کراچی… نیم جاں

شہر کی معروف شاہراہ سے گذرتے ہوئے چوراہوں پر تبدیلی کا عمل نگاہوں نے جذب کیا تو ارد گردکے مناظر دھندلاگئے، پلک جھپکتے میں دماغ سے غم وغصہ کا ردعمل اعضاء پر چھا گیا۔ضبط کے باوجود بے بسی، بے نام اداسی نے آلیا۔ پارک کا انہدام، رہائشی اور تجارتی عمارتوں کی تعمیر۔۔۔ تبدیلی کا یہ منظر اہل کراچی کے لئے نیا نہیں۔ اور اسی حالت ملال میں ایک سنسنی خیزکالم کا ذکر سنا جس میں شہر کی ترقی کا بیان تھا۔ مگر پڑھنے کے بعد مکھی اڑانی پڑی۔ میگا سٹی کراچی اور دو سطریں!!! اہل کراچی کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر لکھا گیا لاعلمی کی انتہائوں کو چھوتا ہوا کالم۔ یقینا بالائی گذرگاہوں کا طائرانہ جائزہ ہیلی کاپٹر سے لیا گیا ہوگا۔ فاضل کالم نویس کے علم پر بحث آئندہ!

مثل مشہو رہے’’قبر کا حال تو مردہ جانتا ہے‘‘ تواہل کراچی کی گواھی سب پر بھاری سوسنئے اور سر دھنئے۔ کشادہ شاہراہوں، بالائی گذرگاہوں پر تو پجیرو اور پراڈوجچتی ہیں۔ مگر واہ رے کراچی تیری قسمت! ھنڈا سیونٹی کے انجن پر چھ سواروں کو بٹھائے چنگ چی رکشہ یہاں کھینچے جارہے ہیں۔ جاپان اور نہ جانے کہاں کہاں سے بڑی بسوں کے بیڑے سڑکوں کو رو نق بخشنے کراچی پہنچے، مگر شہریوں کے نصیب نہ بدلے۔ کس کی مجال کہ حساب لے اور کس سے لے؟

کسی بھی شہر کی ترقی، خوشحالی جانچنے کے مختلف اشاریہ امن، کاروبار، تعلیم، صحت اور سماجی تعاملات ہوتے ہیں۔ بلندی، آسودگی،عروج انسانی زندگی سے منسلک اصطلاح کا نام ہے جو آنکھوں میں چمکتی ہے، چہرہ پہ جھلکتی ہے۔
امن! یہاں دو فسادات کے درمیان کا وقفہ ہے۔ بند گلیاں، حفاظتی رکاوٹیں، ویران سڑکیں، گارڈ چوکیاں، خواتین کی سونی کلائیاں، شہریوں کی آنکھوں میں ناچتا خوف وہراس، معطل شہر کبھی سوگ کبھی جشن میں کہ ’’مرگ انبوہ جشن دارد‘‘ اور مرگ کا جشن یہاں اکثر ہوتاہے۔ ۱۲مئی2007؁ کا دن۔۔۔۔۔۔ کراچی کے شہریوں کے لئے دہشت اور سفاکی لئے طلوع ہوا، شہر کو کنٹینرز ٹینکروں کے ذریعے بند ہوتے، انسان دوستی، انصاف کی دھجیاں اڑتے پوری دنیا نے براہ راست دیکھا۔ کتنا کرب، غم وغصہ اور انتقام شہریوں نے جذب کیا؟ تشدد نے دیکھنے والوں کی ذہنی صحت کوکتنا متاثر کیا؟ کون جانے منفی جذبات کا آتش فشاں کب لاوا اگلنے لگے اور کس کے خلاف!

کسی بھی قابل ذکر تہذیب کی اساس علم پر ہوتی ہے، علم کا معیار! کراچی کے’’اپنوں‘‘ کا مسئلہ نہیں۔ کراچی کا فخر، مادر علمی جامعہ کراچی انحطاط کے کتنے مرحلے عبور کر چکی، اس کا اندازہ وزیرداخلہ کو سند امتیاز عطا کر نے کے منظر سے واضح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن ہمیں اپنی سند بڑی بے وقعت محسوس ہوئی۔ جامعہ کراچی کے سابق و حاضر طلبہ وطالبات خون کے آنسو روئے۔ نااھل، بے علموں کو سند کی بخشش تہذیب وتمدن کے بے نشاں ہونے کا یقین دلاتی ہے۔ یہ کارنامہ تعلیم یافتہ دہشت گردوں کے علاوہ کوئی انجام نہیں دے سکتا۔

خواتین لائبریری کا زیرتعمیر منصوبہ! التواء اور پھر تنسیخ کا شکار۔۔۔۔۔ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ علم کی فراوانی اور خواتین کی رسائی اس شہر کی پہچان نہیں ہوسکتی، بس وہ جم اور پارلر تک محدود رہیں تو مناسب ہے۔ اس علم دشمنی، کتاب دشمنی، خواتین دشمنی پر کوئی کیا کہے جب قوم نے خود کشی کا ارادہ باندھ لیا!

قبضہ مافیا کی ترقی بلا شبہ کراچی کی ترقی ہے! تقریباً تمام گندے نالوں پر تعمیر’’رائل نالہ ریزیڈنسی‘‘ کا خواب انہی کے ہاتھوںسچ ہوسکتا تھا، اچھوتے خیال، ذہن رسا کی داد دیجئے ’’نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا‘‘ کے مصداق کروڑوں بنالئے۔ معمولی چھان بین پر ہوشربا تفصیلات سامنے آسکتی ہیں۔ رہی شہر کی گندگی، کہیں بھی جائے یا پورا شہر ہی کوڑے دان میں تبدیل ہوجائے، اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کو قربان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں نام ضرور آسکتا ہے۔ کاروبارِ زیست کی مانند تجارت روبہ زوال ہے۔ ترقیِ معکوس کا گراف بلند یاں طے کر رہاہے۔

یہ وہ قرض ہیں جو مٹی کی محبت میں آشفتہ سروں نے اتارے ہیں۔ ہزار داستان المیہ کراچی ہنوز جاری ہے۔ الغرض سانسوں کے آنے جانے کا نام زندگی ہے تو پھر کراچی زندہ ہے، اور اگر ظلم کے خلاف جدوجہد، اندھیرے کی مزاحمت، حق کی تگ و دوہے تو کراچی نیم جاں ہے اور نقصان ناقابل تلافی ہے۔ تو ایسے میں مافیاکے سیاہ کرتوتوں سے پردہ اٹھانا، کراچی کے شہریوں کا ساتھ دینا سب کا فرض ہے۔

فیس بک تبصرے

کراچی… نیم جاں“ ایک تبصرہ

  1. Shehr aaj bhee band hai! Kia yahan k haalat isi tarah rahai gay? jab tak MQM ki manhoosiat ka saya yahan rahay ga yeh isi tarah neem jan rahay ga

Leave a Reply