بنگلہ دیش کے جنوب میں خلیج بنگال کے خوبصورت ساحل پر چٹاگانگ کا شہر آباد ہے۔ 60 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ شہر اپنی سرسبز و شاداب پہاڑیوں و جنگلات اور دلکش ساحل کی وجہ سے سیاحوں میں بہت مشہور ہے۔ چٹاگانگ یونیورسٹی بنگلہ دیش کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ خوبصورت سبزہ زاروں سے گھری یہ یونیورسٹی آج اسلامی چھاترا شیبر کے پاکباز جونواں کے لہو سے گل رنگ ہے۔
چٹاگانگ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ میں اسلامی چھاترا شیبر نئے آنے والے طلبہ کے لیے پروگرام کا انعقاد کر رہی تھی کہ اسی دوران چھاترا لیگ کے غنڈوں نے جو لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور آتشیں ہتھیاروں سے مسلح تھے شیبر کے کارکنوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں شعبہ زولوجی کے سال دوم کے طالب علم محمد مجاہد اور شعبہ انگریزی کے فائنل ائر کے طالب علم مسعود بن حبیب شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ہونے والے تصادم میں تقریباً 35 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسلامی چھاترا شیبر نے آج جمعرات کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والے قتل عام کے خلاف شہر میں ہڑتال کی اپیل کی ہے۔
ویسے تو عوامی لیگ کی موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہیں مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں اپنے عروج پر ہیں لیکن جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اسلامی چھاترا شیبر اس کے خاص نشانے پر ہے۔ عوامی لیگی غنڈے جماعت اسلامی پر قیام بنگلہ دیش کی مخالقت بنگلہ قوم سے غداری کا الزام لگاکر اس کی قوت کو توڑنا اور مخالفین کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ دلاور حسین سیدی، پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کے خلاف غداری کا مقدمات اسی سلسلے کی کڑی ہیں لیکن اس پر ہی بس نہیں ہے۔ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اسلامی چھاترا شیبر کے خلاف کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ چٹاگانگ یونیورسٹی کا سانحہ اسکی تازہ مثال ہے۔
دعوت دین کی پاداش میں حزب الشیطٰن کی طرف سے اہل حق پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن شیبر کے یہ دیوانے بھی عجیب لوگ ہیں مسکراتے ہوئے سوئے مقتل چلے جاتے ہیں۔ عبدالمالک سے محمد مجاہد اور مسعود بن حبیب تک شہادتوں کی اک لازوال داستان ہے اور اس شاعری کی عملی تصویر:
کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا، جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لیکر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
مجھے اس وقت مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی وہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے 1969 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عبدالمالک کی شہادت کے موقع پر کہی تھی کہ نوجوانان جمعیت نے جو راستہ چنا ہے یہ اس راستے کی پہلی شہادت تو ہوسکتی ہے آخری نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ انہیں راہ حق میں ثابت قدمی عطافرمائے۔
Allah in shahadaton ko qbool farmaiy aur islami inqlab kee taufeeq ata karay.
اے اللہ شہدوں کا درد اور یاد رکھنے والوں کی حفاظت فر ما آمین
yeh shadat gae ulfat main qadam rakhna he log asan samjhte hin muslaman hona
اور بھی نکلے گے عشاق کے قافلے ….
شہادت اسلامی جمعیت طلبہ اور اسلامی چھاترو شبر کے لیے نا نئی ہے اور نا ہی آفت انگیز….
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی.
اسلام علیکم
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
وقار بھائ آپ نے ان بھائیوں کی شہادت پر اچھا پر امید اور پر یقین اظہار کیا اپنے خیالات کا- اللہ انکی شہادت کو قبول کرے آمین- اللہ نفیس روحوں کے نزرانے یونہی شہادت کے طور پر لیتا رپتا ہے- یہ بھائ یونیورسٹی گریجوایشن سے پہلے ہی سب سے بڑی ٹرافی جیت گئے انشاءاللہ-
اور ظالم کو تو کبھی فلاح نہیں ہے- وہ اپنے تابوت میں خود ہی کیلیں ٹھونک رہے ہیں مگر نہیں جانتے-حق کے پرستار لوگ برے لوگوں کی نظروں میں یونہی کھٹکتے رہے ہیں ہمیشہ-
وہ اپنا کام کرتے رہیں گے اور ہم اپنا انشاءاللہ-
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اسلام کی فطرت ميں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی يہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا ديں گے