گے کہ بےگناہ اور معصوم لوگوں کو لسانی بنیادوں پر قتل کرنے اور لوگوں کے سامنے اپنی محرومیوں اور نا انصافی کا رونا رونے کے بجائے پہلے اپنے ہی لیڈروں کا قبلہ درست کریں، یہ آپ ہی کے ہم قبیلہ،ہم زبان اور اہل شہر ہیں جو معصوم نوجوانوں کو قتل ہوتے دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، یہ اردو یا پنجابی بولنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ اسلام آباد یا پنجاب کے رہنے والے ہیں بلکہ یہ آپ ہی کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے آپ کے درمیان رہنے والے آپ ہی کے لیڈر ہیں۔خدار اس بات کو سمجھیں
ظلم کی انتہا ہے اس پر متعلقہ اداروں کو نوٹس لینا چاہیے. جسارت اخبار قابل مبارک باد ہے کہ اس ظلم کو عوام کے سامنے رکھا۔
اسلام علیکم
جب تک ہم اپنے دلوں سے وہن ( دنیا کی محبت اور موت کا خوف ) کی بیماری نہیں نکالیں گے ایسا ہی ہوتا رہے گا- صو بائ وزیر کو اپنی جان کا خوف رہا ہو گا اس وقت- کسی کی موت دیکھ کر آپ پر دہشت طاری ہو سکتی ہے -بالکل جیسے سانحہ لال مسجد میں بڑے بڑوں کو سانپ سونگھ گیا تھا-
تحریری اور زبانی الفاظ تو اب نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی لگتے ہیں جیسے- جب عمل کا وقت ہوتا ہے تو لوگ کچھ نہیں کرتے–بس کرتے ہیں تو مجاہدین ہی کچھ کرتے ہیں-
these so called leaders and ministers are responsible of misguiding their people. they must be thrown away by themselves.otherwise they will fall in the pit.