ملکوں میں مسائل کا حل فوجی نہیں سیاسی ہوتا ہے. برطانیہ میں آئرلینڈ والے سو سال تک بندوق سے حل ڈھونڈتے رہے لیکن بلاآخر مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی ہوا اور انہوں نے ہتھیار رکھ دیے مذاکرات کیے اور اپنی بات منوالی. بلوچستان کا مسئلہ بھی جو کہ بہت ہی پیچیدہ ہے سیاسی ڈائیلا گ سے ہی حل ہوگا. آخر اس سے قبل بھی جرنل ضیاءالحق کے دور میں بلوچ مطمئن ہوگئے تھے. پہاڑوں سے اتر آئے تھے، باہر سے بھی واپس آگئے تھے اور ہتھیار بھی رکھ دیے تھے اب پھر بلوچستان میں لگ بھگ 24 سے زیادہ مزاحمتی تنظیمیں کام کررہی ہیں. سب اپنے اپنے طور پر بغیر سیاسی لیڈر شپ کے کام کررہی ہیں سوائے تین چار بڑے مزاحمتی گروپ کے. کسی کے پاس بھی سیاسی لیڈرشپ نہیں ہیں کہ جو مذاکرات کریں جو یہ سیاسی گروپ ہیں وہ بھی ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور ناراضگی کی وجہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں ان کی بات ہر حالت میں سننی پڑے گی چائے کسی بھی قیمت پر ہو۔
ذلفقار علی بھٹو صاحب مرحوم نے اپنے دور حکومت میں پختونخواہ اور بلوچستان صوبوں میں میں جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود،نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان اور بلوچ لیڈر کی پارٹیوں کی منتخب حکومتوں کو ایک گہری سازش سے ختم کیا تو بلوچستان کے ناراض لوگوں نے مزاہمت شروع کی اور اسلحہ اٹھا لیا. بھٹو صاحب نے فوجی آپریشن شروع کیا جس سے حالات مزید خراب ہوئے. اسی دوران ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی پر عدالت نے پابندی لگا کر کالعدم کردی. بھٹو صاحب نے یہ زیادتی کی تھی مگر انہوں نے دوسرے نام سے پارٹی بنا کر اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی. بھٹو صاحب کے اقدام غلط تھے جس کی سزا ملک کو برداشت کرنی پڑی اس کے بعد جرنل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا انہوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا. علیحدگی کی تحریک ختم ہوگئی اور لوگ پہاڑوں سے اترآئے اور حکومت میں شمولیت اختیار کی اورحالات بلکل ٹھیک ہو گئے. 1980 سے 1990 تک حالات ٹھیک ہوگئے تھے نواز شریف کی حکومت کے دوران سردار اخترمینگل وزیراعلی تھے اور بلوچستان میں امن و اما ن تھا. یہ سب کومعلوم ہے کہ جب آپ حقوق غصب کریں گے تو مزاہمت ہو گی، لوگ اسلحہ اٹھا لیں گے اور ایسا ہی ہوتا رہا 20 سال تک اسلحہ نہیں اٹھایا گیا گو کہ حقوق مانگتے رہے مشرف کے دور حکومت میں دوبارہ 2002 کے بعد حالت خراب ہونا شروع ہوئے. مشرف نے بلوچوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھا کبھی کہا چند بلوچ سردار ہیں جو بلوچستان کے حالات خراب کررہے ہیں، سرداروں نے اپنی عوام کے ساتھ ظلم روا رکھا ہوا ہے، اپنے ہی لوگوں کو صوبہ بدر کیا ہوا ہے کچھ بگٹی قبیلے کے لوگوں کو ملتان سے واپس بلا کر ڈیرہ بگٹی میں آباد بھی کرایا گیا ان کو سہولتیں بھی دیں اس کے ساتھ ساتھ ناراض بلوچوں کو تیش بھی دلایا گیا اور کہا یہ موجودہ دور ہے پرانا دور ختم ہو گیا ہے آپ کو ایسی چیز ہٹ کرے گی اور آپ کو معلوم بھی نہ ہو سکے گا اور بلا آخر ایسی ہی کسی چیز نے ہٹ کیا اور پاکستان سے محبت کرنے والے بلوچ سردار نواب اکبر خان بگٹی کو کو مروا دیا گیا جس سے بلوچ مزید غصے میں آ گئے اور اب حالت یہ ہے کہ بلوچ کسی سے بھی مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں ان کا کہنا ہے ہم بہت مذاکرات کر چکے اب ہم علیحدگی کے علاوہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرینڈ جرگہ طلب کر کے ناراض بلوچوں سے بات چیت کی جائے مگربلوچ سردار اس کے لیے بھی تیار نہیں وہ غیرملکوں میں ایک دوسرے سے مل کر جدوجہد کے منصوبے بنا رہے ہیں اور وہ بلکل کوئی بات باننے کے لیے تیار نہیں وہ اپنے سردار کے قاتل کے سر کی قیمت لگائے ہوئے ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں. اگر ہم اپنے گھر میں خود حالات درست نہیں کریں گے تو باہر والے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس وجہ سے امریکہ میں آج کل کانگریس میں بحث شروع ہوئی اور انہوں نے بلوچستان کی آزادی کے لیے انڈونیشا کے صوبے مشرقی تیمور اور سوڈان کے دارفر کے صوبے کی طرح ملکوں سے علیحدگی کی باتیں کی شروع کردیں ہیں جو یقیناً ہمیں اچھی نہیں لگ رہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہے ذرائع کا کہنا ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بلوچستان میں امریکہ انٹرسٹ لے رہا ہے یہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کا طریقہ ہے ادھر غدار قوم ڈاکٹر شکیل آفریدی کے لیے امریکہ کے سول ایوارڈ کی کراداد پاکستان کے دشمن سینیٹرروہرا پیکر نے کانگریس میں پیش کردی ہے۔
اخبارات میں رپورٹس آئی ہیں کہ قندھار،جلال آباد اور کہلو سے کمانڈروں کی فون کالز ریکارڈ کی گئیں ہیں کہ 18 علاقوں میں خفیہ جہگوں کا پتہ چلا ہے. بلوچ علیحدگی پسندوں کی ایک درجن ویب سائٹس کام کررہی ہیں. حربیار مری نے کہا ہے کہ امریکی قراداد شہدا کی قربانیوں کا ثمرا ہے۔ بی آر پی نے بیان جاری کیا قراداد نے دشمن ملک کی بنیادیں ہلا دیں ہیں۔ خلیل بلوچ نے کہا کہ قراداد خود مختار بلوچستان کے لیے خوش آئند ہے۔ اختر بلوچ سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ کشمیر کے لیے خودمختیاری ٹھیک مگر بلوچستان کے لیے ہو تو تکلیف ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور ساری سیاسی اورمذہبی جماعتوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت قرار دیا ہے وزیر اعظم نے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے جانے وہ کب بلاتے ہیں اور عمل کیا ہوتا ہے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے ہیں کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی غلامی سے امریکہ کی غلامی بھی ہمیں منظور ہے تاریخی حقیقت یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے کی پرنسی اسٹیٹ قلات نے آزاد ریاست کا اعلان کر دیا تھا دوسرے بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی مگر جس طرح بھارت نے جوناگڑھ، مونا بائواور کشمیر کو فوجی مداخلت کر کے قبضہ کرلیا اور بھارت میں شامل کرلیا اس طرح پاکستان نے بھی قلات کو فوجی مداخلت کرکے پاکستان میں شامل کرلیا اس کے بعد ون یونٹ بنادیا گیا. ایک مغربی پاکستان اور ایک مشرقی پاکستان اس سے اور زیادہ حالا ت خراب ہوئے اور اب تک ہوتے ہی جارہے ہیں جب عوام کے حقیقی نمائندوں سے حکومت چھین لی جائے گی جیسے ذلفقار علی بٹھو مرحوم نے کیا تھا، جب صوبوں میں نکلنے والی معدنیات کا جائز حصہ اس صوبے کو نہ دیا جائے گا جیسے سیندک کے منصوبے میں معاہدے کے مطابق آدھا آدھا پاکستان اور چین لے جائے اور جس صوبے کی معدنیات ہیں اسے صرف 2 فی صد حصہ ملے، جب سوئی گیس دریافت ہو تو پورے پاکستان اس سے مستفید ہو اور اس صوبے کے شہروں کو گیس کئی برس بعدملے، جیسے سوئی گیس بہت بعد بلوچستان کے شہروں کو ملی، جب بار بار صرف باہمی اختلاف کی وجہ سے مذاکرات کے بجائے فوجی آپریشن ہوں جیسے بلوچستان میںموجودہ چوتھا آپریش جاری ہے وغیر وغیرہ تو لوگ پھر باہر کی طرف رجوع کریں گے جو یقیناً پاکستان کی عوام کے لیے تشویش کا مسئلہ ہے. غلطی کریں حکمران اور بھگتے ہیں عوام، مثلاً بلوچوں کو غائب کرنااور ویرانوں میں مسخ لاشوں کو پھیکنا، لیکن تربت میں سات پٹھان مزروں کا کیا قصور ہے جو انہیں مار دیا گیا، بلوچستان کے اندر پنجابی اور سندھی آباد کاروں یا روزی کمانے کے لیے محنت مزروری کرنے والے عام لوگوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں قتل کیا جا رہا ہے انہوں نے کونسے اور کس کے حقوق غضب کئے ہیں ۔
مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کر کے قتدار چھینا اور ملک کی دونوں پارٹیوں کو ملک سے باہررہنے پر مجبور کیا اور کہا کہ یہ دونوں ملک میں واپس نہیں آسکتے بھلا یہ کوئی سی عقل کی بات ہے سیاستدانوں کو لوگ منتخب کرتے ہیں تا کہ وہ ملک پر حکمرانی کریں انہیں تو آپ نے باہر رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور آپ جو قوم کے محافط ہے اور قوم کے چوکیدار ہیں قوم سے اس کام کی تنخواہ لیتے ہیں کہ کوئی غیر قوم آپ کی عوام پر شب خون نہ مارے مگر آپ خود ہی اپنا کام چھوڑ کر سیاست میں بار بار آ جاتے ہیں کبھی سیاست دانوں پرپابندیں لگاتے ہیں، کبھی سیاست دانوں کو ملک سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں. غیرجماعتی انتخابات کروا کے لوگوں کو برادریوں میں تقسیم کرتے ہیں، ملک میں نئے نئے تجربے کرتے ہیں کبھی بنیادی جمہوریت کا نظام لاتے ہیں کبھی سٹی گورنمنٹ کا نظام لاتے اور قوم کو بیوقوف بناتے ہیں اور پھر ہر دس سال بعد ذلیل وخوار ہو کر اقدار انہی سیاست دانوں کے حوالے کرتے ہیں یہ سب کچھ کیا ہے بقول شاعر’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ‘‘۔
قارئین بلوچستان کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ بلوچوں سے پاکستانی قوم معافی مانگے جن بلوچوں سے وطن کی محبت کی وجہ سے کچھ غلطیاں ہوئیں ہیں ان سب بلوچوں کے لیے معافی کا عام اعلان کیا جائے ناراض کو واپس لانے کی کوشش کی جائے اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کہا جائے جلد از جلد بلوچستان اور پورے پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے مشورے سے آزاد اور خود مختیار الیکشن کمیشن قائم کیا جائے نادرہ کی تیار کردہ ووٹر لسٹ کے مطابق شفاف الیکشن کروا کے اقتدار صو بوں اور مرکز میں حقیقی نمائندوں کو دے دیا جائے فوج کی جیسے اس وقت پالیسی ہے جو قابلِ تعریف ہے اس پر قائم رہے اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رہے سیاست دانوں کو سیاست کرنے دے اپنے ملک میں جو اپنے لوگوں سے جنگ شروع کی ہوئی ہے اسے فوراًبند کیا جائے اور ان لوگوں سے مذاکرات کیے جائیں بلوچستان کی معدنی آمدنی کو انصاف کرتے ہوئے بلوچوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے دیا جائے اور جائز حق کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کیا جائے، بلوچوں کے قاتلوں کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان واپس لایا جائے انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کیا جائے، غائب کرنے کا عمل جو مشرف دور سے شروع ہے اسے فوراًبند کیا جائے، مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ فوراًبندکیا جائے، ان کے خاندانوں کی مالی امداد کی جائے گم شدہ لوگوں کو فوراً بازیاب کیا جائے، خفیہ ایجنسیوں کو قانوں کا پابند بنایا جائے، طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، غیر ملکی مداخلت جو حد سے بڑھ گئی ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے بیرونی قرضوں سے اجتناب کیا جائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی جائے افغانستان اور ایران سے اتحاد اتفاق کی فضا قائم کی جائے پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کی ٹانگ کھیچنا بند کریں پاکستانی مقتدر حلقوں سے درخواست ہے اس سے پہلے کہ بڑی طاقتیں ہمارے ملک میں تبدیلی کا عمل شروع کریں جیسا کہ انہوں نے انڈونیشیاء اور سوڈان میں کیا بلوچستان کی حقیقی سرحدوں کا فوراً تعین کیا جائے بلوچستان کے پشتونوں اور بلوچوں کے علاقوں کی حد بندی کی جائے انگریزوں نے اپنے مفاد کے لیے جو علاقے ادھر ادھر کئے تھے وہ واپس صوبوں کو دیے جائیں تاکہ بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو اور مسلمانوں کی واحد ایٹمی مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا وقار دنیا میں بلند ہو۔
امتیاز احمد صاحب: یہی بات مشرف بھی کہتا تھا اور پھر ایک بلوچ سردار کو مار دیا، کیا ماردینے سے بلوچوں کو حقوق مل گئے؟ صحیح طریقے سے بلوچ عوام کی مدد کی جائے تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔