فوج کشی کے ذریعے اقوام کو غلام بنانے کا سلسلہ اہل یورپ نے شروع کیا. یہ کام تین صدیوں تک جاری رہا پھرمہذب یورپ نے طریقہ واردات تبدیل کردیا اور قوموں کوغلام بنانے کے لیے افواج کا استعمال ترک کردیاگیا اور سٹیلائٹ کمیونیکیشن کو استعمال کیا‘ پہلے فوجیں یلغارکرتی تھیں اور جسموں کو فتح کرتی تھیں اب ذرائع ابلاغ یلغارکرتے ہیں اور ذہنوں کو فتح کرتے ہیں!!
کمیونزم کے زوال سے قبل مغربی دنیا نے اپنی تمام قوتیں کمیونزم کو ناکام کرنے میں صرف کیں‘ کمیونزم کے زوال کے بعد ”مہذب دنیا“ نے طے کیاکہ اب اصل خطرہ بنیادپرستی اور فنڈامنٹلزم ہے۔ آج مسلم دنیا میں نوجوان پولیس پرپتھربھی پھینکنیں یا جلاﺅگھیراﺅ کا کوئی علاقائی معمولی سا واقعہ بھی ہو عالمی نشریاتی ادارے اس کی یوں تشہیرکرتے ہیں کہ کچھ ان پڑھ جنونی اور عقل وخرد سے محروم لوگ جن کے ہاتھوں میں (معاذ اللہ) لاالٰہ کے جھنڈے چہروں پرداڑھیاں ہیں اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں. یہ دہشت گرد دنیا کی ہرچیزکو آگ لگادیں گے، اگر اس خطرے کو نہ روکا گیا تو دنیا گویا آگ کا ڈھیر بن جائے گی! اور اس وقت‘ اس کاروبارکی حمایت عالمی دہشت گرد امریکاکررہاہے۔
جب گجرانوالہ کے 12 سالہ سلامت مسیح کو گستاخی رسول آرڈیننس کے تحت گرفتارکیاگیا تو عالمی میڈیا نے پاکستان کی دھجیاں بکھیردیں مگر افغانیوں کے قتل عام‘ عراق میں 5 لاکھ انسانی جانوں کے ضیاع پر کوئی آنکھ نم نہ ہوئی بلکہ مسلم دنیا میں خون مسلم کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے یورپ کا بچہ بچہ یہ سمجھتاہے کہ یہ سب دنیا کو ”محفوظ“ تربنانے کی کوششیں ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر ہمارے ذرائع ابلاغ مدافعت پر اتر آتے ہیں اور خودکو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 11 ستمبرٹوئن ٹاورزپرحملے کے وقت اپنے ذرائع ابلاغ کی مدافعانہ پالیسی ابھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ مغرب کی دوغلی اورمنافقانہ پالیسی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں. لیبیا کے دوباشندے امریکی طیارہ تباہ کردیتے ہیں تو اقوام عالم کو مجبورکیا جاتا ہے لیبیا کا بائیکاٹ کرنے پر اوراس کے کروڑوں ڈالرکے اثاثے ضبط کرلیے جاتے ہیں اس کے برعکس مقبوضہ کشمیرمیں ایک لاکھ سے زائد افراد آزادی کی جنگ میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے‘ فیکٹریاں‘ کاروبار اور املاک بھارتی فوجیوں نے ملیامیٹ کررکھاہے. آئے دن کے کرفیو نے کشمیریوں کی زندگی عذاب بنارکھی ہے۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ آزادی کی اس جنگ کو مٹھی بھرشرپسندوں کی کارروائی (جو سرحد پارسے آئے ہیں) کہہ کر جھوٹ کا پردہ ڈال دیتے ہیں اورہمارے ذرائع ابلاغ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا منظرپیش کرتے نظرآتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ فرانس ہو یا برطانیہ دسویں جماعت کی اسکول کی مسلمان لڑکیوں کو اسکارف سے سرڈھانپنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے اجازت لینا پڑتی ہے جبکہ سٹیلائٹ نشریات کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں؟ اورسٹیلائٹ ٹیلی ویژن سے 24 گھنٹے چلنے والی نشریات نے عوام اورخواص کے ذہنوں کو اپنی مٹھی میں بند کررکھاہے جس میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی تاریخ‘ اسلامی اقدار واخلاق کے خلاف ہرچیزموجود ہے جینزکلچرہو یا پیپسی کلچر‘ کونسی چیز ہماری اقدار سے میل کھاتی ہے؟؟ ہمیں غیرارادی طورپر ہرلمحے ایک مخلوط معاشرے اور بے خدا تہذیب کی طرف دھکیلاجارہا ہے جس میں کہیں خدا‘ رسول‘ خوف آخرت اور مومنانہ اخلاق و حسن کردار کا ذکرتک نہیں ہوتا۔ پاکستان کے چینلز پاکستان کا نظریاتی تشخص اس بری طرح مجروح کرتے ہیں کہ آج نئی نسل کا ایک حضہ پاکستان کو اپنا ملک ہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس بحث کو نئے نئے عنوان دے کر آج تک پیش کیا جارہا ہے کہ ”پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا یا مسلمانوں کے لیے؟“
اسی طرح 62 برس بعد بھی آئین کے جمہوری یا اسلامی ہونے کی بحث کی جاتی ہے۔ یورپ کا یا انڈیا کا میڈیا ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتا جتنا خود ہمارے میڈیا نے ہرحوالے سے ہمارے نظریاتی تشخص کو بری طرح پامال کیاہے۔ 1990ءمیں جب حکومت نے پرائیویٹ سیکٹرکو اجازت دی کہ وہ اپنے ویڈیو‘ اسٹیشن قائم کریں جس کے نتیجے میں برساتی مینڈکوں کی مانند ایک سیلاب امڈآیا۔ تب ان کی قانون سازی کے لیے 2002ءمیں پیمرا کا ادارہ قائم کیا گیا۔ پیمرا نے لائسنس دینے کی شرط یہ رکھی کہ اخلاق کے منافی پروگرام نشرنہیں ہوں گے“۔ پیمرا کے خیال میں جوکچھ ان نجی چینلزپرآرہا ہے وہ سب ”اخلاق“ کے عین مطابق ہے۔ جس میراثی کلچرکو فروغ دیا جارہاہے اور اب تو رقص کو عین آرٹ بنا کر اس کی ترویجی مہم چلائی جارہی ہے لباس اور زبان کی توبات چھوڑیں اب توڈرامے ان موضوعات پر بن رہے ہیں جو انڈیا کے ڈراموں کا چربہ ہیں جن موضوعات کی ہماری اقداروثقافت میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مثلاًمولوی کے کردارکو انتہائی پستی کے ساتھ پیش کرنا یا پسماندہ آبادیوں کے نام پرڈرامے بناکر وہاں کی آبادیوں کا انتہائی گھناﺅنا کردار پیش کرنا مثلاً ”رنچھوڑلائن کا عشق“ یا ”محمودآباد کی ملکائیں“ اسی طرح قابل احترام رشتوں میں دراڑیں ڈالنا مثلا ”کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی“ ہزارمشکلات ومصائب کے باوجود کوئی مسلمان لڑکی یہ سوچ بھی نہیں سکتی جو سوچ میڈیا کے ذریعے عام کی جارہی ہے اور نتیجتاً اب چوک‘ چوراہوں کے سائن بورڈ‘ گاڑیوں کے پیچھے اوررکشہ کے پیچھے یہ انتہائی شرمناک جملہ ”کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی“ پڑھنے کو ملتاہے تو ذہن ماﺅف ہوجاتا ہے کہ مسلمان معاشرے میں ایک غریب اورپسماندہ لڑکی بھی یہ سوچ نہیں رکھتی۔ پیمرا کے کانوں پرجوں رینگتی ہے نہ پیشانی پربل آتاہے۔ جب عین خبرنامے کے درمیان تفریح کے نام پر انڈیا کی فلموں کے انتہائی عریاں مناظردکھائے جاتے ہیں۔ کھلم کھلا انڈیا کی نشریات پیش کرنا پیمرا کے خیال میں ”حسن اخلاق ہے!“
خرد کانام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔
ایک کھلاڑی شعیب اخترکے خلاف مہم چلائی جاتی ہے توکھلاڑی پرکھیل کے حوالے سے بات ہو‘ کئی دن لگاتار اس کھلاڑی کی انتہائی غیراخلاقی تصاویرمختلف غیرملکی لڑکیوں کے ساتھ تمام ٹی وی چینلز کی زینت بنتی رہیں۔ کیسا اصول‘ کیسا ضابطہ؟ وینا ملک کی گند نے ہر ذہن کو پراگندہ کیا انتہائی شرمناک پوزکئی ہفتے میڈیا کے خبرناموں اور ٹاک شوزکی زینت بنتے رہے۔ عدالت عالیہ کو چاہیے کہ پیمرا کے اخلاقی ضابطے کا ازخودنوٹس لے۔ کیونکہ حیا محض ایک اچھی صفت نہیں بلکہ اسلامی معاشرے کا شعارہے اورحیا کے بغیر ویسے ہی مادرپدر آزاد معاشرے تشکیل پاتے ہیں جیسے یورپ کے بے خدا معاشرے۔ جس کی اندھی تقلید ہم آزادی کی دوڑسمجھ کر کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ غیرملکی چینلوں کے پروگراموں کے نام اوران کے اندازتک چوری کیے جارہے ہیں۔ یہ ذہنی اخلاقی دیوالیے پن کی انتہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بات رقم کی جائے گی کہ ہمارے امریکی غلام حکمرانوں کو حدوداللہ پرتنازعہ برپا کرنے اوران میں ترمیم کرنے کا ناپاک خیال آیا تو انہوں نے ٹی وی کو موثر ہتھیارکے طورپر استعمال کیا اور صرف ایک ماہ میں احکامات کی نئی تفہیم ایجاد کرلی گئی۔ ہم صرف عریانی اورفحاشی کا شورمچاتے ہیں۔ اب اصل مسئلہ اس سے بڑا اورگھمبیرہے۔ اس وقت ذرائع ابلاغ معاشرے کی تشکیل نوکے لیے استعمال ہورہے ہیں اب اصل مسئلہ Transformation کا مسئلہ ہے۔ چاہے وہ حدوداللہ کا معاملہ ہو یا ہماری سماجی اقداروروایات کا اب تعریفیں دوبارہ متعین کی جارہی ہیں۔ عریانی وفحاشی کو معمولات زندگی بناکر پیش کیاجارہاہے۔ کھانے پینے کے پروگراموں کو جس کثرت سے پیش کیا جارہا ہے اور نت نئے چینلز اس مقصد کو مقصد زندگی بنا کر پیش کررہے ہیں اور ایک نیا تصورزندگی ”زیست برائے خوردن“ کا پیش کیاجارہا ہے جوکسی بھی طرح عریانی اورفحاشی سے کم خطرناک نہیں۔ کچی آبادیوں‘ گاﺅں دیہاتوں میں جہاں ہرجگہ کیبل پہنچ چکا ہے ان پروگراموں کے ذریعے ان کوکس احساس کمتری میں دھکیلا جارہا ہے۔ کہایہ جاتا ہے کہ ذرائع ابلاغ آزادہیں۔ یہ رائے کی آزادی کا وقت ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رائے کی آڑ میں ہرطرح کی آزادی کا بند ٹوٹ گیاہے۔ حال ہی میں سیلاب زدہ علاقے ٹی وی پردیکھیے آپ نے چہارطرف پانی ہی پانی پھربھی ہرزبان پر ”العطش العطش“ یعنی پیاس‘ پیاس کی صدا تھی کہ پینے کو پانی دستیاب نہ تھا۔ سو یہاں بھی تفریح کے سیلاب میں لوگ حقیقی تفریح کو ترس رہے ہیں۔
رہے ٹاک شوز! تو وہ ملک کی قسمت کا فیصلہ رقم کررہے ہیں۔ سب چہرے شناسا کہ کس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔ صبح اخبارمیں ان کے کالم چھپتے ہیں۔ اور شام سے رات تک وہی ٹی وی پر یا میزبان ہوتے ہیں یا مہمان اور اپنی سیاسی پارٹی کے لیے فضا ہموارکررہے ہوتے ہیں۔ یہ So called دانشور اورتجزیہ نگارجو بہتے دریاﺅں کے رخ بدلنے پر قادرہیں۔ ریاست کا یہ چوتھا ستون (میڈیا) ہی حقیقی ستون ثابت ہورہا ہے۔ جو اپنے پیچھے عوام کے ریوڑکو ہانک رہاہے۔ پنجاب اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں میوزیکل کنسرٹ کے خلاف ایک عقلی قرارداد منظورکی میڈیا کے ان میزبانوں اورتجزیہ نگاروں نے اس قراردادکے خلاف وہ فضا بنادی کہ پنجاب اسمبلی کو اگلے 24 گھنٹے میں گھٹنے ٹیکنا پڑگئے۔ سوات کی لڑکی کوکوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو کے ذریعے خیبرپختونخوا میں فوجی آپریشن کاجواز پیداکیاگیا۔ اس وقت نیو ورلڈ آرڈرکی تشکیل کے لیے استعمارکے ایجنڈوں کے ہاتھوں معاشرے کی تشکیل نوکے لیے جس طرح ذہنی الجھاﺅاوربگاڑکا سامان کیاجارہاہے وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اور ہم میں سے ہرایک کو مقدور بھر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسے میں عوامی شعورکی بیداری اس وقت کا سب سے اہم کام ہے جس کو مہماتی انداز میں کرنا ہوگا۔
فیس بک تبصرے