خبر ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کو 1971میں جنگی جرائم کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 89سالہ پروفیسر غلام اعظم کی درخواست ضمانت ’’ انٹر نیشنل کرائمز ٹر بیونل‘‘ نے مسترد کردی۔ پروفیسر غلام اعظم پر الزام ہے کہ 1971میں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران انہوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور مبینہ طور پر بنگالی عوام کے قتل عام میں ملوث رہے، جبکہ پروفیسر غلام اعظم نے ان الزامات کی یکسر تردید کردی ہے اور اسے سیاسی ڈرامہ بازی قرار دیا ہے۔
89 سالہ پروفیسر غلام اعظم جنہیں ویل چیئر پر گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں اور اسی بنا پر اکثر عوامی لیگ کی حکومت کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی پاداش میں پروفیسر صاحب کو 1971سے 1978تک کا عرصہ جلاوطنی میں گزارنا پڑا لیکن بعد میں ان کو بنگلہ دیش کی شہریت دے دی گئی۔ اب اس پیرانہ سالی میں ان پر دوبارہ مقدمات قائم کرنا نہ صرف سراسر زیادتی ہے بلکہ گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہے.
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے موجودہ امیر مطیع الرحمن نظامی سمیت کئی دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی اس وقت جنگی جرائم کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور جیل میں ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کے علاوہ سیکرٹری جنرل علی احسان، نائب امیر دلاور حسین سیدی ، رہنما جماعت اسلامی قمر الزمان، عبدالعلیم اور قادر ملاح بھی ان الزامات کی وجہ سے اس وقت گرفتار ہیں۔ جماعت اسلامی کے افراد کے علاوہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن صلاح الدین چودھری بھی گرفتار ہیں لیکن ٹربیونل کی کاروائی کا اصل ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماء اور کارکنان ہی ہیں۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق گزشتہ تین روز کے دوران ملک کے مختلف اضلاع سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سٹوڈنٹ ونگ اسلامی چھاترو شبر کے 18ذمہ داران و کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ شبر کے گرفتار شدگان پر پروفیسر غلام اعظم کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کا الزام ہے.
حکومت بنگلہ دیش کی جانب سے 1971کے جنگی جرائم کا مقدمی اس وقت کھولنے پر عالمی میڈیا بھی حیران ہے۔ نیو یارک ٹائمز اپنی رپورٹ میں اس مقدمہ کو بنگلہ دیش میں انصاف کا تماشہ قرار دے چکا ہے.
ہیرالڈ ٹرئیبون میں ٹام فلیکس لکھتے ہیں کہ:
انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو تو پھانسی لگانے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتا ہے لیکن 1971میں علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے ہزاروں بہاریوں کو قتل کرنے والی ملیشیاء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی.
ٹام فلیکس کے اس غیر جانبدارانہ تبصرے نے بنگلہ دیشی حکومت کے یکطرفہ اقدامات کی قلعی کھول دی ہے جس کا ہدف صرف اور صرف جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہی ہے حالانکہ انصاف کا تقاضہ تھا کہ بھارتی ایماء پر بننے والی ’’مکتی باہنی‘‘ کو منظم کرنے اور اس کے ذریعے ہزاروں شہریوں کا قتل عام کروانے والوں کو بھی منظر عام پر لایا جاتا.
کچھ غیر جانبدار حلقے عوامی لیگ حکومت کی اس ساری کاروائی کا محور اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کو قرار دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اگلے انتخابات 2013میں منعقد ہوں گے۔ جنگی جرائم کے مقدمے کے ذریعے جہاں عوامی لیگ ایک طرف بنگالی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کرے گی کہ اس نے ’’آزادی کے دشمنوں‘‘ سے قوم کا انتقام لے لیا وہاں ہی جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو راستے سے ہٹاکر انتخابات میں بھاری کامیابی کو بھی یقینی بنانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی.
اس سارے معاملے میں حکومت پاکستان کی جانب سے مکمل خاموشی برتی جا رہی ہے جو کہ معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے کردار اور نظریات سے لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جماعت نے مشرقی پاکستان میں سالمیت پاکستان کی جنگ لڑی اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ اپنے جوانوں کا خون پیش کر کے پاکستان کی تقسیم کی سازش کو ناکام بنانے کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا ۔ اسی جرم کی سزا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے قائدین اور رہنماء آج تک بھگت رہے ہیں.
بنگلہ دیش کو قائم ہوئے 40سال بیتنے کے باوجود آج بھی بنگلہ دیش میں جماعت سے وابستہ افراد کو غداری کے طعنے سننے پڑتے ہیں اور ان پر پاکستانی ہونے کے آوازے کسے جاتے ہیں۔ آج حکومت پاکستان بنگلہ دیش کے قیام کو تسلیم کر چکی ہے اور ہتھیار ڈال کر 90ہزار فوجی انڈیا کی قید میں دینے والے جرنیل کو معاف کر چکی ہے، تو اب ان لوگوں کے کردار کو تسلیم کرنے اور ان کی حمایت کرنے میں کیا قباحت ہے جنہوں نے اپنی جوانیاں اس ارض پاک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے لٹائیں؟ جہاں جہاں افواج پاکستان کا خون گرا وہاں ہی البدر کے نوجوانوں نے بھی بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے ایجنٹوں کا مقابلہ کیا.
جماعت اسلامی پر الزام ہے کہ 1947میں قیام پاکستان کے وقت اس نے پاکستان کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، اگرچہ یہ بات صرف الزام کی حد تک ہے اور اس ضمن میں کوئی واضح ثبوت اور دلیل پیش نہیں کی جاتی لیکن 1971میں سالمیت پاکستان کے لئے جو کردار جماعت اسلامی نے ادا کیا وہ تو واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر اس بات کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو کیوں نہیں دیا جاتا؟ اور آج پروفیسر غلام اعظم اور ان کے رفقاء بنگلہ دیش کی جیلوں میں پاکستان سے جرم محبت کے اسیر ہیں تو ارض پاک کی حکومت اور دیگر حلقوں کی جانب سے ان کی حمایت میں توانا آوازیں کیوں بلند نہیں ہوتیں؟
پروفیسر غلام اعظم کے خلاف کیس کی اگلی سماعت 14فروری کو ہے جس میں جرم ثابت ہونے پر 89سالہ پروفیسر غلام اعظم کو پھانسی کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پروفیسر غلام اعظم کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل ہونے والے ملک کے دو ٹکڑے کرنے کی مخالفت کے ’’جرم‘‘ پر سولی چڑھ کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے لیکن پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کے لئے یہ سوال چھوڑ جائین گے کہ آخر ہم ان بے شمار ’’بنگلہ دیشی پاکستانیوں‘‘ کی قربانیوں کی قدر کب کریں گے؟
فیس بک تبصرے