سقوطِ مشرقی پاکستان کے تقریباً آٹھ سال بعد جب میں اپنے ایک بنگالی دوست کے ہمراہ سائیکل رکشہ پر ڈھاکہ یونیورسٹی اور ریس کورس گراﺅنڈ کی درمیانی شاہراہ سے گزر راہ تھا تو اپنے رفیق سفر سے پوچھا ”آپ سے ” البدر “میں شامل (شہید) دوستوں کے بارے میں کچھ تفصیل سے جاننا چاہوںگا“
اس سوال پر اس کا ہشاش بشاش چہرہ اداس ہوگیا، آنکھیں اشک آلود ہوگئیں‘ ریس کورس کی جانب اس نے درد بھری نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے کہنے لگا:
“If you wish to know about the martyres of ” AL-BADAR…….. i have no courage to tell you…. when i think of the tyranny to which they were subjected, courage fails me…..my heart bleeds and my soul shudders…..You had better ask the Race course Ground and the wall of the Dhaka University campus, with all their silence, they recount the tragic tale so clearly, that i cannot do justice to the subject…….So, in this respect, brother I cannot control my tears,….. every inch of this land is cloured with the blood of our dear fellows …..the tragedy is that, We cannot even express our agony….. The nation does not recognize our sadifice, The Muslim ummah does not realise its significance… We are strangers at home and foreingers in Pakistan.”
” اگر تم ”البدر“ کے شہیدوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو یہ بتانے کی مجھ میں سکت نہیں۔۔ میں جب اس ظلم و استبداد کے بارے میںسوچتا ہوں ‘ جس کا نشانہ وہ بنائے گئے تو میرا دل چھلنی ہوجاتا ہے اور روح لرزجاتی ہے۔میںاس موضوع سے انصاف نہ کرسکوں گااس لئے تم ریس کورس گراﺅنڈاور ڈھاکہ یونیورسٹی کی خاموش دیواروں سے پوچھو،ان کی زبانی اس داستانِ رنج و الم کو بہتر انداز میںبیان کرسکے گی۔۔۔۔بھائی میں( تصور کرتا ہوں تو) اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتا کہ اس سرزمین کا چپّہ چپّہ ہماری محبوب ہستیوں کے خون سے لہو رنگ ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ ہم اس المیے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے،قوم ان قربانیوںکی معترف بھی نہیںاور مسلم امت نے اس کی قدر نہیں پہچانی،ہم گھر(بنگلہ دیش) میں اجنبی ہیں پاکستان میں غیر ملکی ۔۔۔۔۔
اس کی آواز میںلمحوں کے جبر ،قربانیوں کی ناقدری اور سیکولر سیاست کی چنگیزیت کے خلاف مجبوروں کا احتجاج پنہاں تھا۔یہ آشوبِ تاریخ ہے کہ قوموں نے اپنے محسنوں کی ناقدری ہے۔لیکن مسلمانوں میں ناقدری کی روایت بڑی پرانیاور دردناک ہے ، جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں ‘ وہ کسی بھی وقت اپنی آزادی کی زندگی سے محروم ہوسکتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں باب الاسلام کھولنے والے نوجوان محمد بن قاسم جو خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہی شہیدہوئے ،مدتوں مطلق العنان حکمرانوں نے اسے مسلم تاریخ می جائز مقام نہ دیا ،لیکن وقت نے جب نا انصافی کی گرد ہٹائی تو ابن قاسم کا روشن چہرہ روشن تر ہوگیا اور تاریخ کے اوراق نے اس سینے سے لگالیا،اور غیرت مندوں نے حمیّت کی علامت بنالیا۔ پھر اسی سرزمین پر سیّد احمد شہیدؒ، شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے وادی بالا کوٹ جہاد کیا ،ان مجاہدین کی پشت میں کچھ غدار خوانین نے چھرا گھونپا اور سکھوں کا ساتھ دیا ،انگریزوں کی مراد بر لائی گئی۔دریائے کنہار کی شوریدہ سر لہروں میں اس تحریک کامقدس لہو مل گیا۔انگریزی استعمارنے مجاہدین کے لئے گالی وضع کی اور اپنے زیر اثر علماءسو کے ذریعے ہر خاص و عام میں پھیلا دیاگیا۔اس سب کے باوجود تاریخ نے مجاہدین کو بلند مقام عطا کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں حقیقی جہاد اسلامی کی سب سے پہلی اور سب بڑی تحریک کے نقیب بن کر ابھرے ۔ اس (گذشتہ صدی ) کے چوتھے عشرے میں سرزمین ِ فلسطین پر غاصبانہ قائم ہونے والی یہودی ریاست اسرائیل کا خنجر توڑنے کے لئے بھی سب سے پہلے اخوان المسلمون کے کارکن آگے بڑھے،انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگادی‘ اخوان کی تحریک ِ جہاد کامیابی سے ہمکنار ہوا ہی چاہتی تھی کہ مصر و اردن کے مسلم بادشاہوں نے اپنے مغربی سرپرستوں کے اشارے پر اخوان پر سنگدلانہ وار کیا۔ اخوان کے مرشدِ عام امام حسن البناءشہید ؒ کو سر بازار گولی مار کر شہید کردیا،پھر مشرق و مغرب کے زیر اثر عرب ریاستوں پر قابض آمروں اور کچھ قلم کاروں نے اخوانی مجاہدین کو گردن زدنی قرار دیا ۔ ان کے لٹریچر پر پابندی عائد کردی اور صفِ اول کے قائدین کو پھانسی پر لٹکا دیا ،اسی قسم کے لوگ افغان مجاہدین کے عظیم ترین جہاد اور ان کی قربانیوں کا مقام و مرتبہ گھٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔
اس تناظر میں اگر البدر کی شہادتوں پر دو قومی نظریے کی تعبیر پاکستان اور بنگلہ دیش میں گواہی دینے والی زبانیں گنگ،نطق و حرف مفلوج اور قلم ٹوٹ گئے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہی ہونی چاہئے کہ نفاق کے اس اندھیرے میں ادنیٰ مفادات کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے والے دانشوروں کی سوچ روشنیوں کے اس سفر کا تصور اور ادراک نہیں کرسکتی۔
(سلیم منصور خالد کی تصنیف ”البدر “ سے ایک اقتباس)
سچ ہے کہ محبِ وطن کی اس دنيا ميں قدر نہيں رہی ۔ ميں نے ايک صاحب کے استفسار پر عنوان “سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب” کے تحت پچھلے ماہ مختصر ذکر کيا تھا ۔ بنگلہ ديش تو کيا بقيہ پاکستان ميں بھی محبِ وطن مشکلات سے دوچار ہيں
this issue is live till we unite